Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Maarif-ul-Quran - Al-Maaida : 54
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَنْ یَّرْتَدَّ مِنْكُمْ عَنْ دِیْنِهٖ فَسَوْفَ یَاْتِی اللّٰهُ بِقَوْمٍ یُّحِبُّهُمْ وَ یُحِبُّوْنَهٗۤ١ۙ اَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ اَعِزَّةٍ عَلَى الْكٰفِرِیْنَ١٘ یُجَاهِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ لَا یَخَافُوْنَ لَوْمَةَ لَآئِمٍ١ؕ ذٰلِكَ فَضْلُ اللّٰهِ یُؤْتِیْهِ مَنْ یَّشَآءُ١ؕ وَ اللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ
يٰٓاَيُّھَا
: اے
الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا
: جو لوگ ایمان لائے (ایمان والے)
مَنْ
: جو
يَّرْتَدَّ
: پھرے گا
مِنْكُمْ
: تم سے
عَنْ
: سے
دِيْنِهٖ
: اپنا دین
فَسَوْفَ
: تو عنقریب
يَاْتِي اللّٰهُ
: لائے گا اللہ
بِقَوْمٍ
: ایسی قوم
يُّحِبُّهُمْ
: وہ انہیں محبوب رکھتا ہے
وَيُحِبُّوْنَهٗٓ
: اور وہ اسے محبوب رکھتے ہیں
اَذِلَّةٍ
: نرم دل
عَلَي
: پر
الْمُؤْمِنِيْنَ
: مومن (جمع)
اَعِزَّةٍ
: زبردست
عَلَي
: پر
الْكٰفِرِيْنَ
: کافر (جمع)
يُجَاهِدُوْنَ
: جہاد کرتے ہیں
فِيْ
: میں
سَبِيْلِ
: راستہ
اللّٰهِ
: اللہ
وَ
: اور
لَا يَخَافُوْنَ
: نہیں ڈرتے
لَوْمَة
: ملامت
لَآئِمٍ
: کوئی ملامت کرنیوالا
ذٰلِكَ
: یہ
فَضْلُ
: فضل
اللّٰهِ
: اللہ
يُؤْتِيْهِ
: وہ دیتا ہے
مَنْ يَّشَآءُ
: جسے چاہتا ہے
وَاللّٰهُ
: اور اللہ
وَاسِعٌ
: وسعت والا
عَلِيْمٌ
: علم والا
اے ایمان والو ! اگر کوئی تم میں سے اپنے دین سے پھرجائے گا تو خدا ایسے لوگ پیدا کردے گا جن کو وہ دوست رکھے اور جسے وہ دوست رکھیں اور جو مومنوں کے حق میں نرمی کریں اور کافروں سے سختی سے پیش آئیں خدا کی راہ میں جہاد کریں اور کسی ملامت کرنے والے سے نہ ڈریں۔ یہ خدا کا فضل ہے وہ جسے چاہتا ہے دیتا ہے اور خدا بڑی کشائش والا اور جاننے والا ہے۔
فتنہ ارتداد اور غلبہ اسلام کی پیشن گوئی۔ قال تعالی، یا ایھا الذین آمنوا۔۔۔۔ الی۔۔۔۔ ھم الغالبون۔ ربط) ۔ اوپر کی آیت میں جو ارتداد سے بچانے کے لیے مسلمانوں کو حکم ہوا تھا کہ کفار سے دوستی نہ کریں جو ان سے محبت کرے گا وہ فی الحال یافی المال انہیں میں سے ہوجائے گا یعنی مرتد ہوجائے گا لہذا اب اس آیت میں ارتداد کی سزا ارشاد فرماتے ہیں اور عنقریب پیش آنے والے فتنہ ارتداد اور اسلام کے غلبہ اور اسی کے ابدی بقاء اور حفاظت اور تائید غیبی کے متعلق ایک عظیم الشان پیش گوئی فرماتے ہیں اور نزول آیت کے وقت جو مسلمان موجود تھے ان کو پہلے ہی سے یہ خبر دیتے ہیں کہ عنقریب فتنہ ارتداد پیش آئے گا اور تم میں کے کچھ لوگ مرتد ہوجائیں گے اس خبر کی ساتھ ہی ساتھی یہ بشارت سناتے ہیں کہ اس فتنہ سے اسلام اور مسلمانوں کو کوئی ضرر نہیں پہنچے گا اور اللہ تعالیٰ نے اس فتنہ کے قلع قمع کرنے کے لیے عالم غیب سے یہ تدبیر مقرر کی ہے کہ خاصان خدا کی ایک جماعت ان مرتدین کے قتل و قتال کے لیے من جانب اللہ برانگیختہ کی جائے گی جو ان مرتدین کی ایسی سرکوبی کرے گی کہ کفر سراٹھانے کے قابل نہ رہیگا اور یہ حق جل شانہ کی سنت ہے کہ جو شخص یا جو جماعت اسلام میں فتنہ اور رخنہ ڈالنے کے لیے کھڑی ہوتی ہے تو اللہ ان کی سرکوبی کے لیے ایسے جاں نثار اور وفادار مسلمانوں کو کھڑا کردیتا ہے جنہیں خدا کی راہ میں کسی کی ملامت اور طعن وتشنیع کی پرواہ نہیں ہوتی کماقال تعالی، وان تتولوا یسبدل۔۔۔ الی۔۔۔ بعزیز۔ آیت۔ چناچہ فرماتے ہیں کہ اے ایمان والو ایمان کا مقتضی یہ ہے کہ خدا کے دشمنوں یعنی کافروں کی محبت اور صحبت سے بچتے رہو کیونکہ ان کی صحبت اور محبت سے مرتد ہوجانے کا اندیشہ ہے خوب سن لو جو کوئی تم میں سے مرتد ہوجائے گا یعنی دین اسلام سے پھرجائے گا تو اس کے ارتداد سے دین جو کوئی تم میں سے مرتد ہوجائے گا یعنی دین اسلام سے پھرجائے گا تو اس سے ارتداد دین اسلام کو کوئی نقصان نہ ہوگا اسلیے کہ اللہ اس فتنہ ارتداد کی سرکوبی کے لیے عنقریب ایسی جماعت اور گروہ کو اپنے ساتھ لائے گا یہ ساتھ لانا بقوم میں باالصاق کا ترجمہ ہے اور کسی کو ساتھ لانے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ خود بھی ساتھ آئے اور ظاہر ہے کہ اللہ جس کو ساتھ لے کر آئے گا اور جس کے ساتھ آئے گا وہ بلاشبہ اس کا محبوب اور مقرب ہوگا اس لیے آئندہ ان میں چاروصف ہوں گے اور وہ چار وصف یہ ہوں گے جن کا آئندہ ذکر فرماتے ہیں۔ (1) ۔ اللہ تعالیٰ ان سے محبت رکھے گا اور وہ اللہ سے محبت رکھیں گے یعنی یہ جماعت اللہ تعالیٰ کی محب اور عاشق بھی ہوگی اور محبوب بھی ہوگی۔ (2) ۔ ایمانداروں کے حق میں وہ نرم اور مہربان اور دشمنان خدا کے مقابلہ میں سخت ہوں گے تاکہ خدا کے مقابلہ میں سرکشی کرنے والوں کا غرور کافور ہوجائے۔ (3) ۔ خدا کی راہ میں دل کھول کر جہاد کریں گے ان کی گردنیں ماریں گے اور ان کے بچوں اور عورتوں کو گرفتار کرکے غلام بنائیں گے اور ان کے املاک اور اموال کو لوٹیں گے۔ (4) ۔ اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت اور طعن وتشنیع سے نہ ڈریں گے یعنی کسی کی ملامت اور طعن وتشنیع سے متاثر ہو کر اللہ کے باغیوں کی سرکوبی میں کمی نہ کریں گے جیسا کہ اہل نفاق کاشیوہ ہے کہ وہ دائیں اور بائیں دیکھتے رہتے ہیں یہ صفات مذکورہ فاضلہ اللہ کا فضل ہیں جس کو چاہتا ہے یہ فضل عطا کرتا ہے یعنی ان صفات فاضلہ مذکورہ کے ساتھ متصف ہونا اللہ کا فضل ہے بغیر اس کی مہربانی اور عنایت اور توفیق کے کوئی خود بخود ان صفات فاضلہ کے ساتھ متصف نہیں ہوسکتا، تا نہ بخشد خدائے بخشدہ۔ اور اللہ بڑا وسعت والا اور دانا ہے نہ اللہ کے خزانہ میں کوئی کمی ہے اور نہ اس کے جودوکرم میں کوئی کمی ہے جس کو چاہے اپنے خزانہ رحمت سے یہ صفات فاضلہ عطا کرے اور وہ علام الغیوب ہے وہ خوب جانتا ہے کہ کون ان صفات کا اہل ہے ہے اور کون نہیں اور اللہ نے ان صفات فاضلہ کا ذکر اس لیے فرمایا کہ معلوم ہوجائے کہ جو جماعت مرتدین سے جہاد و قتال کرے گی وہ اعلی درجہ کے مومنین مخلصین ہوں گے منافق نہ ہوں گے۔ خلاصہ مطلب آیت کا یہ ہے کہ اے مسلمانوں جو اس آیت کے نزول کے وقت اہل ایمان اور اخلاص ہیں تم کو پیش آنے سے پہلے ہی خبر دی جاتی ہے کہ عنقریب مسلمانوں میں کے کچھ لوگ اسلام سے مرتد ہوجائیں گے تو خوب سمجھ لیں کہ وہ اللہ کا کچھ بگاڑ نہیں سکتے اللہ اپنے دین کی حمایت اور حفاظت کے لیے ایک ایسی قوم کو کھڑا کرے گا جن میں مومنین اور کاملین اور خاصان خدا کی صفات کاملہ اور فاضلہ جمع ہوں گی اور وہ حزب اللہ یعنی اللہ کی خاص جماعت ہوگی جو مرتدین کی سرکو بھی کرے گی اور ان پر غالب آئے گی چناچہ نبی ﷺ کی وفات کے بعد متعدد قبائل عرب کافر اور مرتد ہوئے اور بحمدہ تعالیٰ اللہ کا دین بےسہارا اور بےمددگار نہ رہا اور جس قوم کے لانے کا خدا تعایل نے وعدہ کیا تھا وہ ابوبکر کی جماعت تھی جن کے ہاتھوں اللہ نے اپنا وعدہ پورا کیا اللہ نے ابوبکر صدیق کے دل میں ڈال دیا کہ اس فتنہ سے بچاؤ کی صورت سوائے تلوار کے کچھ نہیں اس لیے ابوبکر صدیق نے جہاد کا عزم بالجزم فرمایا اللہ نے تمام مسلمانوں کے دل میں ارادہ جہاد قتال مرتدین پیدا کردیا سب جہاد کے لیے کھڑے ہوگئے اور حسب وعدہ الٰہی مظفر ومنصور ہوئے۔ پس جب صدیق اکبر اور ان کے رفقاء کا خاصان خدا ہونا یعنی اللہ کا محب اور محبوب ہونا ثابت ہوگیا تو پھر ان کی خلافت کے حق ہونے میں کیا شبہ رہا یہ امر تاریخ سے اور شیعہ اور سنی روایت سے بالاتفاق ثابت ہے کہ حضور پرنور کی وفات کے قریب ہی کچھ لوگ مرتد ہونا شروع ہوگئے تھے اور آپ کی وفات کے عبد جب صدیق اکبر خلیفہ ہوئے تو یہ آگ اور تیز ہوگئی اور یہ امر بھی بالاتفاق ثابت ہے کہ سوائے ابوبکر کے اور ان کے بعد حضرت عمر کے کسی نے مرتدین سے قتال و جہاد نہیں کیا اورا للہ نے جو خبر دی ہے اس کا سچاہونا ضروری ہے خدا کی خبر کا غلط ہونا ناممکن اور محال ہے پس اگر یہ تسلیم کرلیاجائے کہ اللہ کا یہ وعدہ حضرت ابوبکر صدیق اور ان صحابہ کے ہاتھوں پورا ہوگیا کہ جو ابوبکر صدیق کے حکم سے مرتدین لڑے تو ثابت ہوجائے گا کہ ابوبکر اور ان کے ساتھی سب محبوب خدا اور محب خدا تھے اور ان کی خلافت حق تھی کہ کیونکہ جو محب خدا اور محبوب خدا ہوگا وہ بلا حق کے خلاف کیسے ہوسکتا ہے اورا گر یہ تسلیم نہ کیا جائے کہ فسوف یاتی اللہ بقوم سے ابوبکر صدیق اور ان کی جماعت مراد ہے تو لازم آئے گا کہ اللہ کی یہ خبر سچی نہ ہو کیونکہ یہ امر بالاتفاق ثابت ہے کہ نزول آیت کے وقت جو مسلمان موجود تھے ان میں سیس وا حضرت ابوبکر کے اور ان کے بعد حضرت عمر کے کسی نے مرتدین سے قتال نہیں کیا اور اس آیت کو حضرت علی کی لڑائیوں پر محمول نہیں کیا جاسکتا اس لیے کہ ان کی لڑائی مرتدین اسلام سے نہ تھی بلکہ اپنے باغی بھائیوں سے تھی جیسا کہ خود حضرت علی کا ارشاد ہے، ہولاء اخواننا قد بغوا علینا۔ جن لوگوں سے حضرت علی نے قتال کیا وہ اسلام سے مرتد نہ تھے بلکہ حضرت علی کی خلافت اور امارت سے باغی تھے اور کسی کی امارت نہ تسلیم کرنے سے اسلام سے مرتد نہیں ہوتا معاذ اللہ اگر حضرت معاویہ روافض کے زعم کے مطابق مرتد تھے تو حضرت امام حسن ؓ نے باوجود قوت و شوکت کے ان سے صلح کیسے کی ان کے حق میں خلافت کے حق سے کیسے دستبردار ہوئے کیا مرتد کی خلافت اور اطاعت پر صلح کرنا جائز ہے معلوم ہوا کہ امام حسن کے نزدیک حضرت معاویہ مسلمان تھے مرتد نہ تھے بلکہ خلافت اور امارت کے اہل تھے اور امام حسن حضرات شیعہ کے نزدیک امام معصوم اور مفترض الاطاعت ہیں اور اگر بقول روافض مرتدین سے وہ لوگ مراد لیے جائیں جنہوں نے ابوبکر کی خلافت اور امارت کو تسلیم کیا اور حضرت علی کی خلافت اور امامت سے انکار کیا اس بناء پر کافر اور مرتد ہوگئے تو حضرت علی نے ان مرتدین سے کیوں جہاد اور قتال نہ کیا پس اگر یہ آیت حضرت علی کے بارے میں ہے تو ان پر ان مرتدین سے جہاد و قتال فرض تھا نیز یہ بھی ضروری تھا کہ حضرت علی اس جہاد میں ضرور کامیاب ہوتے اس وعدہ کے مطابق خدا پر لازم تھا کہ وہ حضرت علی کی سر کردگی میں ان مرتدین کے مقابلہ کے لیے ایسی قوم کو لاتا جو حضرت علی کے ساتھ ان مرتدین جہاد کرتی اور ان کو زیر اور مغلوب کرتی جیسا کہ اللہ نے اس آیت میں وعدہ کیا ہے لیکن ظاہر ہے کہ خدا نے ایسا نہیں کیا بلکہ معاملہ اس کے برعکس ہے اور حضرت علی اور ان کی جماعت مرتدین کا مقابلہ میں کامیاب نہیں ہوئی بلکہ فتنہ روز بروز بڑھتا گیا اسی لیے امام رازی فرماتے ہیں کہ یہ آیت مذہب امامیہ کے فساد اور بطلان پر نہایت محکم دلیل ہے۔ (تفسیر کبر ص 427 ج 3) ۔ مرتدین کے ظہور کے وقت اللہ نے جس قوم کے لانے کا وعدہ فرمایا اور جس کے اوصاف بیان کیے وہ تمام اوصاف علی وجہ الکمال والتمام حضرت ابوبکر اور ان کی جماعت میں پائے جاتے ہیں اور ان کے اعمال اور کارناموں سے اس کا پورا ثبوت ملتا ہے اور شیعوں کے قول کے بناء پر حضرت علی کے تمام رفقاء بزدل تھے کوئی بھی ان مرتدین سے جہاد و قتال کے لیے نہ نکلا گذشتہ آیات میں کافروں سے دوستی کی ممانعت فرمائی جس میں مرتد ہونے کا اندیشہ تھا اور مرتدین کی سزا بھی بیان فرمائی اب یہ فرماتے ہیں کہ دوستی کس سے کی جائے یعنی اہل ایمان سے جو نہایت خشوع سے نماز پڑھتے ہیں اور نہایت خلوص سے زکوٰۃ دیتے ہیں ی جماعت اللہ کی خاص جماعت ہے اور حزب اللہ کے نام سے موسوم ہے اور جن سے اللہ نے غلبہ اور فتح کا وعدہ فرمایا ہے جزایں نیست تمہارا دوست خدا ہے اور اس کا رسول ہے اور وہ مومنین مخلصین جو دل وجان سے نماز کو قائم کرتے ہیں منافقوں کی طرح دکھلاوے کی نماز نہیں پڑھتے کما قال تعالی، واذا قامو الی الصلوۃ قاموا۔۔۔ الی۔۔۔ قلیلا۔ آیت۔ اور نہایت شوق اور رغبت کے ساتھ زکوٰۃ دیتے ہیں اور درآنحالیکہ وہ لرزاں وترساں ہوتے ہیں کہ مبادا ہماری زکوٰۃ اور صدقہ اور خیرات قبول نہ ہومنافقین کی طرح حریص اور طامع نہیں کہ خدا کی کوئی راہ میں خرچ کرنے پر دل آمادہ نہ ہوتا ہو کماقال تعالی، اشحۃ علی الخیر۔ اس آیت کے شان نزول میں اختلاف ہے ابن عباس سے روایت ہے کہ ابوبکر کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی اور بعض کہتے ہیں کہ حضرت علی کے بارے میں نازل ہوئی اور بعض کہتے ہیں کہ عبداللہ بن رواحہ کے بارے میں نازل ہوئی اور حق یہ ہے کہ آیت کے الفاظ عام ہیں قیامت تک آنے والے کامل الایمان لوگوں کو شامل ہیں۔ (ف) ۔ راکعون میں رکوع سے خشوع اور خضوع کے معنی مراد ہیں یعنی ان لوگوں کا نماز قائم کرنا اور زکوٰۃ دینا اور نہایت خشوع اور خضوع کے ساتھ ہوتا ہے اور آیت میں رکوع سے نماز کے رکوع مراد نہیں اس لیے کہ اگر اس آیت میں رکوع سے نماز کے رکوع مراد ہوں تو یہ لاز م آئے گا کہ حالت رکوع میں زکوٰۃ ادا کرنا موجب فضیلت اور قابل مدح ہو حالانکہ شریعت میں کہیں اس کا ثبوت نہیں مزید تفصیل انشاء اللہ لطائف ومعارف کے بیان میں آئے گی۔ مطلب آیت کا یہ ہے کہ اے مسلمانوں یہود اور نصاری سے دوستی نہ کرو تمہارے دوست صرف اللہ اور اسکے رسول اور یہ مومنین مخلصین ہیں کہ جو خشوع کے ساتھ نماز پڑھتے ہیں خلوص کے ساتھ زکوٰۃ دیتے ہیں یہ اوصاف اس لیے بیان فرمائے کہ منافقین بھی ان میں ملے جلے تھے جن پر نماز اور زکوٰۃ شاق تھی پس غرض ان اوصاف کے ذکر کرنے سے یہ ہے کہ جو مومنین صفات مذکورہ کے ساتھ موصوف ہوں ان سے دوستی رکھو اور جو ایسے نہیں ان سے نہ رکھو کیونکہ وہ حقیقت میں مومن نہیں بلکہ منافق ہیں بھی ہیں اور جو شخص ہمارے حکم کے موافق اللہ کو اور اس کے رسول کو اور مومنین مخلصین کو اپنا دوست اور رفیق بنائے تو اس کو کسی کے شر اور ضرر سے ڈرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ وہ اللہ کے گروہ میں داخل ہوگیا تو بیشک جوا للہ کا گروہ ہے وہی غالب ہوگا وقتی طور پر اگر کافر غالب آجائیں تو انجام کار غلبہ اہل ایمان اور اہل تقوی ہی کو ہوتا ہے۔ والعاقبۃ للمتقین یہ مطلب ہے کہ کفار کی کثرت اور مسلمانوں کی قلت عدد اور بےسروسامانی کو دیکھ کر کافروں کی موالات کی طرف مائل نہ ہوجاؤ اللہ ہی کی جماعت سب پر غالب آئے گی۔ لطائف ومعارف۔ (1) ۔ اس مقام پر دو آیتیں ہیں پہلی آیت یا ایھا الذین آمنو من یرتد منکم عن دینہ، ، الی ، ، قولہ واسع علیم۔ آیت۔ یہ آیت آیت قتال مرتدین کے نام سے مشہور ہے اور دوسری آیت انما ولیکم اللہ ورسولہ، ، الی۔۔۔ ھم الغالبون۔ آیت۔ یہ آیت آیت ولایت کے نام سے مشہور ہے۔ (مختصر بیان کیفیت واقعہ ارتداد ) ۔ حسن بصری کہتے ہیں کہ چونکہ اللہ تعالیٰ جانتا تھا کہ نبی کریم کی وفات کے بعد بعض قومیں اسلام سے مرتد ہوجائیں گی اس لیے اللہ نے پہلے ہی سے یہ خبر دے دی کہ اس وقت اللہ ایسی قوم کو لائے گا جو مرتدین کا قلع قمع کرے گی اللہ اس قوم سے محبت رکھتا ہوگا اور وہ قوم اللہ سے۔ علامہ زمخشری لکھتے ہیں کہ عرب کے گیارہ فرقے مرتد ہوئے تین قبیلے تو نبی ﷺ کے اخیر زمانہ میں مرتد ہوگئے اور ہر قبیلہ میں سے ایک ایک شخص دعوائے نبوت کرتا ہوا اٹھا اور اس کے قوم کے لوگوں نے اس کی تصدیق کی اور فساد عظیم برپا کیا۔ (پہلا فرقہ) ۔ بنی مدلج کا ہے جن کا رئیس ذوالخمار یعنی اسود عنسی تھا یہ ایک کاہن شخص تھا کہانت شعبدہ بازی میں بڑی مہارت رکھتا تھا جس نے یمن میں قبیلہ مذحج کے درمیان نبوت کا دعوی کیا اور اس علاقہ کے شہروں پر مستولی ہوگیا اور آنحضرت ﷺ کے عمال کو وہاں سے نکال دیا نبی ﷺ نے اس کی سرکوبی کے لیے معاذ بن جبل کو لکھا جو ان دنوں نبی ﷺ کی طرف سے یمن کے قاضی تھے اور وہاں کے روساء اور مسلمانوں کے نام بھی لکھا کہ ذوالخمار سے لڑنے کے لیے تیار ہوجائیں حضرت فیروز دلیمی جو اس وقت حضرت معاذ کے ہمراہیوں میں سے تھے اللہ نے ان کے ہاتھ سے اس کو ہلاک کیا جس رات وہ قتل کیا گیا اسی رات نبی ﷺ بذریعہ وحی اس واقعہ پر مطلع ہوئے اور مسلمانوں کو اس کے قتل کی خبر دی اور فرمایا کہ فیروز کامیاب ہوئے جس سے مسلمان خوش ہوئے اور اگلے روز آپ نے انتقال فرمایا۔ دوسرا فرقہ) ۔ بنی حنیفہ ہے جن کا رئیس مسیلمہ کذاب تھا اس شخص نے قبیلہ بنی حنیفہ کے ساتھ بارگاہ اقدس میں خط لکھ کر بھیجا جس کا مضمون یہ تھا من مسیلمۃ رسول اللہ الی محمد رسول اللہ اما بعد فان الارض نصفھا لی ونصفہالک۔ یعنی مسیلمہ رسول اللہ کی طرف سے محمد رسول اللہ کی طرف واضح ہو کہ آدھی زمین میری اور آدھی تیری مطلب یہ تھا کہ ہم اور آپ مل کر زمین فتح کرلیں اور باہم نصف نصف تقسیم کرلیں معلوم ہوا کہ اصل مقصود دنیاوی مال و دولت تھا نبی صلی اللہ نے اس کے جواب میں یہ خط لکھوایا۔ من محمد رسول اللہ الی مسیلمۃ الکذاب امابعد فان الارض للہ یورثھا من یشاء من عبادہ والعاقبۃ للمقین۔ یعنی محمد رسول اللہ کی طرف سے مسیلمہ کذاب کی جانب واضح ہو کہ زمین اللہ کی ملک ہے وہ اپنے بندوں میں سے سے جس کو چاہے اس کا وارث کرے اور حسن عاقبت یعنی اچھا انجام پرہیزگاروں کے لیے ہے اس کے بعد نبی صلی اللہ بیمار ہوگئے اور مسیلمہ کذاب کی سرکوبی کے لیے کوئی انتظام کرنے نہ پائے تھے کہ رفیق اعلی سے جاملے۔ صدیق اکبر نے اپنے زمانہ میں اس مہم کو انجام دیا اور نبی ﷺ کے بعد خالد بن ولید کو ایک لشکر دے کر اس کی طرف روانہ فرمایا حضرت وحشی نے اس کذاب کو جہنم میں پہنچا دیا مسیلمہ کے قتل کے بعد اس کے متبعین میں سے بعضے لوگ تائب بھی ہوگئے اور باقی تمام جماعت متفرق ہوگئی۔ تیسراقبیلہ) ۔ بنی اسد ہے جن کا دوسرا طلیحہ بن خویلد اس شخص نے بھی نبوت کا دعو کیا تھا اور نبی ﷺ کے اخیرزندگی ہی میں دعوائے نبوت کیا تھا اس کے قلع قمع کے لیے بھی صدیق اکبر نے خالد بن ولید کو بھیجا خالد نے اس سے اور اس کے اعوان وانصار سے جنگ کی جس میں طلیحہ نے شکست کھائی اور شام کی طرف بھاگ گیا اور اس کے بعد پھر تائب ہو اور اسلام لایا اور جنگ قادسیہ میں کار نمایاں انجام دیے۔ نبی ﷺ کے وصال کے بعد فتنہ ارتداد اور بلند ہوا اور آپ کے بعد سات فرقے ابوبکر صدیق کی عہد خلافت میں مرتد ہوئے جن کی تفصیل یہ ہے۔ 1۔ فزارہ۔ 2۔ غطفان۔ 3۔ بنوسلیم۔ 4۔ بنی یربوع۔ 5۔ بعض بنی تمیم۔ 6۔ کندہ۔ 7۔ بنی بکر بن وائل ان ساتوں قبائل سے حضرت ابوبکر صدیق نے جہاد کیا اور ان کو درست کیا اس کے بعد ایک فرقہ حضرت عمر کے زمانہ خلافت میں مرتد ہوا یعنی جبلہ بن ایہم کی قوم غسان غرض یہ کہ حرمین شریفین اور قریہ جو اچی کے سوا اکثر عرب مرتد ہوگئے اور بعض لوگوں نے زکوٰۃ دینے سے انکار کردیا اس فرقہ کے بابت اکابر صحابہ میں باہم مکالمہ ہوا کہ یہ لوگ اہل قبلہ ہیں ان کا قتل جائز نہیں انہی لوگوں میں عمرفارق تھے انہوں نے کہا اے خلیفہ رسول اللہ آپ ان لوگوں سے کیسے قتال کرسکتیں جب کہ رسول اللہ یہ فرماچکے ہیں کہ مجھے یہ حکم دیا گیا ہے کہ لوگوں سے جہاد و قتال کروں یہاں تک کہ وہ لاالہ الا اللہ کہہ دیں جس نے یہ کلمہ پڑھا اس کی جان ومال محفوظ ہے مگر کسی حق کی وجہ سے اور اس کا حساب اللہ پر ہے حضرت ابوبکر نے جواب دیا کہ خدا کی قسم جو نماز اور زکوٰۃ میں فرق کرے گا خدا کی قسم میں اس سے ضرور جہاد قتال کروں گا اگرچہ وہ لاالہ الا اللہ پڑھتا ہو نماز اگر حق بدن ہے تو زکوٰۃ حق مال ہے صدیق اکبر کا مطلب یہ تھا کہ جس طرح نماز کی فرضیت کا انکار کفر ہے اور ارتداد ہے اسی طرح زکوٰۃ کی فرضیت کا بھی انکار کفر ہے مسلمان ہونے کے لیے فقط کلمہ توحید اور رسالت پڑھ لینا کافی نہیں جب تک تمام فرائض دین اور شعائر اسلام اور احکام شریعت کو قبول نہ کرے اس وقت تک مسلمان نہیں ہوسکتا صدیق اکبر کے اس ارشاد سراپا ارشاد کے بعد سنتے ہی فاروق اعظم بولے کہ میری سمجھ میں آگیا اور مجھے شرح صدر ہوگیا کہ یہی حق ہے چناچہ امام بخاری نے اس پر ایک باب قائم فرمایا وہ یہ ہے کہ باب من ابی قبول الفرائض وما نسبو الی الردۃ۔ یعنی جو شخص فرائض دین میں کسی ایک فریضہ کو بھی قبول نہ کرے تو وہ بلاشبہ کافر اور مرتد ہے اور معلوم ہوا کہ مسلمان ہونے کے لیے محض کلمہ گو اور مدعی اسلام ہونا کافی نہیں جب تک اسلام کے تمام احکام کو قبول نہ کرے دیکھو الفتح الباری ص 244 ج 6، وعمدۃ القاری طبع جدید ص 82۔ باب قتل من ابی قبول الفرائض۔ امام قرطبی اپنی تفسیر کے ص 219 میں لکھتے ہیں مرتدین اپنے ارتداد میں د وقسم پر تھے مرتدین کی ایک قسم تو وہ تھی کہ جس نے شریعت کو بالکل پس پشت ڈال دیا اور اسلام سے بالکلیہ خارج اور علیحدہ ہوگئی اور مرتدین کی دوسری قسم وہ تھی جو فقط زکوٰۃ کی فرضیت کے منکر تھے اور باقی احکام شریعت کے مقر اور معترف تھے یہ لوگ یہ کہتے تھے کہ ہم مسلمانوں کی طرح روزہ اور نماز پڑھیں گے مگر زکوٰۃ نہیں دیں گے تو ابوبکر صدیق نے مرتدین کی ان دونوں قسموں سے جہاد قتال کیا اور ان کے مقابلہ کے لیے خالد بن ولید کو لشکر دے کر روانہ کیا پس خالد بن ولید نے ان تمام مرتدین سے قتال کیا اور ان کے بچوں اور عورتوں کو قید کیا جیسا کہ معروف ومشہور ہوا۔ امام ابن جریرطبری فرماتے ہیں کہ صدیق اکبر نے ان مانعین زکوٰۃ کے مقابلہ اور مقاتلہ کے لیے یہی لشکر روانہ فرمایا۔ یہاں تک کہ ان لوگوں کو قید کیا او قتل کیا جو اسلام سے مرتد ہوئے تھے اور جنہوں زکوٰۃ دینے سے نے انکار کیا تھا کہ انہوں نے اس امر کا اقرار کیا کہ حقیر سے حقیر چیز بھی نہ روکیں گے۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ جس طرح نماز کی فرضیت کا انکار کفر اور ارتداد ہے اسی طرح مثلا زکوٰۃ یا روزہ کی فرضیت کا انکار بھی کفر اور ارتداد ہے۔ (خلاصہ کلام) ۔ یہ کہ جب فتنہ ارتداد پیش آیاتو اللہ نے صدیق اکبر کے قلب میں ان مرتدین سے جہاد و قتال کا داعیہ پیدا فرمایا بعض صحابہ اس بارے میں متردد تھے حتی کہ فاروق اعظم نے صدیق اکبر سے نرمی کی درخواست کی تو صدیق اکبر نے یہ فرمایا اجبار انت فی الجاہلیۃ خوار فی الاسلام کیا تو زمانہ جاہلیت میں سختی کرنے والا تھا اور اب اسلام میں نرمی کرنے والا بن گیا حضرت عمر کا منشایہ تھا کہ یہ وقت اسلام کی کمزوری کا ہے اور یہ وقت اسلام پر نہایت نازل ہے لہذا کچھ نرمی سے کام لینا چاہیے مگر صدیق اکبر کوہ استقامت تھے ان میں کوئی تزلزل نہ آیا اور منکرین زکوٰۃ سے جہاد و قتال کا مستحکم ارادہ اور عزم مصمم فرمایا اور مانعین زکوٰۃ سے جہاد و قتال میں ابتداء بہت سے صحابہ کو تردد رہا کہ یہ اہل قبلہ ہیں مگر جب حضرت ابوبکر نے اپنی تلوار زیب دوش کی اور تنہا چلنے کے لیے کھڑے ہوگئے اور یہ فرمایا کہ یہ ہوسکتا ہے کہ دین پر کوئی زوال اور نقصان آئے اور میں زندہ ہوں تو صحابہ نے آپ کو جانے سے روکا اور کہا کہ آپ بیٹھتے ہم جاتے ہیں عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ ہم ابتداء میں اس لڑائی کو پسند نہ کرتے تھے مگر آخر میں جب اس کا انجام ہم پر منکشف ہوا تو ہم ابوبکر کے شکرگزار ہوئے کہ اسلام کو بڑے فتنے سے بچا لیا اور فاروق اعظم صدیق اکبر کے اس کارنامہ یعنی قتال مرتدین کا ذکر کرکے یہ فرمایا کرتے تھے کہ اگر صدیق اکبر میری تمام عمر کی عبادت لے لیں اور مجھے صرف اپنی ایک رات اور اپنا ایک دن دے دیں تو میں راضی ہوں رات سے غارثور کی رات مراد ہے اور دن سے فتنہ ارتداد کا دن مراد ہے اور حضرت ابوہریرہ یہ فرمایا کرتے تھے کہ قام فی الردۃ مقام الانبیاء یعنی فتنہ ارتداد میں صدیق اکبر نے وہ کام کیا جو مقام پیغمبروں کا تھا۔ فسوف یاتی اللہ بقوم۔ الخ۔ یعنی جس وقت یہ فتنہ ارتداد پیش آئے گا اس وقت اللہ تعالیٰ اپنے دین کی حفاظت کے لیے ایک قوم کو اپنے ساتھ لائے گا جو صفات مذکورہ کے ساتھ موصوف ہوگی یعنی قتال مرتدین کے معرکہ میں خداوند ذوالجلال خود بھی موجود ہوگا کیونکہ فسوف یاتی اللہ بقوم میں اصل آنے والے اللہ ہوں گے اور قوم مجاہدین اللہ کے ساتھ ہوگی کیونکہ بقوم کی باء اگرچہ تعدیہ کے لیے ہے مگر معنی الصاق کو بھی ساتھ لیے ہوئے ہے اور مطلب یہ ہے کہ اللہ ان مرتدین کی سرکوبی کے لیے خود بذات قدسی صفات ان مجاہدین کو ساتھ لے کر میدان قتال میں نزول اجلال فرمائیں گے اور پس پردہ اللہ ان کے ساتھ ہوگا اور وہ جماعت ایسی ہوگی کہ اس کے دل میں مرتدین سے جہاد و قتال کا داعیہ ایسا موج زن ہوگا جس کو دیکھ کر صاحب نظر سمجھ جائے گا یہ جماعت اللہ کی آوردہ ہے اللہ نے ان کے دلوں میں یہ القاء کیا ہے ورنہ یکلخت سب کے دلوں میں ایک ہی آگ کا لگ جانا اور سب کا یکساں ہوجانا ظاہر اسباب میں ممکن نہیں اور ظاہر ہے کہ مسلمانوں کو مرتدین سے جہاد و قتال کے لیے جمع کرنا صدیق اکبر کے ہاتھ سے ہوا اور اللہ یہ فرماتے ہیں کہ اللہ ایسی قوم کو لائے گا سو اللہ کا یہ ارشا بالکل ایسا ہی جیسا کہ فرمایا وما رمیت اذا رمیت والکن اللہ رمی یعنی ان صافت کے ساتھ موصوف لوگوں کو جمع کرنا درحقیت اللہ کا فعل تھا اور صدیق اکبر بمنزلہ جارحہ الہیہ کے تھے جن سے یہ تدبیر ظہور میں آئی ذرا غور کرو کہ حضرات انبیاء کرام کے بع دیہ مرتبہ کسی کو حاصل ہوا یہ خدا کا فضل ہے جس کو چاہتا ہے دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ بڑا فضل والا ہے (ازالۃ الخفاء) ۔ پھر آئندہ آیت میں اس قوم کی چھ صفتیں ذکر فرمائیں دو وہ ہیں جن کا تعلق بندہ اور اس اللہ کے درمیان ہے۔ 1۔ اللہ ان کو محبوب رکھتا ہے۔ 2۔ وہ خدا کو محبوب رکھتے ہیں اور دو صفتیں وہ ہیں جن کا تعقل خود باہم بندوں کے درمیان ہے۔ ایک یہ اذلۃ علی المومنین، اور اعزۃ علی الکافرین۔ یعنی مسلمانوں کے حق میں نرم اور کافروں کے حق میں گرم ہوں گے جیسا کہ دوسری جگہ ارشاد ہے کہ اشداء علی الکفار رحماء بینھم۔ جیسے جبرائیل امین کیہ انبیاء کرام اور اہل ایمان کے حق میں باعث رحمت ہیں اور کافروں کے لیے موجب ہلاکت ہیں بمنزلہ جارحہ الٰہیہ کے ہیں کبھی رحمت و برکت کا ظہور ہوتا ہے اور کبھی اتلاف اور اہلاک کا صدور ہوتا ہے ان دو صفتوں کا تعلق بندوں کے ساتھ باہمی روابط اور تعلقات سے ہے اور ان چار کے علاوہ دو صفتیں وہ ہیں جو دینی خدمات سے متعلق ہیں، ایک فعل جہاد فی سبیل اللہ یعنی اللہ تعالیٰ سے سرکشی اور گردن کشی کرنے والوں کی سرکوبی اور گردن کشی میں اپنی پوری جدوجہد کو پانی کی طرح بےدریغ بہادینا یہ حقیقت جہاد کی اور فی سبیل اللہ کا مطلب یہ ہے کہ وہ جہاد محض اللہ کی خوشنودی کے لیے ہو اس میں کوئی نفسانی اور دنیوی غرض کا شائبہ نہ ہو اور دوسری صفت یعنی چھٹی صفت یہ ہے کہ داعیہ قلبیہ ایسا قوی ہو کہ کسی ملامت اور طعن کی پرواہ نہ کرے اور لوگوں کے کہے سنے سے یا قرابت کے خیال سے اس کے ارادہ او عزم میں کوئی تزلزل نہ آئے بسا اوقات آدمی کسی چیز کو حق سمجھتا ہے مگر بدنامی اور لوگوں کی ملامت اور طعن وتشنیع کی وجہ سے حق کی نصرت اور حمایت سے پیچھے ہٹ جاتا ہے اس صفت میں اشارہ ہے اس طرح کہ یہ مرتدین سے جہاد و قتال کرنے والی قوم خدا تعالیٰ کی ایسی عاشق وجاں نثار اور نشہ عشق محبت میں ایسی سرشار ہوگی کہ مرتدین سے جہاد و قتال کے بارے میں ان کو ذرہ برابر کسی ملامت اور طعن کا خیال بھی نہ آئے گا۔ گرچہ بدنامی اسب نز دعاقلاں، مانمی خواہیم ننگ ونام را۔ مرتدین کے اصل مارنے والے اور عذاب دینے والے اللہ جل شانہ ہیں اور مجاہدین کے ہاتھ بمنزلہ تیر وتلوار کے ہیں کماقال تعالی، قاتلوھم یعذبھم اللہ بایدیکم۔ تم ان کافروں سے قتال کرو اللہ کا منشاء یہ ہے کہ ان کافروں کو تمہارے ہاتھ سے سزا دے۔ آیت۔ معلوم ہوا کہ مرتدین سے جہاد کرنے والی قوم اصل لانے والے اللہ تعالیٰ ہیں اور وہی ان مرتدین کو مارنے والے ہیں مگر چونکہ اصل مارنے والے یعنی حق جل شانہ نظروں سے پوشیدہ ہے اس لیے قاصر الفہم ان مجاہدین پر طعن اور ملامت کے آوازے کستے ہیں کہ تم کس وحشت اور بربریت پر کمربستہ ہو مجاہدین کہتے ہیں کہ اے نادانو ہم تو اللہ کے تیر اور تلوار ہیں جنہیں پر در غیب سے دست قدرت چلا رہا ہے ہمیں کیا طعن اور کیسی ملامت کیا کسی عاقل نے کبھی تیر اور تلوار کو بھی ملامت کی ہے کسی شاعر کا شعر ہے۔ فانت حسام الملک واللہ ضارب، وانت لواء الدین واللہ عاقد۔ اے بادشاہ تو تو اللہ کی تلوار ہے اصل مارنے والا تو وہ ہے تو تو اس کے حکم سے چل رہی ہے اور تو دین کا علم جھنڈا ہے (اس کا نصب کرنے والا بھی اللہ تعالیٰ ہی ہے ) ۔ پس فسوف یاتی اللہ بقوم میں اس قوم کا خدا کے لانے کا مطلب یہ ہے کہ مرتدین سے جہاد و قتال کے وقت اگرچہ ظاہر نظر میں ان کا ہاتھ نظر ائے گا لیکن در پردہ دست قدرت اس میں کارفرما ہوگا یداللہ فوق ایدیھم۔ 4۔ آیت ولایت یعنی آیت انما ولیکم اللہ ورسولہ، کی صحیح تفسیر تو اوپر بیان ہوچکی ہے جس سے صاف ظاہر ہے کہ اس آیت کو خلافت سے کوئی تعلق نہیں اس لیے کہ الذین آمنو اسے عام مسلمان مراد ہیں جو صفات مذکورہ کے ساتھ موصوف ہوں وہی لائق دوستی ہیں یہود ونصاری لائق دوستی نہیں مگر حضرات شیعہ یہ کہتے ہیں کہ یہ آیت حضرت علی کی خلافت بلافصل پر نہایت روشن دلیل ہے شیعہ کہتے ہیں کہ الذین آمنوا۔ سے صرف حضرت علی اور ان کی اولاد مراد ہے کیونکہ اس آیت کا شان نزول یہ ہے کہ حضرت علی نے حالت رکوع میں ایک سائل کو اپنی انگشتری دے دی تھی اس پر یہ آیت نازل ہوئی مگر چونکہ بےاصل اور من گھڑت روایت بھی شیعوں کے مقصد برآری کے لیے کافی نہ تھی اس لیے اس پر یہ اضافہ کیا کہ آیت میں ولی کے معنی دوست کے نہیں بلکہ حاکم اور متصرف فی الامر کے ہیں جو خلیفہ کے ہم معنی ہیں اور اس پر بھی جب کام نہ چلاتو ایک لفظ بلافصل متصرف فی الامر یعنی بلافصل خلیفہ حضرت علی اور ان کی اولاد ہیں جو اہل ایمان ہیں اور انماز کو قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں انگوٹھی خیرات کرتے ہیں۔ سبحان اللہ کیا عجیب استدلال ہے جس پر شیعوں کو بڑا ناز ہے اب ہم استدلال کے حسن و جمال کی حقیقت ناظرین کرام پر واضح کرتے ہیں غور سے سنیں فاقول وباللہ التوفیق وبیدہ ازمہ التحقیق۔ (اول) ۔ یہ کہ ولی کو بمعنی حاکم اور متصرف فی الامور یا بمعنی خلیفہ قرار دینا لغت عرب کے خلاف ہے ولی کے معنی دوست کے ہیں حاکم کے لیے کلام عرب میں ولی کا لفظ مستعمل ہوتا ہے ولی کا لفظ مستعمل نہیں ہوتا والی مکہ اور والی مدینہ بمعنی حاکم مکہ اور حاکم مدینہ مستعمل ہوتا ہے مگر ولی مکہ اور ولی مدینہ بمعنی حاکم ہرگز نہیں سنایا گیا وجہ اس کی یہ ہے کہ یہاں دو لفظ ہیں ایک ولایت بکسر واؤ اور ایک ولایت بفتح واو ہے اور دونوں کے معنی الگ الگ ہیں ولایت بکسرالواؤ کے معنی امارت کے اور حکومت کے ہیں اور والی بمعنی امیر وحاکم اسی سے ماخوذ ہے اور ولایت بفتح واو کے معنی محبت اور دوستی کے ہیں اور قرب کے ہیں جو ضد ہیں عداوت کی اور سی سے صفت مشتبہ ولی آئی ہے جس کے معنی دوست کے ہیں امیر کو والی کہا جاتا ہے ولی نہیں کہا جاتا فقہاء کرام کا اس بارے میں اختلاف ہے کہ اگر کسی کے جنازہ میں والی اور ولی دنوں جمع ہوجائیں تو امامت کے لیے کس کو مقدم کیا جائے معلوم ہوا کہ ولی اور والی میں فرق ہے البتہ جو لوگ لغت عرب سے بیخبر ہیں ان کے نزدیک والی ور ولی میں کوئی فرق نہیں اور آیات قرآنیہ میں جابجا لفظ محب اور دوست کے معنی میں مستعمل ہوا ہے جو دشمن کی ضد ہے کما قال تعالی، الا ان اولیاء۔۔۔۔۔ الی۔۔۔۔ یحزنون۔ وقال تعالی، والمومنون والمومنات بعضھم اولیاء بعض۔ آیت۔ اس قسم کی تمام آیت میں ولی سے محب اور دوست کے معنی مراد ہیں کہ مسلمان ایک دوسرے کے محب اور دوست ہیں اور یہ معنی نہیں کہ ایک دوسرے پر حاکم ہیں اور آیت کا سیاق وسباق بھی اسی پر دلالت کرتا ہے کہ ولی کے معنی یہاں دوست کے ہیں کیونکہ اس سے پہلے اللہ نے یہود اور نصاری کی دوستی سیمنع فرمایا ہے اب آیت میں یہ ارشاد فرماتے ہیں کہ لائق موالات اور محبت ومودت اہل ایمان ہیں نہ کہ یہود ونصاری پس اگر آیت میں ولی کے معنی محب اور دوست کے نہ لیے جائیں تو پھر اس آیت کا ماقبل کی آیتوں کے ساتھ ربط قائم نہیں رہتا عبدالملک بن سلیمان کہتے ہیں کہ میں نے ابوجعفر محمد بن باقر (علیہ السلام) سے پوچھا کہ یہ آیت انما ولیکم اللہ ورسولہ، والذین آمنو سے کون لوگ مراد ہیں تو انہوں نے یہ کہا کہ سب مسلمان مراد ہیں میں نے کہا کہ بعض یہ کہتے ہیں کہ اس سے مراد علی ہیں انہوں نے کہا علی بھی ان میں سے ایک ہیں۔ مطلب یہ تھا کہ آیت کے عموم میں حضرت علی بھی داخل ہیں جیسا کہ بعض روایات میں آیا ہے کہ یہ آیت ابوبکر کے بارے میں نازل ہوئی تو اس سے بھی مقصود نہیں کہ یہ آیت خاص ابوبکر کے بارے میں نازل ہوئی بلکہ مراد یہ ہے کہ ابوبکر اور علی بھی اس آیت کے عموم میں داخل ہیں اور یہ دونوں حضرات سب سے زیادہ لائق محبت اور دوستی ہیں غرض یہ کہ آیت کا صاف اور سیدھا مطلب یہ ہے کہ اے مسلمانوں منافقین کی طرح یہود اور نصآری سے دوستی نہ کرو تمہارے دوست اللہ اور اس کے رسول اور وہ تمام مومنین ہیں جو اس صفت کے ساتھ موصوف ہیں یعنی نماز اور زکوٰۃ اور خشوع اور خلوص سے ادا کرتے ہیں عام مسلمان جو اس صفت کے ساتھ موصوف ہوں اس آیت کے عموم میں داخل ہیں گوروایات میں آیا ہے کہ یہ آیت ابوبکر کے بارے میں نازل ہوئی کما نقلہ الثعلبی عن ابن عباس، منہاج السنۃ ص 4 ج 4) ۔ اور بعض ضعیف روایات میں آیا ہے کہ حضرت علی کے بارے میں نازل ہوئی یا تمام صحابہ کے بارے میں نازل ہوئی ان روایات کا مطلب یہ نہیں خہ آیت کا حکم ان حضرات میں منحصر ہے صرف مقصود یہ ہے کہ یہ حضرات بھی ان صفات کے ساتھ موصوف ہیں شاہ ولی اللہ فرماتے ہیں کہ شیعہ لوگ جو ایک جھوٹا قصہ روایت کرتے ہیں اور ترکیب نحوی میں راکعون کو یوتون الزکوۃ سے حال بناتے ہیں اور حالت رکوع میں حضرت علی کا ایک فقیر کو انگوٹھی دینا بیان کرتے ہیں تو اس سے آیت کا سیاق اور سباق اور ماقبل اور مابعد سب درہم برہم ہوجاتا ہے اور مضمون ایسا خبط اور بےربط ہوجاتا ہے کہ جس کو ادنی عقل بھی ہو وہ قبول نہیں کرسکتا، خدا تعالیٰ اعضاء ایشان را از ہم جد اسازدچنان کہ (ایشاں آیات متسعقہ بعضہا من بعض ازہم جدا کردند (ازالۃ الخفاء) ۔ (دوم) یہ کہ الذین آمنو اور الذین یقیمون ویوتون۔ وھم راکعون۔ یہ تمام الفاظ جمع کے ہیں ان سے صرف حضرت علی مراد لینا بلادلیل اور بلاقرینہ کے قطعا جائز نہیں۔ سوم) ۔ یہ کہ روافض نے اسی آیت میں رکوع سے نماز کارکوع مراد لیا ہے اور وھم راکعون کو صرف ویوتون کی ضمیر سے حال قرار دیا ہے حالانکہ دو جملوں کے بعد اگر حال آتا ہے تو دونوں کی ضمیر سے حال بنتا ہے نہ کہ صرف ایک سے اس لیے اس آیت میں رکوع سے لغوی معنی یعنی خشوع اور خضوع مراد ہیں یعنی جھکنا اور عاجزی کرنا۔ اور مطلب یہ ہے کہ جو اہل ایمان خشوع اور خضوع کے ساتھ نماز ادا کرتے ہیں اور خلوص کے ساتھ زکوٰۃ دیتے ہیں وہ لائق دوستی ہیں ورنہ اگر اس آیت میں رکوع سے نماز کارکوع مراد لیا جائے تو مطلب یہ ہوگا کہ آیت کا خدا کے نزدیک وہ لوگ قابل تعریف ہیں جو بحالت رکوع اور بحالت نماز صدقہ اور خیرات کرتے ہیں تو لازم آئے گا کہ حالت رکوع اور حالت نماز میں صدقہ دینا بہ نسبت خارج صلوۃ کے زیادہ موجب فضیلت اور موجب اجر ہو حالانکہ نہ کوئی سنی اس کا قائل ہے اور نہ کوئی شیعی شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ازالۃ الخفاء میں فرماتے ہیں کہ مضارع کا صیغہ (ویوتون الزکوۃ وھم راکعون۔ استمرار پر دلالت کرتا ہے لہذا شیعوں کو یہ بھی ثابت کرنا چاہیے کہ حضرت علی مرتضی برابر حالت رکوع میں زکوٰۃ ادا کیا کرتے تھے۔ نیز شیعہ اور سنی سب کے نزدیک یہ مسلم ہے کہ حضرت علی فقیر ودرویش تھے ان کے پاس کبھی اتنا مال ہی نہیں ہوا کہ جس پر زکوٰۃ واجب ہو البتہ ابوبکر اور عثمان، عمر ؓ اجمعین مالدار تھے ان پر زکوٰۃ واجب تھی پس جس پر زکوٰۃ ہی نہ ہو تو وہ بحالت رکوع کیسے برابر زکوٰۃ ادا کرتا رہانیز اس صورت میں یہ لازم آئے گا کہ حالت رکوع میں زکوٰۃ دینا موالات یعنی محبت اور دوستی کی شرط ہے جو حالت رکوع میں برابر زکوٰۃ ادا کرتا رہا اس سے تو دوستی کرنی چاہیے ورنہ نہیں لہذا شیعوں کے قول کی بناء پر حضرت سیدہ اور سیدنا اور امام حسن اور امام حسین اور دیگر ائمہ اہل بیت سے محبت نہ کرنی چاہیے اس لیے کہ ان سے بحالت رکوع زکوٰۃ ادا کرنا کہیں ثابت نہیں پھر نہ معلوم کہ ویوتون الزکوۃ کے ساتھ وھم راکعون کی قید اتفاقی ہے یا احترازی ہے کہ حالت قیام اور حالت سجود میں اگر کوئی زکوٰۃ اور خیرات دے تو اس کا کیا حکم ہے وہ مستحق موالات کا ہے یا نہیں حضرات شیعہ بتلائیں کہ اس سے موالات کی جائے یا نہیں بلکہ نبی ﷺ سے بھی بحالت رکوع زکوٰۃ اور صدقہ خیرات ثابت نہیں لہذا شیعوں کے نزدیک نبی ﷺ سے بھی موالات نہ کی جائے کیونکہ آپ کے زعم کے مطابق نبی پرنور میں موالات کی شرط موجود نہیں۔ (چہارم) ۔ یہ کہ اگر اس آیت میں ولایت سے امارات اور حکومت کے معنی ہوتے تو اخیر آیت میں اللہ اس طرح نہ فرماتے ومن یتول اللہ ورسولہ، کیونکہ اس صورت میں معنی یہ ہوجائیں گے کہ جو شخص اللہ اور اس کے رسول پر حاکم ہوجائے اور ان کے امور میں متصف ہوجائیں یہ اور معنی عقلا نقلا محال ہیں بلکہ کلام اس طرح ہوتا ومن یتولی علیکم اللہ ورسولہ، والذین آمنوا۔ یعنی جب تم پر اللہ اور اس کا رسول اور اہل ایمان ھاکم اور متصرف ہوجائیں، کیونکہ تولی بمعنی حکومت کا صلہ علی آتا ہے ایسی صورت میں تولی بلاواسطہ متعدی نہیں ہوتا جو شخص لوگوں پر حاکم ہوجائے تو وہاں تولی علیھم بولاجائے گا تو لاہ اور تولا ہم نہیں کہا جائے گا۔ (پنجم) ۔ یہ کہ اللہ شانہ کی نسبت یہ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ بندوں کا ولی بمعنی امیر اور خلیفہ ہے حق جل شانہ کی بابت لفظ امیر المومنین اور خلیفۃ المسلمین زبان پر لانا غایت درجہ گستاخی اور کمال ابلہی ہے اللہ تعالیٰ اہل ایمان کا ولی ہے بایں معنی کہ اہل ایمان کا محب ہے اور کافروں کا دشمن ہے کماقال تعالی، فان اللہ عدوللکافرین۔ آیت۔ یہ تمام تفصیل خلاصہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ کے کلام کا جو موصوف نے منہاج السنتہ از ص 3 ج 4 تاص 9 ج 4 میں فرمایا ہے حضرات اہل علم اصل کی مراجعت فرمائیں اور منہاج السنتہ کی تلخیص مسمی بہ منتقی للحافظ الذہبی از ص 481 تا 422 دیکھیں۔ علاوہ ازیں یہ امر بھی تو قابل غور ہے کہ حضرت علی ان روافض سے زیادہ تفسیر قرآن سے باخبر تھے اگر یہ آیت حضرت علی کے خلاف بلافصل کے بارے میں نازل ہوئی تھی تو کم ازکم ایک مرتبہ تو اپنی زندگی میں کسی محفل میں فرماتے کہ یہ آیت میرے بارے میں نازل ہوئی اور تقیہ کا عذر اس لیے درست نہیں کہ شیعہ بالاتفاق یہ روایت کرتے ہیں کہ یوم عاشورہ میں حضرت علی نے اپنے خلافت کے لیے خبر غدیر اور خبر مباہلہ اور اپنے فضائل اور مناقب کو ذکر کیا مگر اپنی امامت اور خلافت کے اثبات کے لیے آیت انما ولیکم اللہ ورسولہ۔ آیت۔ کو ذکر نہیں فرمایا تفسیر کبیر ص 432 ج 3۔ اللہ جل شانہ نے اس آیت میں مرتدین سے جہاد و قتال کی ہدایت فرمائی اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اول ارتداد کی تعریف کری دی جائے۔ ارتداد کی تعریف۔ ارتداد کے معنی لغت میں رجوع یعنی لوٹ جانے کے ہیں اور اصطلاح شریعت میں ارتداد کے معنی اسلام سے کفر کی طرف لوٹ جانے کے ہیں چناچہ امام راغب مفردات ص 192 میں لکھتے ہیں ھوالرجوع من الاسلام الی الکفر یعنی اسلام سے کفر کی طرف پھرجانے کا نام ارتداد ہے۔ محمد علی لاہوری مرزائی اپنے ایک پمفلٹ میں لکھتا ہے کہ ارتداد یہ ہے کہ محمد رسول اللہ ﷺ کی رسالت کو قبول کرکے پھر انکار کردے اور کہہ دے کہ آپ رسول نہیں۔ سوجاننا چاہیے کہ مرزا محمد علی لاہوری نے ارتدا کی یہ تعریف مرزائیوں کے ارتداد کی پردہ پوشی کے لیے کی ہے کسی مرزائی اور قادیانی پر ارتداد کی تعریف صادق نہیں آتی اس لیے کہ ہر مرزائی نبی ﷺ کی رسالت کا بظاہر اقرار کرتا ہے لیکن خوب سمجھ لو کہ انکار رسالت کے فقط یہ معنی نہیں کہ زبان سے یہ کہہ دے کہ میں محمد رسول اللہ کو اللہ کا رسول نہیں مانتا بلکہ جو شخص آپ کی نبوت و رسالت کا انکار کرے یہ کہے کہ میں آپ کو رسول نہیں مانتا جس طرح یہ منکر رسالت ہے اسی طرح جو شخص نبی ﷺ کے کسی قطعی فرماان کا انکار کردے وہ بھی منکر رسالت ہے مثلا کوئی شخص پورے قرآن پاک کا انکار کردے یا قرآن کی ایک سورت کا انکار کردے یا کسی سورت کی ایک آیت کا مثلا خاتم النبین والی آیت کا انکار کرے یا حدیث لانبی بعدی کا انکار کردے وہ بھی منکر رسالت ہے ارتداد کے معنی اسلام سے کفر کی طرف پھرجانے کے ہیں اور اس کی دو صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ کوئی مسلمان صراحت کے ساتھ اسلام سے انکار کربیٹھے دوسری یہ کہ زبان سے تو اسلام کا اقرار کرے مگر اسلام کے بعض قطعی احکام کو انکار کردے دونوں صورتوں میں یہ شخص مرتد ہوجاتا ہے یعنی اسلام سے نکل کر کفر میں جانے والا ہوجاتا ہے زبان سے اسلام کا نام لینا اور اسلام کا کلمہ پڑھنا اور پھر شریعت کے کسی حکم قطعی کا انکار کردینا یہ بھی درپردہ انکار رسالت ہے کما قال تعالیٰ فانھم لایکذبونک۔۔۔ الی۔۔ یجحدون۔ آیت۔ یہ لوگ آپ کی تکذیب نہیں کرتے بلکہ یہ ظالم خدا کی آیات اور اس کے احکام کا انکار کرتے ہیں جو شخص نصوص قطعیہ اور صریحہ میں نامعقول تحریفات اور ناقابل قبول تاویلات باطلہ کرتا ہوا اور زبان سے اسلام کا کلمہ پڑھتا ہوا اصطلاح شریعت میں اس کا نام الحاد اور زندقہ ہے اور اس کا بھی وہی حک ہے جو ارتداد کا حکم ہے لہذا جو شخص ختم نبوت کے قطعی اور یقینی عقیدہ کو تسلیم نہ کرے وہ بلاشبہ منکر رسالت ہے اور دائرہ اسلام سے خارج ہے قرآن کی ایک آیت اور ایک حدیث متواترہ کا انکار درپردہ قرآن کے وحی الٰہی ہونے کا انکار اور نبی ﷺ کے صداقت اور رسالت کا انکار ہے اگر کسی حکومت کی رعایا بن جانے کے بعد قانون شکنی کرے اور ساتھ ہی ساتھ زبان سے حکومت کی وفاداری کا کلمہ بھی پڑھتا رہے تو حکومت اس سے اغماض نہیں کرسکتی اور وہ اس زبانی وفاداری سے پھانسی ور حبس دوام کی سزا سے نہیں بچ سکتا ہر حکومت کی نظر میں قانون شکنی اور بغاوت فتنہ اور فساد ہے جس کا انسداد حکومت کا فریضہ ہے اسی طرح کفر اور ارتداد قانون شرعیت کی نظر میں فتنہ اور فساد ہے اور اسی فتنہ کے انسداد کے لیے جہاد کا حکم نازل ہوا ہے وقاتلوھم حتی لاتکون فتنۃ ویکون الدین کلہ للہ۔ آیت۔ آیت قتال مرتدین اس امر پر صاف دلالت کرتی ہے کہ مرتد کی سزا شریعت میں قتل ہے اور قتل مرتد خدا تعالیٰ کے نزدیک اس قدر محبوب ہے کہ مرتدین سے قتال کرنے والوں کو اللہ نے اپنا محب اور محبوب اور اپنا آوردہ فرمایا ہے اور حدیث میں مشہور من بدل دینہ فاقتلوہ۔ یعنی جو شخص دین اسلام کو چھوڑ کر اس کے بدلہ دوسرا دین اختیار کرے تو اس کو قتل کرڈالو۔ اور اسی پر تمام صحابہ وتابعین کا اجماع ہے اور خلفاء راشدین اور سلاطین اسلام کی یہ سنت ہے۔ تفصیل اگر درکار ہو تو اس ناچیز کا تالیف کردہ رسالہ احسن البیان فی تحقیق الکفر والایمان کو دیکھیں جس میں قتل مرتد کے مسئلہ پر مفصل کلام کیا ہے۔ قتل مرتد پر مدعیان تہذیب کا اعتراض۔ آج کل کے مدعیان تہذیب قتل مرتد کو وحشت اور بربریت بتلاتے ہیں مگر قتل مرتد پر اعتراض کرنے والے بھی عجب نادان ہیں یہ لوگ ایک معمولی بادشاہ اور صدر جمہوریہ کی بغاوت پر ہر قسم کی بربادی اور بمباری فقط جائز ہی نہیں سمجھتے بلکہ اس کو عین سیاست و رعین حکمت اور فرائض سلطنت اور حقوق مملکت سے سمجھتے ہیں حالانکہ وہ صدر جمہوریہ ان عوام کے ووٹوں سے صدر بنا ہے جن میں اکثریت جاہلوں کی ہے اور ان عورتوں کے ووٹ بھی ان میں شامل ہیں جو آئے دن اغوا کا شکار ہوتی رہتی ہیں ایسے صدر جمہوریہ کے باغیوں اور اس کی اطاعت سے مرتد ہونے والوں کے لیے سخت عذاب اور سخت سزا ان روشن خیالوں کے نزدیک بالکل درست ہے اور احکم الحاکمین سے بغاوت کرنے والوں اور اس کی اطاعت کرنے سے مرتد ہونے والوں اور اس کے رفقاء اور وزراء، یعنی انبیاء ومرسلین سے مقابلہ اور مقاتلہ کرنے والوں سے جہاد و قتال خلاف تہذیب اور خلاف انسانیت ہے۔ بریں عقل و دانش بیاید گریست۔ مارشل لاحکومت کے مرتدین کے لیے ہے۔ مارشل لا کا قانون حکومت سے مرتد ہونے والوں کے لیے ہے اور تمام مغربی قومیں اس کے جواز پر متفق ہیں لیکن شریعت الٰہیہ کے مرتدین کے لیے سزائے قتل کے نام سے ناک منہ چڑھاتے ہیں چند سال ہوئے کہ پاکستان میں مارشل لاء کی عدالت سے یہ حکم جاری ہوا کہ مارشل لاء کے احکام پر کسی کو تبصرہ کرنے کی اجازت نہ ہوگی تو اس ناچیز کی زبان سے دو شعر نکلے۔ مارشل لا چہ بود اے ارجمند، چشم بند وگوش بندولب بہ بند۔ حکم فانی راچوشد ایں حرمتی، حکم باقی رابداں چوں رفعتے۔ افسوس اور صد افسو کہ مجازی اور فانی حکومت کے صدر سے بغاوت اور اس کی اطاعت سے ارتداد پر مارشل لاء کا قانون تو ان مدعیان تہذیب کے نزدیک قابل آفرین وتحسین ہو مگر جس خدائے احکم الحاکمین نے بندوں کو وجود اور حیات اور عقل اور ادراک عطا کیا اس کے دین سے اور اس کے نازل کردہ قانون شرعیت سے مرتد ہونے والوں کے لیے سزائے قتل ان لوگوں کے نزدیک خلاف تہذیب ہوجائے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان مدعیان تہذیب کے نزدیک بندوں پر خداوند ذوالجلال کا اتنا بھی حق نہیں جتنا کہ ایک صدر جمہوریہ کا ہے لاحول ولاقوۃ الابااللہ من سوء الفھم۔ مارشل لاء سے مقصود یہ ہوتا ہے کہ ملک اور سلطنت بغاوت اور فتنہ اور فساد کے جراثیم سے محفوظ ہوجائے اسی طرح سمجھو کہ قتل مرتد کے حکم سے شریعت کا مقصدیہ ہے کہ اسلام اور مسلمان کفر اور ارتداد کے جراثیم سے محفوظ ہوجائیں شریعت کی نظر میں مرتد اور ارتداد ایک مجسم فتنہ ہے جس سے کمزور اور سادہ لوح مسلمانوں کے خیالات میں تشویش پیدا ہونے کا خطرہ ہے اس لیے قتل مرتد سے بقیہ ایمان داروں کے ایمان کی حفاظت مقصود ہے جو اسلامی حکومت اولین فریضہ ہے مرتد کے قتل کا حکم اس لیے دیا گیا کہ ارتداد کے جراثیم دوسروں تک متعدی نہ ہوسکیں۔ خلاصہ کلام۔ یہ کہ اس آیت سے یہ امر صراحت معلوم ہوگیا کہ اسلام میں مرتد کی سزا قتل ہے اور بیشمار احادیث سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ مرتد کی سزا قتل ہے۔ حدیث میں ہے من بدل دینہ فاقتلوہ رواہ البخاری وابوداود والدار قطنی عن ابن عباس۔ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص دین اسلام کو چھوڑ کر دوسرا دین اختیار کرے اس کو قتل کرڈالو یہ حدیث مشہور ہے اور اس حدیث کے علاوہ دیگر احادیث صحیحہ میں اسی طرح آیا ہے کہ جو شخص مرتد ہوجائے وہ قابل گردن زنی ہے خواہ وہ برسرپیکار ہو یا نہ ہو مرتد ارتداد کی وجہ سے واجب القتل ہے نہ کہ برسرپیکار ہونے کی وجہ سے۔ 2۔ ابوموسی اشعری نبی ﷺ کی طرف سے والی یمن تھے ایک مرتبہ ان کی ملاقات کے لیے معاذ بن جبل ان کے پاس گئے دیکھا کہ ان کے پاس ایک مرتد شخص قید کرکے لائے گئے معاذ بن جبل نے دریافت کیا کہ یہ کون شخص ہے معلوم ہوا کہ یہ مرتد ہے اسلام کو چھوڑ کر یہودی بن گیا اس پر معاذ بن جبل نے فرمایا لااجل حتی یقتل قضاء اللہ ورسولہ ثلاث مرات فامر بہ فاقتل (بخاری ومسلم وابوداود والنسائی واحمد) ۔ میں اس وقت تک نہیں بیٹھوں گا جب تک اس کو قتل نہ کیا جائے جیسا کہ اللہ اور اس کے رسول کا فیصلہ ہے تین مرتبہ یہی کہا چناچہ اس کو قتل کردیا گیا (صحیح بخاری وغیرہ۔ 3۔ حضرت عثمان غنی جب اپنے گھر میں محصور تھے اور باغی اور مفسد ان کو قتل کرنا چاہتے تھے تو اس وقت عثمان غنی نے دیوار پر چڑھ کر لوگوں سے خطاب کرکے فرمایا کہ میں تمہیں خدا کی قسم دیتا ہوں کیا تم جانتے ہو کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ کسی مسلمان کا قتل اس وقت تک جائز نہیں جب تک اس سے تینوں کاموں سے کوئی کام سرزد نہ ہوجائے وہ تینوں کام یہ ہیں، زنا بعد احصان، وکفر بعدالاسلام، وقتل النفس بغیر حق۔ (شادی کے بعد زنا کرنا، اور اسلام کے بعد کافر اور مرتد ہوجانا اور کسی کو ناحق قتل کردینا۔ نسائی وترمذی وابن ماجہ) ۔ 4۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے ایسی ہی ایک جماعت کے متعلق یہ ارشاد فرمایا اینما لقیتموھم فاقتلوھم فان فی قتلھم اجر المن قتلھم یوم القیامۃ۔ بخاری ومسلم وغیرہما۔ یعنی ان کو مرتدین کو جہاں پاؤ قتل کرڈالو اس لیے کہ ان کے قتل میں قیامت کے دن بڑا یہ اجر عظیم ملے گا حضرت علی کرم اللہ کا طریقہ یہ تھا کہ وہ مرتدین اور زنادقہ کو آگ میں جلایا کرتے تھے دیکھو صحیح بخاری۔ 5۔ قبیلہ عرینہ کے کچھ خدمت نبوی میں حاضر ہوئے اور مشرف باسلام ہوئے اور بعد میں مرتد ہوگئے آپ نے ان سب کے قتل کا حکم جاری کردیا یہ روایت بخاری اور مسلم اور دیگر کتب صحاح میں مذکور اور مشہور ہے۔ ایک شبہ) ۔ بعض آزاد منش اور مرزائی جو قتل مرتد کے منکر ہیں وہ اپنے استدلال میں یہ پیش کرتے ہیں کہ بعض آیات میں مرتدین کے حبط اعمال اور آخرت میں غضب اور لعنت اور عذاب کا ذکر ہے مگر قتل کا ذکر نہیں۔ جواب) ۔ یہ بہمانہ ہے قتل عمد کی سزا اسلام میں بالاجماع قتل ہے مگر قرآن میں جس جگہ قتل عمد کا حکم بیان فرمایا وہاں فقط اخروی عذاب کا ذکر فرمایا قصاص ذکر نہیں فرمایا چناچہ ارشاد فرمایا، ومن یقتل مومنا۔۔۔ الی۔۔۔ عظیما۔ آیت۔ یعنی جو شخص کسی کو عمدا اور قصدا قتل کرے تو آخرت میں اس کی سزا جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اس پر اللہ کا غضب اور اس کی لعنت ہے اور خدا نے اس کے لیے عذاب عظیم تیار کر رکھا ہے غالبا کسی مرزائی کو اس میں تردد نہ ہوگا کہ قتل عمد کی سزا اسلام میں قتل ہے حالانکہ اس آیت میں مسلمان کے قتل عمد پر فقط غضب اور لعنت اور عذاب اخروی کا ذکر ہے قصاص کا ذکر نہیں اللہ تعالیٰ کسی جرم کے اخروی سزا اور خروی عذاب کا ذکر فرماتے ہیں اور کسی جگہ دنیوی سزا کا ذکر مسئلہ کا فیصلہ دونوں آیتوں کے ملانے سے ہوگا دنیوی سزا سے بچنے کے لیے فقط اخروی عذاب ذکر کرنا یہ سب حیلہ اور بہانہ ہے۔ خلفاء راشدین اور قتل مرتدین۔ نبی ﷺ کی وفات کے بعد خلفاء راشدین کا بھی یہی عمل رہا وہ مرتدین اور مدعیان نبوت کو قتل کرتے تھے صدیق اکبر کا مرتدین کا قلع قمع کرنا احادیث اور سیر اور تاریخ سے مسلم ہے اور یہ تمام واقعات جلال الدین سیوطی کی تاریخ الخلفاء وغیرہ میں مذکور ہیں اور مرتدین اور مدعیان نبوت کا قتل تمام صحابہ کرام کے اجماع اور اتفاق سے ہوا ذرہ برابر اس میں نہ کسی کا خلاف ہے اور نہ کسی کو کبھی قتل مرتد کے بارے میں کوئی شک ہوا اور نہ شبہ پیش آیا۔ کیا قتل مرتد کے لیے محاربہ اور سلطنت کا مقابلہ شرط ہے۔ نصوص قرآنیہ اور احادیث نبویہ سے یہ امر صراحۃ ثابت ہوگیا کہ قتل مرتد کے لیے علت ارتداد ہے قرآن اور حدیث میں سزائے مرتد کے لیے کسی جگہ بھی محاربہ اور سلطنت سے مقابلہ اور برسرپیکار ہونے کی شرط نہیں جو شخص مرتد ہوجائے تو اس کی سزا قتل ہے خواہ وہ محاربہ کرے یا نہ کرے خلفاء راشدین نے ہر قسم کے مرتد کے قتل کا حکم دیا خواہ سلطنت سے محاربہ کرے یا نہ کرے قتل کی اصل علت سب جگہ ارتداد تھی نہ کہ محاربہ جو لوگ قتل مرتد کے لیے سلطنت کا مقابلہ شرط قرار دیتے ہیں یہ دھوکہ اور فریب ہ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ خدا کے دین سے مرتد ہوجانا جائز ہے مگر قانون سلطنت سے مرتد اور منحرف ہوجانا اور سلطنت کا مقابلہ کرنا جرم عظیم ہے جو حکومت سے مرتد ہوجائے تو اس کا قتل تو واجب ہے اور عین حکمت اور عین مصلحت ہے اور عین سیاست ہے اور خدا کے دین سے ارتداد میں کوئی حرج نہیں معاذ اللہ جو لوگ قتل مرتد کے مسئلہ کو یہ کہہ کر اڑانا چاہتے ہیں کہ اسلام میں قتل مرتد کا جو حکم آیا ہے اس سے وہ مرتدین مراد ہیں جو حکومت اور سلطنت کے مقابلہ اور محاربہ پر آمادہ ہوں ان لوگوں کو چاہیے کہ آنکھیں کھولیں اور نصوص قرآنیہ اور احادیث نبویہ اور خلفائے راشدین اور سلف صالحین اور شاہان اسلام کے عمل کو دیکھیں کہ ہر زمانہ میں بادشاہ اسلام نے زمانہ کے علماء کے اتفاق اور اجماع سے مرتدین کو ارتداد کی وجہ سے قتل کیا اور اسی پر تمام ائمہ اسلام کا اتفاق ہے۔ خلاصہ کلام یہ کہ قتل مرتد کا مسئلہ اسلام کے مسلمات اور اجماعیات اور قطعیات اور بدیہیات میں سے ہے جس کے بیان سے تمام کتب تفسیر و حدیث اور دواین فقیہ اور کتب تاریخیہ بھری پڑی ہے ایسے قطعی اور اجماعی مسئلہ کا انکار بھی کفر اور ارتداد ہے خوب سمجھلو کہ اور ملا حدہ اور زنادقہ کے وسوسوں سے شبہ میں مت پڑو۔ واللہ سبحانہ وتعالی اعلم۔
Top