Ruh-ul-Quran - Al-Maaida : 54
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَنْ یَّرْتَدَّ مِنْكُمْ عَنْ دِیْنِهٖ فَسَوْفَ یَاْتِی اللّٰهُ بِقَوْمٍ یُّحِبُّهُمْ وَ یُحِبُّوْنَهٗۤ١ۙ اَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ اَعِزَّةٍ عَلَى الْكٰفِرِیْنَ١٘ یُجَاهِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ لَا یَخَافُوْنَ لَوْمَةَ لَآئِمٍ١ؕ ذٰلِكَ فَضْلُ اللّٰهِ یُؤْتِیْهِ مَنْ یَّشَآءُ١ؕ وَ اللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو لوگ ایمان لائے (ایمان والے) مَنْ : جو يَّرْتَدَّ : پھرے گا مِنْكُمْ : تم سے عَنْ : سے دِيْنِهٖ : اپنا دین فَسَوْفَ : تو عنقریب يَاْتِي اللّٰهُ : لائے گا اللہ بِقَوْمٍ : ایسی قوم يُّحِبُّهُمْ : وہ انہیں محبوب رکھتا ہے وَيُحِبُّوْنَهٗٓ : اور وہ اسے محبوب رکھتے ہیں اَذِلَّةٍ : نرم دل عَلَي : پر الْمُؤْمِنِيْنَ : مومن (جمع) اَعِزَّةٍ : زبردست عَلَي : پر الْكٰفِرِيْنَ : کافر (جمع) يُجَاهِدُوْنَ : جہاد کرتے ہیں فِيْ : میں سَبِيْلِ : راستہ اللّٰهِ : اللہ وَ : اور لَا يَخَافُوْنَ : نہیں ڈرتے لَوْمَة : ملامت لَآئِمٍ : کوئی ملامت کرنیوالا ذٰلِكَ : یہ فَضْلُ : فضل اللّٰهِ : اللہ يُؤْتِيْهِ : وہ دیتا ہے مَنْ يَّشَآءُ : جسے چاہتا ہے وَاللّٰهُ : اور اللہ وَاسِعٌ : وسعت والا عَلِيْمٌ : علم والا
اے ایمان والو ! جو تم میں سے اپنے دین سے پھرجائے گا تو اللہ کو کوئی پرواہ نہیں۔ وہ جلد ایسے لوگوں کو اٹھائے گا ‘ جن سے وہ محبت کرے گا اور وہ اس سے محبت کریں گے۔ وہ مسلمانوں کے لیے نرم مزاج اور کافروں کے مقابلے میں سخت ہوں گے ‘ اللہ کی راہ میں جہاد کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواہ نہ کریں گے۔ یہ اللہ کا فضل ہے ‘ وہ جس کو چاہے بخشے گا اور اللہ بڑی سمائی رکھنے والا ہے اور علم والا ہے
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَنْ یَّرْتَدَّ مِنْکُمْ عَنْ دِیْنِہٖ فَسَوْفَ یَاْتِی اللہ ُ بِقَوْمٍ یُّحِبُّھُمْ وَیُحِبُّوْنَہٗٓ لا اَذِلَّۃٍ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اَعِزَّۃٍ عَلَی الْکٰفِرِیْنَ ز یُجَاھِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ وَلاَ یَخَافُوْنَ لَوْمَۃَ لآَئِمٍ ط ذٰلِکَ فَضْلُ اللہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآئُ ط وَ اللہ ُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ۔ (المائدہ : 54) ” اے ایمان والو ! جو تم میں سے اپنے دین سے پھرجائے گا تو اللہ کو کوئی پرواہ نہیں۔ وہ جلد ایسے لوگوں کو اٹھائے گا ‘ جن سے وہ محبت کرے گا اور وہ اس سے محبت کریں گے۔ وہ مسلمانوں کے لیے نرم مزاج اور کافروں کے مقابلے میں سخت ہوں گے ‘ اللہ کی راہ میں جہاد کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواہ نہ کریں گے۔ یہ اللہ کا فضل ہے ‘ وہ جس کو چاہے بخشے گا اور اللہ بڑی سمائی رکھنے والا ہے اور علم والا ہے “۔ دین کا کام کرنے والوں کی صفات یہاں خطاب اگرچہ مسلمانوں سے ہے ‘ لیکن روئے سخن منافقین ہی کی طرف ہے۔ ان سے صاف فرمایا جا رہا ہے کہ تم میں سے جو بھی دین سے پھرجائے گا ‘ وہ دین کا کوئی نقصان نہیں کرسکے گا بلکہ اللہ تعالیٰ اپنے دین کی حفاظت کے لیے ایسے لوگوں کو کھڑا کرے گا ‘ جن میں یہ یہ صفات ہوں گی۔ یہاں جن لوگوں کا ذکر کیا جا رہا ہے ‘ جن کو ان کے مقابلے میں اٹھایا جائے گا ‘ وہ کون لوگ ہوں گے ؟ اس بارے میں اہل تفسیر کی دو رائے ہیں۔ ایک رائے یہ ہے کہ یہ آیت درحقیقت آنے والے فتنہ کی پیشین گوئی اور اس کا ہمت کے ساتھ مقابلہ کر کے کامیاب ہونے والی جماعت کے لیے بشارت ہے۔ آنے والے فتنہ سے مراد فتنہ ارتداد ہے ‘ جس کے کچھ جراثیم تو عہد نبوت کے بالکل آخری ایام میں پھیلنے لگے تھے اور پھر آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد پورے جزیرۃ العرب میں اس کا طوفان کھڑا ہوگیا اور بشارت پانے والی جماعت صحابہ کرام ( رض) کی ہے جس نے خلیفہ اول حضرت صدیق اکبر ( رض) کے ساتھ مل کر اس فتنہ ارتداد کا مقابلہ کیا۔ واقعات یہ تھے کہ سب سے پہلے تو ” مسیلمہ کذاب “ نے آنحضرت ﷺ کے ساتھ شریک نبوت ہونے کا دعویٰ کیا اور یہاں تک جرأت کی کہ آپ کے قاصدوں کو یہ کہہ کر واپس کردیا کہ اگر ساری دنیا میں قاصدوں اور سفیروں کا قتل کرنا حرام نہ ہوتا تو میں تمہیں قتل کردیتا۔ اسی طرح یمن میں قبیلہ مذحج کے سردار ” اسود عنسی “ نے اپنی نبوت کا اعلان کردیا۔ رسول کریم ﷺ نے اپنی طرف سے مقرر کیے ہوئے حاکم یمن کو اسکا مقابلہ کرنے کا حکم دیا ‘ مگر جس رات میں اس کو قتل کیا گیا ‘ اس کے اگلے دن ہی آنحضرت ﷺ کی وفات ہوگئی۔ صحابہ کرام ( رض) تک اس کی خبر ربیع الاول کے آخر میں پہنچی۔ اسی طرح قبیلہ بنو اسد کے سردار ” طلیحہ بن خویلد “ نے بھی نبوت کا دعویٰ کردیا۔ یہ تین وہ جھوٹے اشخاص ہیں ‘ جنھوں نے آپ کی زندگی ہی میں نبوت کا دعویٰ کیا اور اس طرح ارتداد کا راستہ کھولا۔ لیکن آپ کی وفات کی خبر نے اس فتنہ ارتداد کو ایک طوفانی شکل دے دی اور عرب کے سات قبیلے مختلف مقامات پر اسلام اور اس کی حکومت سے منحرف ہوگئے اور خلیفہ وقت حضرت ابوبکر صدیق ( رض) کو اسلامی قانون کے مطابق زکوٰۃ ادا کرنے سے انکار کردیا۔ سرور کائنات ﷺ کی وفات کے بعد ملک و ملت کی ذمہ داری خلیفہ اول حضرت صدیق اکبر ( رض) پر عائد ہوئی ایک طرف ان حضرات پر اس حادثہ عظیم کا صدمہ جاں گداز اور دوسری طرف یہ فتنوں اور بغاوتوں کے سیلاب۔ حضرت عائشہ صدیقہ ( رض) فرماتی ہیں کہ رسول کریم ﷺ کی وفات کے بعد جو صدمہ میرے والد حضرت ابوبکرصدیق ( رض) عنہ پر پڑا ‘ اگر وہ مضبوط پہاڑوں پر بھی پڑجاتا تو ریزہ ریزہ ہوجاتے۔ مگر اللہ تعالیٰ نے آپ کو صبر و استقامت کا وہ اعلیٰ مقام عطا فرمایا تھا کہ تمام آفات و مصائب کا پوری عزم و ہمت کے ساتھ مقابلہ کیا اور بالآخر کامیاب ہوگئے۔ اس لیے حضرت علی ‘ حسن بصری ‘ ضحاک ‘ قتادہ وغیرہ جمہور آئمہ تفسیر نے بیان فرمایا ہے کہ یہ آیت حضرت ابوبکر صدیقص اور ان کے ساتھیوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ وہی سب سے پہلے اس قوم کا مصداق ثابت ہوئے ‘ جن کے من جانب اللہ میدان میں لائے جانے کا آیت مذکورہ میں ارشاد ہے۔ دوسری رائے یہ ہے کہ آیت نمبر 41 جہاں سے اس بحث کا آغاز ہوا ‘ وہاں آنحضرت ﷺ کو خطاب فرما کر پروردگار نے تسلی دی ہے کہ اے پیغمبر ! یہ منافقین ‘ جو کفر میں سبقت کرتے جا رہے ہیں ‘ آپ ان کے طرز عمل سے دل گرفتہ نہ ہوں۔ یہ صحیح ہے کہ حقیقی کمانڈر کو فوج کا ایک ایک سپاہی عزیز ہوتا ہے جبکہ اس کا مقابلہ بھی دنیا بھر کے دشمنوں سے ہو۔ جب وہ دیکھتا ہے کہ میری فوج کے سپاہیوں میں ایسے لوگ موجود ہیں ‘ جو بجائے اسلام کو اپنا سب کچھ سمجھنے کے غیر مسلم قوتوں کی آغوش سے نکلنے کا نام نہیں لیتے بلکہ بار بار انھیں کی پناہ میں جانے کی کوشش کرتے ہیں تو کمانڈر کو یہ دیکھ کر دکھ ہوتا ہے کہ اس طرح میری فوج کی افرادی قوت اور اس کے اصل جوہر میں بھی کمی آجائے گی تو پھر دنیا بھر کے دشمنوں سے عہدہ برآ ہونا کس طرح ممکن ہوگا۔ آنحضرت ﷺ کے ساتھ ان منافقین کے طرز عمل کو دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ کچھ ایسے ہی احساسات تھے ‘ جن پر آپ کو تسلی دی جا رہی ہے اور اس کا اختتام مذکورہ آیت میں اس بات پر ہو رہا ہے کہ آپ افرادی قوت کے کم ہونے کے اندیشہ سے پریشان ہیں حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ اگر اپنے طرز عمل سے بڑھ کر بھی ارتداد کا راستہ اختیار کرلیں تو یہ اللہ کے دین کا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے ‘ اس کا محافظ خود پروردگار ہے۔ ان کے نکل جانے کے بعدوہ ان کی جگہ ایک تازہ دم فوج لائے گا ‘ جو ان جیسے نہیں ہوں گے۔ چناچہ جب ہم تاریخ کے آئینہ میں دیکھتے ہیں تو صاف دکھائی دیتا ہے کہ ” اسود عنسی “ کے مقابلے میں ” ابومسلم خولانی “ جیسے مجاہدوں نے جان پر کھیل کر اپنا فرض انجام دیا اور یمن کو اپنی ایمانی حرارت سے گرما دیا اور ” مسیلمہ کذاب “ کے چالیس ہزار لشکری ‘ جو اس کی بہت بڑی قوت تھے اور جن کی جنگجوئی اور شجاعت میں پورا عرب رطب اللسان تھا ‘ مسیلمہ کے قتل کے بعد اللہ نے اس پوری قوت کو اس طرح اسلام کی قوت میں ڈھالا کہ انہی کی سرفروشیوں سے عراق اور شام حتیٰ کہ اس زمانے کی بڑی بڑی طاقتیں بالآخر اسلام کی آغوش میں آئیں اور اسلامی قوت کے سامنے یہ ملک سرنگوں ہوتے چلے گئے۔ ایسے پاکیزہ لوگوں کے اٹھانے کی خبر پر پروردگار نے اکتفا نہیں فرمایا بلکہ ان کی پاکیزہ صفات کا بھی ذکر کیا تاکہ ایک طرف پوری دنیا کو یہ معلوم ہوجائے کہ جو لوگ اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے اٹھتے ہیں ‘ ان کی صفات کیا ہوتی ہیں اور دوسری طرف منافقین کو یہ بتلانا ہے کہ تم نے اسلام کا لبادہ تو اوڑھ رکھا ہے ‘ لیکن یہ صفات تمہارے اندر نہیں ہیں۔ اگر تم واقعی حقیقی مومن بننا چاہتے ہو تو تمہیں اپنے اندر یہ صفات پیدا کرنی چاہئیں۔ اب ہم ایک ایک کر کے ان صفات کا ذکر کرتے ہیں۔ 1 اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے کام کرنے والوں میں سب سے پہلی صفت یہ ہوتی ہے : یُحِبُّھُمْ وَ یُحِبُّوْنَہٗ ( اللہ ان سے محبت کرتا ہے اور وہ اللہ سے محبت کرتے ہیں ) اللہ کی محبت کسی کے نام و نسب ‘ شکل و صورت اور مال و جان سے نہیں ‘ بلکہ ایمان و عمل اور اخلاق و کردار سے ہوتی ہے۔ اب رہی یہ بات کہ ایمان و عمل اور اخلاق و کردار کا معیار کیا ہے ‘ جس کے نتیجے میں اللہ کی محبت نصیب ہوتی ہے ؟ قرآن کریم کے قربان جایئے ‘ اس نے اس مشکل سوال کا ایک متعین جواب مرحمت فرمایا ہے۔ فرمایا : قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللہ َ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللہ ُ (ال عمران 31) (اے پیغمبر ! کہہ دیجئے کہ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو پھر میری پیروی کرو ‘ اللہ تم سے محبت کرے گا) یعنی ایمان و عمل کا معیار رسول اللہ ﷺ کی اتباع ہے اور یہ وہ سرمایہ ہے ‘ جس کے حاصل ہوجانے کے بعد اللہ کی محبت نصیب ہوسکتی ہے تو یہ لوگ ‘ جو اللہ کے دین کی علمبرداری کے لیے اٹھیں گے ‘ ان کی پہلی شناخت یہ ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کی اتباع میں کامل ہوں گے۔ دوسری بات فرمائی کہ یہ لوگ اللہ سے محبت کرتے ہیں۔ اس کا مطلب واضح ہے کہ جو آدمی اللہ سے محبت کا دعویدار ہے ‘ وہ یقینا اسلام کے ساتھ وفاداری کا تعلق رکھتا ہوگا اور اس تعلق کے ساتھ یکسوئی میں اس میں کوئی کمی نہیں ہوگی۔ وہ اپنی وفاداری اور سرفروشی کا حوالہ اللہ کے سوا کسی اور کو ہرگز نہیں بنائے گا۔ اس کے لیے یہ بات ممکن ہی نہیں ہوگی کہ وہ اللہ کے دین کے دشمنوں کے ساتھ ایسا تعلق رکھے ‘ جس سے اسلام یا مسلمانوں کے مجموعی مفادات پر آنچ آتی ہو۔ اس کا رویہ کبھی ان منافقین جیسا نہیں ہوگا ‘ جو محض اس اندیشہ سے کہ آنے والے دنوں میں ہوسکتا ہے کفر کو غلبہ مل جائے اور ہمارے مفادات محفوظ نہ رہیں ‘ اسلام کی دشمن قوتوں سے پینگیں بڑھانے سے بھی گریز نہ کریں۔ اللہ کے ان سپاہیوں کو اس بات سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ آنے والے دنوں میں حالات کیسے ہوں گے ‘ خطرات کا عالم کیا ہوگا ‘ کس طرح کے مصائب سے دوچار ہونا پڑے گا۔ وہ تو صرف ایک بات کو جانتے ہیں کہ ہمیں چونکہ اپنے اللہ سے محبت ہے تو اس سے وفاداری اور اس کے دین کی پابندی ہی ہماری اول و آخر ترجیح ہے اور یہ ہماری محبت کا کم سے کم تقاضہ ہے ‘ یہ بات ہمارے سوچنے کی نہیں کہ اس محبت کی قیمت ہمیں کیا ادا کرنا ہوگی۔ اس کے لیے انھیں سر بھی کٹوانا پڑے تو وہ اسے بھی کوئی بڑی قیمت نہیں سمجھتے۔ انتہائی نامساعد حالات میں ان کی سوچ کا انداز یہ ہوتا ہے ؎ ہری ہے شاخ تمنا ‘ ابھی جلی تو نہیں دبی ہے آگ دل کی ‘ مگر بجھی تو نہیں جفا کی تیغ سے گردن وفا شعاروں کی کٹی ہے برسر میداں ‘ مگر جھکی تو نہیں 2 ” اَذِلَّۃٍ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ “ مسلمانوں کے لیے نرم مزاج۔ ’ ’ اَذِلَّۃٍ “ یہ ذلیل یا ذلول کی جمع ہے۔ صاحب قاموس نے تصریح کی ہے کہ یہ لفظ دونوں کی جمع کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ ذلول کا معنی ہے ” نرم خو ‘ نرم مزاج ‘ فرماں بردار ‘ متواضع اور سہل الا نقیاد “ یعنی یہ لوگ مسلمانوں کے لیے نہایت نرم خو ‘ بھولے بھالے ہر پہلو سے لچک قبول کرنے والے اور ہر سانچے میں ڈھل جانے والے ہوتے ہیں۔ اللہ انھیں اگر اقتدار بھی عطا کر دے تو ان کی ان صفات میں کبھی کمی نہیں آتی۔ ناواقف آدمی انھیں دیکھے تو ایک مزدور سمجھے اور جسے ان سے معاملہ کرنے کا موقع ملے ‘ وہ ان کو نہایت وسیع القلب ‘ متحمل اور ایثار کا پیکر پائے۔ اگر کبھی اپنے جائز حقوق کے بارے میں بھی انھیں کسی ضدی اور جھگڑالو آدمی سے واسطہ پڑجائے تو وہ اپنے جائز حقوق سے دستبردار ہونے سے بھی دریغ نہ کریں کیونکہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ان کے پیش نظر رہتا ہے : اَنَا زَعِیْمٌ بَبَیَتِ فِیْ رَبْضِ الْجَنَّۃَ لِمَنْ تَرَکَ الْمِرَائَ وَھُوَ مُحِقٌ (میں ضمانت دیتا ہوں عین وسط جنت میں گھر لے کردینے کی اس آدمی کو ‘ جو حقدارہوتے بھی جھگڑا چھوڑ دے) 3 ” اَعِزَّۃٍ عَلَی الْکٰفِرِیْنَ “ کافروں کے مقابلے میں سخت۔ ” اَعِزَّۃٍ “ عزیز کی جمع ہے۔ یہ بالکل ذلیل یا ذلول کے مقابل لفظ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کے معنی ہیں ” سخت ‘ مشکل ‘ بھاری ‘ ناقابل شکست ‘ ناقابل عبور اور عسیرالانقیاد “ یعنی یہ لوگ مسلمانوں کے مقابلے میں نہایت نرم ہوں تو ہوں ‘ لیکن کافروں کے مقابلے میں پتھر کی چٹان ہوتے ہیں۔ وہ اگر اپنے اغراض و مقاصد کے لیے ان کو استعمال کرنا چاہیں تو کہیں سے انگلی دھنسانے کی جگہ نہ پاسکیں۔ ان کی صحیح منظر کشی اقبال نے کی ہے ؎ ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم رزمِ حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن جس سے جگرِ لالہ میں ٹھنڈک ہو وہ شبنم دریائوں کے دل جس سے دہل جائیں وہ طوفاں اس کے برعکس منافقین کا رویہ یہ ہوتا ہے کہ وہ مسلمانوں کو دھوکہ دینے کے لیے تو بڑے ہوشیار اور گھاگ ہوتے ہیں۔ پٹھے پر ہاتھ نہیں رکھنے دیتے لیکن یہود اور مشرکین کے ہاتھوں میں موم کی ناک اور کٹھ پتلی بنے رہتے ہیں۔ وہ جس طرف چاہتے ہیں ‘ انھیں موڑتے اور جس طرح چاہتے ہیں ‘ انھیں نچاتے ہیں۔ قرنِ اول کے مسلمانوں میں ہمیں بڑے سے بڑے معرکے میں بھی مسلمانوں کی یہ صفت چلتی پھرتی دکھائی دیتی ہے۔ دشمن کے لیے ایک ایک مسلمان لوہے کا چنا ثابت ہوتا ہے ‘ لیکن جب ان کا معاملہ مسلمانوں سے پڑتا ہے تو یہ ریشم سے زیادہ نرم ثابت ہوتے ہیں۔ 4 ” یُجَاھِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ وَلاَ یَخَافُوْنَ لَوْمَۃَ لَآئِمٍ ط “ وہ لوگ اللہ کے راستے میں جہاد کرتے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے ڈرتے نہیں ہیں۔ ان پاکیزہ صفات لوگوں کی یہ چوتھی صفت ہے ‘ جو پہلی تین صفات کا منطقی نتیجہ ہے۔ ظاہر ہے کہ جو لوگ صرف اللہ ہی سے محبت کریں اور اللہ کے مقابلے میں دشمن قوتوں کے سامنے سرنگوں ہونے سے انکار کردیں اور دشمن انھیں ہر قیمت پر اپنے سامنے سرنگوں ہونے کے لیے مجبور کریں تو پھر ان کے سامنے ایک ہی راستہ رہ جاتا ہے کہ اللہ کی محبت کا حق ادا کرتے ہوئے اور اس کے دین کی سربلندی کے لیے اعلائے کلمۃ الحق کا فرض انجام دیتے ہوئے ‘ جو کچھ ان کے بس میں ہے ‘ وہ کر گزریں۔ جہاد اپنی ہمت اور توانائی کو آخری حد تک اللہ کے دین کی گواہی اور کلمہ حق کی سربلندی کے لیے خرچ کرنے اور کھپا دینے کا نام ہے۔ یہ سعی و محنت کبھی علمی اسلوب میں ہوتی ہے تو استدلال کی قوت ‘ افکار کی صداقت و سطوت اور زبان و قلم کی رعنائی سے کام لیا جاتا ہے۔ لوگوں میں نفوذ پیدا کرنے کے لیے دوڑ بھاگ اور میل ملاپ سے کام لیا جاتا ہے۔ کبھی پاکیزہ سیاسی طور اطوار اختیار کر کے ریاست کے مختلف اداروں میں فہم و تفہیم کا راستہ اختیار کیا جاتا ہے۔ کبھی قانونی اور آئینی جنگ لڑنی پڑتی ہے۔ لیکن اگر ان تمام راستوں کو بالجبر بند کرنے کی کوشش کی جائے یا دشمن دین قوتیں مسلمانوں کا جینا دوبھر کردیں تو پھر قتال تک بھی نوبت پہنچ سکتی ہے ‘ نتیجتاً جہاد قتال کی صورت اختیار کرلیتا ہے۔ اب مسلمان اپنے پاس موجود قوت کے تمام ذرائع اور وسائل سے کام لیتے ہوئے اپنا فرض ادا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ لیکن یہ جو کچھ ہوگا، فی سبیل اللہ ہوگا یعنی اللہ کے راستے میں ہوگا ‘ اپنے نفس کے راستے میں یا شہرت و نمود کی خاطر یا قوم کے مالی مفادات کے لیے یا محض اپنی کلغی اونچی کرنے کے لیے نہیں ہوگا۔ اس کا مقصد اعلائے کلمۃ الحق اور اللہ کی رضا کا حصول ہوگا اور اگر اس پر اس سے متصادم کسی اور جذبے یا خواہش کی پرچھائیں بھی پڑجائے تو یہ ساری تگ و دو اور جہاد و قتال مسموم ہو کر رہ جاتا ہے اور اسلام میں اس کے لیے کوئی گنجائش نہیں۔ واضح ہے کہ یہ ایک جانگسل مرحلہ ہے اور جان پر کھیل جانے کی ایک کوشش ہے۔ جس کو اختیار کرنے سے پہلے آدمی کو ہر طرح کے علائق سے دامن کشاں ہونا پڑتا ہے۔ وہ پوری سنجیدگی سے اس راستے پر چلنے سے پہلے اس کے مخالف تقاضوں کو نظر انداز کر کے یکسو ہوجاتا ہے اور اگر کوئی اس راستے میں اس کے لیے عناں گیر ہونا چاہتا ہے تو وہ جھٹک کر اپنے راستے پر چل پڑتا ہے۔ اس لیے یہاں ارشاد فرمایا گیا کہ وہ لوگ اللہ کے راستے میں جہاد کرتے ہیں اور پھر کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے ڈرتے نہیں ہیں کیونکہ وہ اپنے گھر سے یہ فیصلہ کر کے نکلتے ہیں کہ اس راستے میں ہمیں کسی کی بات سننی نہیں ہے اور زندگی کا تجربہ یہ ہے کہ جب بھی کوئی انسان کسی بڑے اقدام کا فیصلہ کرتا ہے اور کسی بھی عزم و جزم والے راستے پر چلنے کی کوشش کرتا ہے اور یا ایسا فرض انجام دینا چاہتا ہے ‘ جس میں قدم قدم پر بلائوں سے واسطہ پڑ سکتا ہے تو سب سے پہلی چیز جو اس کا دامن کھینچتی ہے ‘ وہ یہی ملامت کرنے والے کی ملامت ہے یعنی اپنے احباب کا حلقہ ‘ اس کے لیے حلقہ زنجیر بن جاتا ہے۔ اس کے عزیز و اقارب بات بات پر اسے سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ تم آخر یہ کیا کام کرنے لگے ہو۔ ایک بالکل معمولی سی مثال سے یہ بات سمجھ میں آسکتی ہے کہ کوئی آدمی اگر اپنے بچے کو اس خیال سے کسی دینی مدرسے میں داخل کروا دے کہ کم از کم میں اپنے ایک بیٹے کو عالم بنا کر اللہ کے سامنے سرخرو ہوجاؤں تو پورا خاندان اس کے پیچھے پڑجاتا ہے کہ تم اپنے بچے کو مسیتڑ بنا کر کیوں برباد کرنے لگے ہو۔ اگر کوئی آدمی تنگی ترشی میں گزارا کرتا ہے ‘ جب کہ وہ ایک ایسی سیٹ پر بیٹھا ہے ‘ جس میں مال حرام کمانے کے ذرائع کشادہ ہیں تو اس کے دفتر کے احباب نصیحتوں سے اس کا جینا مشکل کردیں گے۔ بیشمار مثالیں ہیں ‘ جو ہمارے گردوپیش میں پھیلی ہوئی ہیں ‘ جس میں ہم دیکھ سکتے ہیں کہ نیکی پر چلتے ہوئے جو سب سے پہلے اور نہایت جاندار قسم کی رکاوٹ پیش آتی ہے ‘ وہ یہی سمجھانے والوں کا سمجھانا اور ملامت کرنا ہے۔ اس لیے ہم شعرا کو دیکھتے ہیں ‘ چاہے وہ عرب کے ہوں یا عجم کے کہ جب وہ عشق کی وادی میں داخل ہوتے ہیں ‘ یہ چونکہ سب کچھ کھو دینے والی وادی ہے تو وہ سب سے پہلے انہی ملامت کرنے والوں کی ملامت اور ناصحین کی نصیحت کا ذکر کرتے ہیں۔ دور کیوں جایئے ہمارے اردو کا بہت بڑا شاعر مرزا غالب بھی بڑے عزم کے ساتھ ناصحین کی نصیحت کو رد کرتا ہوا کہتا ہے : حضرتِ ناصح گر آویں دیدہ و دل فرش راہ کوئی مجھ کو یہ تو سمجھا وے کہ سمجھائیں گے کیا اور پھر وہ دوستوں کی شکایت کرتا ہوا کہتا ہے ؎ یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست ناصح کوئی چارہ ساز ہوتا ‘ کوئی غمگسار ہوتا مختصر یہ کہ فتنہ ارتداد کا مقابلہ کرنے کے لیے اللہ جس اولوالعزم گروہ کو اٹھائے گا ‘ ان کی یہ پاکیزہ صفات ہوں گی۔ لیکن ان کے ساتھ ساتھ ایک اور صفت بھی ان میں ہوگی کہ وہ اپنی ان صفات کو اپنی ذاتی صلاحیتوں اور محنتوں کا نتیجہ نہیں سمجھیں گے۔ وہ سب کچھ ہوتے ہوئے بھی اس بات کا یقین رکھتے ہیں کہ ایمان و عمل کی راہ پر چلنا اور ان کا حق ادا کرنا ہر آدمی کی ذمہ داری ہے۔ لیکن یہ راستہ اللہ کی توفیق کے بغیر سر ہونا ممکن نہیں ہے اور اگر اس راستے میں کچھ کامیابیاں ملیں تو شیطان پھر بہکانے کی کوشش کرتا ہے اور دل میں یہ بات ڈالتا ہے کہ تم تو ماشاء اللہ بڑی قدآور شخصیت بن گئے ہو۔ اس لیے فرمایا کہ ان کے باطن کی پاکیزگی اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ ذٰلِکَ فَضْلُ اللہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآئُ ( یہ اللہ کا فضل ہے ‘ وہ جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے ) ان کی یہ ساری صفات اللہ کے فضل و کرم کا نتیجہ ہیں اور یہ فضل جسے بھی ملتا ہے ‘ اس کی توفیق سے ملتا ہے۔ البتہ یہ بات ضرور ہے کہ اس کی مشیت اور اس کی توفیق بندوں کی محنت و عمل اور حسن نیت کو دیکھ کر فیصلہ کرتی ہے۔ لیکن ہر بات کا سر رشتہ اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے ‘ اس لیے ہمیشہ اسی سے مانگتے رہنا چاہیے۔ بقول اکبر ؎ کیا فائدہ فکرِ بیش و کم سے ہوگا ہم کیا ہیں ‘ جو کوئی کام ہم سے ہوگا جو ہوا ‘ ہوا کرم سے تیرے جو ہوگا ‘ تیرے کرم سے ہوگا صفات کے اس آئینہ میں اصلاً منافقین کو اپنی شکل دیکھنے کا موقع دیا جا رہا ہے کہ اللہ کے راستے پر چلنے والے اور ایمان و یقین کا حق ادا کرنے والے لوگ ‘ وہ ان صفات کے حامل ہوتے ہیں۔ وہ تو صرف اللہ سے محبت کرتے ہیں اور اللہ ہی کے راستے میں فدا ہوتے ہیں۔ دشمنانِ دین سے وہ کبھی ایسا تعلق قائم کرنے کا تصور بھی نہیں کرسکتے ‘ جس سے اسلامی صفوں میں دراڑیں پڑ سکیں۔ اس کے برعکس تم اچھی طرح اس آئینے میں اپنا چہرہ دیکھو ‘ تمہیں صاف نظر آئے گا کہ تم ان صفات میں سے کسی صفت کے بھی حامل نہیں ہو۔ تمہیں بجائے اللہ سے محبت کے ‘ یہود و نصاریٰ سے محبت ہے۔ تم بجائے اللہ پر اعتماد کرنے اور اسے معتمد سمجھنے کے ‘ تم یہود و نصاریٰ کو اپنا معتمد سمجھتے ہو اور اپنے مستقبل میں انہی پر اعتماد رکھتے ہو۔ اب بھی تمہارے لیے سمجھنے کا دروازہ بند نہیں ہوا۔ اس لیے اب ہم مثبت انداز میں تمہیں توجہ دلا رہے ہیں کہ اچھی طرح اس بات کو سمجھ لو کہ زندگی میں تمہارا ولی ‘ تمہارا دوست اور تمہارا معتمد کون ہے۔ ارشاد فرمایا :
Top