Urwatul-Wusqaa - Al-Maaida : 54
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَنْ یَّرْتَدَّ مِنْكُمْ عَنْ دِیْنِهٖ فَسَوْفَ یَاْتِی اللّٰهُ بِقَوْمٍ یُّحِبُّهُمْ وَ یُحِبُّوْنَهٗۤ١ۙ اَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ اَعِزَّةٍ عَلَى الْكٰفِرِیْنَ١٘ یُجَاهِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ لَا یَخَافُوْنَ لَوْمَةَ لَآئِمٍ١ؕ ذٰلِكَ فَضْلُ اللّٰهِ یُؤْتِیْهِ مَنْ یَّشَآءُ١ؕ وَ اللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو لوگ ایمان لائے (ایمان والے) مَنْ : جو يَّرْتَدَّ : پھرے گا مِنْكُمْ : تم سے عَنْ : سے دِيْنِهٖ : اپنا دین فَسَوْفَ : تو عنقریب يَاْتِي اللّٰهُ : لائے گا اللہ بِقَوْمٍ : ایسی قوم يُّحِبُّهُمْ : وہ انہیں محبوب رکھتا ہے وَيُحِبُّوْنَهٗٓ : اور وہ اسے محبوب رکھتے ہیں اَذِلَّةٍ : نرم دل عَلَي : پر الْمُؤْمِنِيْنَ : مومن (جمع) اَعِزَّةٍ : زبردست عَلَي : پر الْكٰفِرِيْنَ : کافر (جمع) يُجَاهِدُوْنَ : جہاد کرتے ہیں فِيْ : میں سَبِيْلِ : راستہ اللّٰهِ : اللہ وَ : اور لَا يَخَافُوْنَ : نہیں ڈرتے لَوْمَة : ملامت لَآئِمٍ : کوئی ملامت کرنیوالا ذٰلِكَ : یہ فَضْلُ : فضل اللّٰهِ : اللہ يُؤْتِيْهِ : وہ دیتا ہے مَنْ يَّشَآءُ : جسے چاہتا ہے وَاللّٰهُ : اور اللہ وَاسِعٌ : وسعت والا عَلِيْمٌ : علم والا
مسلمانو ! تم میں سے جو کوئی اپنے دین سے پھرجائے گا تو قریب ہے کہ اللہ ایک ایسا گروہ پیدا کر دے جنہیں اللہ دوست رکھتا ہو اور وہ بھی اللہ کو دوست رکھنے والے ہوں ، مومنوں کے مقابلہ میں نہایت نرم اور جھکے ہوئے لیکن دشمنوں کے مقابلہ میں نہایت سخت ، اللہ کی راہ میں جان لڑادیں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈریں گے ، یہ اللہ کا فضل ہے جس گروہ کو چاہے عطا فرما دے اور وہ بڑی ہی وسعت رکھنے والا اور جاننے والا ہے
ایمان کے دعویداروں کو خطاب کہ اگر تم میں سے کوئی دین سے پھر گیا تو نقصان کس کا ہوگا ؟ 157: ” یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا “ خطاب بظاہر عام مسلمانوں سے ہے لیکن روئے سخن ان منافقین ہی کی طرف ہے جن کا ذکر چلا آرہا ہے اور جو بظاہر مسلمان ہی کہلاتے ہیں ۔ فرمایا ایسے نام کے مسلمان اگر مرتد ہوجائیں تو کچھ پروانہ کرو اللہ تعالیٰ ایک دوسری جماعت کھڑی کر دے گا اور اس پاکباز جماعت کے اوصاف یہ ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ ان سے محبت کرے گا اور وہ اللہ سے محبت کریں گے یعنی وہ ایمان کے دعوے میں پکے ہوں گے اور اسلام کے لئے اپنی جانیں قربان کرنے والے ہوں گے۔ اس جملہ نے یہ وضاحت خود بخود کردی کہ یہ نام کے مسلمان اور دل کے کافر جن کا صحیح نام منافق ہے ان سے نہ اللہ محبت کرتا ہے اور نہ وہ اللہ سے محبت رکھتے ہیں بلکہ اللہ ان سے نفرت کرتا ہے اور یہ اللہ سے گویا بیزار ہیں۔ یاد رہے کہ خدا کی محبت کسی کے نام و نسب ، شکل و صورت اور مال و جاہ سے نہیں بلکہ ایمان و عمل صالح اور اخلاق و کردار سے ہوتی ہے اور یہ وہ لوگ ہیں جن میں نہ ایمان ہے اور نہ عمل صالح اور نہ ہی کسی اخلاق و کردار کے یہ حامل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اللہ کی محبت کے حق دار نہیں ہو سکتے تھے اور نہ ہوئے اسی طرح اللہ تعالیٰ سے محبت کی شہادت یہ ہے کہ وہ اللہ کے احکام وہدایات اور اس کے رسول اللہ ﷺ کے طریقہ اور فیصلہ کے پابند ہوں لیکن جو لوگ اللہ کے فیصلہ کو چھوڑ کر جاہلیت کے فیصلہ کے طالب اور اللہ ، اس کے رسول اور اہل ایمان کو دوست بنانے کی بجائے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے مخالفین یہود و نصاریٰ اور کفار سے دوستی کی پینگیں بڑھاتے ہیں تو اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے بزار ہونے کی اس سے بڑی دلیل اور کیا ہو سکتی ہے ۔ مزید وضاحت مطلوب ہو تو تفسیر عروۃ الو ثقیٰ جلد دوم سورة آل عمران کی آیت 31 کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں۔ اس جگہ یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ قرآن کریم نے جس طرح اس جگہ منافقین کو ” اے ایمان والو “ کہہ کر یاد کیا ہے اسی طرح بہت سے دوسرے مقامات پر بھی منافقین کو ” مسلمانوں “ اور ” ایمان والو “ کہا گیا ہے۔ کیوں ؟ اس لئے کہ وہ بظاہر ایمان لانے کا دعویٰ رکھتے تھے ان کی ظاہری حالت کے پیش نظر ان کو مخاطب کیا گیا ہے اور بالکل اسی طرح ان لوگوں کی جو اہل کتاب میں سے مسلمان ہوگئے اور انہوں نے رسول اللہ ﷺ کی پہچان کر اللہ کا سچا رسول مان لیا اور وہ مثالی مسلمان ہوچکے تاہم وہ چونکہ ” اہل کتاب “ کے نام سے معروف تھے اس لئے قرآن کریم نے ان کو ” اہل کتاب “ ہی کے نام سے مخاطب کیا ہے جیسے سورة آل عمران کی آیت 199 میں سورة البقرہ کی آیت 62 میں اور سورة مائدہ کی آیت 5 میں ” اہل کتاب “ ” یہود “ اور ” نصاریٰ “ کے ناموں سے یاد کیا گیا ہے اس لئے کہ یہ ان کے معروف نام ہیں اور انہی ناموں سے وہ یاد کئے جاتے تھے حالانکہ یہ لوگ پکے اور سچے مسلمان تھے۔ اللہ تعالیٰ سے محبت کرنے والوں کا دوسرا وصف کہ وہ ایمان والوں کے لئے نرم مزاج ہوں گے : 158: ان کی دوسری صفت یہ بیان ہوئی کہ ” وہ مومنوں کے مقابلہ میں نہایت نرم اور جھکے ہوئے اور دشمنوں کے مقابلہ میں نہات سخت ہیں۔ “ اذلۃ ذلیل یا ذلال دونوں کی جمع ہے اور اس جگہ ذلال ہی کی جمع بیان کی گئی ہے ذلال کے معنی ہیں نرم اور سہل الانقیاد یعنی جو آسانی سے قابو میں آجائے۔ اکثر مفسرین کے نزدیک اس جگہ یہی معنی مراد ہیں یعنی یہ لوگ مسلمانوں کے سامنے نہایت ہی نرم ہوں گے۔ حدیث میں ہے کہ فرمایا رسول اللہ ﷺ نے کہ ” میں اس شخص کو وسط جنت میں گھر دلوانے کی ذمہ داری لیتا ہوں جو حق پر ہونے کے باوجود جھگڑا چھوڑدے۔ “ ماحصل اس کا یہ ہوا کہ یہ لوگ مسلمانوں سے اپنے حقوق اور معاملات میں کسی قسم کا کوئی جھگڑا نہیں رکھیں گے اور ان کے دوسرے وصف میں یہ بات بھی شامل ہے کہ ” دشمنوں کے مقابلہ میں نہایت سخت ہیں ۔ “ اعزۃ عزیز کی جمع ہے جس کے معنی غالب ، قومی اور سخت ہیں مراد یہ ہے کہ یہ لوگ اللہ اور اسکے دین کے مخالفوں کے مقابلہ میں سخت اور قوی ہیں اور وہ ان پر قابو نہ پاسکیں گے اور اس طرح جملوں کو ملانے کا حاصل یہ ہوا کہ وہ ایسی قوم ہوگی جس کی محبت و عداوت اور دوستی و دشمنی اپنی ذات اور ذاتی حقوق کی بجائے صرف اللہ اور اس کے رسول اور اس کے دین کی خاطر ہوگی۔ اس لئے ان کی لڑائی کا رخ اللہ اور رسول اللہ ﷺ کے فرمانبرداروں کی طرف نہیں بلکہ اس کے دشمنوں اور نافرمانوں کی طرف ہوگا۔ بالکل یہی بات قرآن کریم نے دوسری جگہ اس طرح ارشاد فرمائی کہ ” اَشِدَّآءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَآءُ بَیْنَهُمْ “ (الفتح 48 : 29) ” وہ کفار کے مقابلہ میں بہت سخت اور آپس میں نہایت ہی رحمدل ہیں۔ “ عربی محاورہ میں کہتے ہیں : فلان شدید علیہ فلاں ، فلاں شخص اس پر شدید ہے یعنی اس کو رام کرنا اور اپنے مطلب پر لانا اس کے لئے نہایت مشکل ہے۔ کفار کے مقابلہ میں سخت ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ کافروں کے ساتھ درشتی اور تندخوئی سے پیش آتے ہیں بلکہ اس کا صحیح اور سیدھا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے ایمان کی پختگی ، اصول کی مضبوطی ، سیرت کی طاقت اور ایمانی فراست کی وجہ سے کفار کے مقابلہ میں پتھر کی چٹان کا حکم رکھتے ہیں وہ موم کی ناک نہیں ہیں کہ انہیں کافر جدھر چاہیں موڑ دیں وہ نرم چارہ نہیں ہیں کہ کافر انہیں آسانی کے ساتھ چبا جائیں۔ انہیں کسی خوف سے دبایا نہیں جاسکتا اور نہ ہی انہیں کسی ترکیب سے خریدا جاسکتا ہے ۔ کافروں میں یہ طاقت نہیں ہے کہ انہیں اس مقصد عظیم سے ہٹا دیں جس کے لئے وہ سردھڑ کی بازی لگا کر محمد رسول اللہ ﷺ کا ساتھ دینے کیلئے اٹھے ہیں یعنی ان کی سختی جو کچھ بھی ہو وہ سارے کی ساری دشمنان دین کے لئے ہے وہ بھی اصولوں کے مطابق بےاصولی نہیں اور اہل ایمان کے مقابلہ میں وہ نرم ہیں ، رحیم وشفق ہیں ، ہمدردوغمگسار ہیں۔ اصول اور مقصد کے اتحاد نے ان کے اندر ایک دوسرے کے لئے محبت اور ہم آہنگی و ساز گاری پیدا کردی ہے۔ آگے بڑھنے سے پہلے ذرا غور کر لو کہ آج ہم مسلمانوں کی حالت کیا ہے ؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہماری ساری سختی مسلمانوں ہی کے لئے باقی رہ گئی ہو اور کفار کے مقابلہ میں ہم بہت ہی نرم خو اور نرم مزاج ہوچکے ہوں۔ خصوصاً ہماری حکمتوں کی حالت کیا ہے ۔ ہاں ! جو اسلامی حکومتیں کہلاتی ہیں ؟ ہاں جی ہاں ! دوبارہ غور کرو کہ اسلامی حکومتوں کے آپس کے تعلقات کیسے ہیں ؟ اور کفار کی حکومتوں کے ساتھ تعلقات کیسے ؟ کیا آج سارے مسلمان حکمران کفر کے حکمرانوں کے اشاروں پر تو نہیں ناچ رہے ؟ اگر بات فی الحقیقت ایسی ہے تو پھر یہ کون سوچے گا کہ کا و آج ہم مسلمان ہیں بھی یا نہیں ؟ ہماری اس سوچ کے لئے ایک حد متعین کردی گئی ہے جس کا علم یقینا اللہ کے پاس ہے اس اجل مسمی سے پہلے سوچ کر کوئی مثبت قدم اٹھائیں گے تو خیر ورنہ اس کا فیصلہ ہوتے ذرا دیر بھی نہیں لگے گی۔ اس وقت ہماری حالت یقینا ناگفتہ بہ ہے لیکن ہمارا ایمان ہے کہ وہ وقت آئے گا کہ جس قوم کے پیدا کرنے کا فیصلہ الٰہی سنایا جارہا ہے وہ یقینا آئے گا اور یہ سفیدی یقینا ان چہروں کو نصیب ہوگی ۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ وہ لوگ جلد پیدا فرمادے کہ پانی سر سے اوپر ہونے کو ہے اور مسلمان حکمرانوں کی حالت ناگفتنی ہوچکی ہے ان کی ساری سختی آگر ہے تو مسلمانوں ہی کے خلاف ہے اور اگر کوئی نرم گوشہ ان کے دل میں ہے تو وہ چار و ناچار کفار ہی کے لئے ہے ۔ ہاں ! اتنی سی بات ہے کہ اس حالت کے باوجود اپنے آپ کو مسلمان کہلاتے ہیں اور یہ ان سب کی مجبوری ہے۔ اللہ سے محبت کرنے والوں کا تیسرا وصف کہ وہ راہ الٰہی میں جان لڑانے والے ہیں : 159: تیسرا وصف اس جماعت حقہ کا یہ بیان فرمایا کہ ” وہ اللہ کی راہ میں جان لڑا دیں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈریں گے۔ “ یعنی یہ لوگ دین حق کی اشاعت کے لئے جہاد کریں گے جس کا حاصل مطلب یہ ہوا کہ کفر اور ارتداد کا مقابلہ صرف معروف قسم کی عبادت گزاری اور نرمی و سختی ہی کافی نہیں بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ ان میں اقامت دین کا جذبہ بھی ہو اور ان کی یہ سعی و کوشش ، ملک گیری کی ہوس اور اللہ کے بندوں کو محکوم بنانا نہیں بلکہ اللہ کی حاکمیت قائم کرنا ہے جس کے لئے وہ جان تک کی قربانی پیش کرنے کے لئے ہر وقت اور ہر آن تیار رہتے ہوں گے کہ جبھی امیر کا حکم آیا تو ان کا مارچ شروع ہوگیا۔ پھر فرمایا کہ اس سلسلہ میں ” وہ کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈریں گے۔ “ کہ کون کیا کہتا ہے ؟ جو کچھ کوئی کہتا ہے کہتا رہے وہ کسی کے کچھ کہنے سے بےنیاز ہیں اسلئے کہ وہ راہ حق پر گامزن ہیں اور وہ جس راہ کے مسافر ہیں خود اپنی مرضی سے نہیں بلکہ کسی کے چلانے سے چل رہے ہیں اور بےخطر چلتے رہیں گے جب تک کہ اس حکم رک جانے کا نہیں آتا ہے یا اپنی جانیں اس راہ میں قربان نہیں کردیتے۔ افسوس کہ آج ہمارے قدم غیروں کے اشارے پر تو اٹھ سکتے ہیں ، اپنوں کے اشاروں پر نہیں بلکہ اپنے صدائیں بھی دیں گے تو ہم سنی ان سنی کردیں گے ۔ نام کے لحاظ سے ہمارا قبیلہ و مرکز ” بیت اللہ “ ہے لیکن کام کے لحاظ سے ہمارا مرکز ، ہماری ضرورت اور ذاتی خواہش ہے اور ہمیں یقین کرا دیا گیا ہے کہ ہماری یہ ضرورت ” اقوام متحدہ “ سے پوری ہوگی اور ہم اپنی ضرورت پوری کرنے کے لئے ہاتھ باندھ کر ” اقوام متحدہ “ کی طرف رخ کر کے کھڑے ہیں اور وہاں کے خداؤں کو اپنی عرضیاں پیش کرتے ہیں اور ان کے رحم و کرم پر ہیں کہ وہ ہمیں دھمکی دیتے ہوئے ہماری مرضی کو چاک کردیتے ہیں یا ترمیم کے لئے ارشاد فرماتے ہیں ہاں ! اگر عرضی چاک ہوگئی تو کیا ہماری غیرت جاگ جائے گی نہیں نہیں وہ تو کئی بار چاک ہوچکی اور ہم ہر باز نئی عرضی پیش کرنے کے لئے حاضر دے چکے اور رہی غیرت تو وہ ہم میں اب ہے ہی کہاں جو جاگ جائے گی اس کا جنازہ تو کبھی کا نکل چکا۔ انا اللہ وانا الیہ راجعون۔ “ اللہ والوں کے جو اوصاف بیان ہوئے وہ کیا ہیں ؟ 160: اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل کے لئے ایک خاص قانون بنا دیا ہے جس کا اعلان بھی کردیا گیا ہے اور اس کا قانون یہ ہے کہ اس کے فضل کی تلاش و جستجو کرتا ہے وہ اس کو ملتا ہے اس کی وسعتیں بیحد و بےکنار ہیں اور اس کا اعلان یہ ہے کہ ” میں اپنے کئے ہوئے وعدوں کا کو کبھی خلاف نہیں کرتا اور وہ ہرچیز کا جاننے والا ہے ۔ “ اس لئے تو اس نے ہر کام کے ہونے سے پہلے ہی اس کا اعلان فرما دیا کہ وہ نہ تو خود وعدہ خلافی کرتا ہے اور نہ ہی کسی دوسرے کو اپنے وعدہ کے خلاف کرنے دیتا ہے کہ وہ سب زور آوری سے زیادہ زور آور ہے اور اس کا علم ہمارے جاننے والوں کو محیط ہے۔ زیر نظر آیت کی تشریح سے یہ واضح ہوچکا کہ اگر مسلمانوں میں کچھ لوگ جو پہلے ہی نام کے مسلمان ہیں مرتد ہوجائیں تو دین اسلام کو کوئی گزند نہیں پہنچے گی بلکہ اس کی حفاظت و حمایت کے لئے اللہ تعالیٰ ایک اعلیٰ اخلاق و اعمال کی جماعت کھڑی کر دے گا ۔ قرآن کریم کا یہ وہ زندہ وجاوید معجزہ ہے جس کا ظہور کئی بار ہوچکا ہے اور رہتی دنیا تک وقتاً فوقتاً ہوتا رہے گا اور یہی اس کلام کے من اللہ ہونے کی دلیل ہے کہ جب کبھی حالات کی نزاکت سے یہ معلوم ہونے لگا کہ اب اسلام کی دیوار دھڑام سے گرنے والی ہے اور مخالف قوتوں نے اپنا سارا زور لگالیا تو اللہ تعالیٰ نے اس کی حفاظت کے وہ سامان اس طرح پیدا کردیئے کہ دھڑام سننے والے خود ورطہ حیرت میں رہ کر دم بخود ہوگئے اور ایسے سوئے کہ پھر کبھی اٹھنے کا نام نہ لیا اور اللہ کو معلوم ہے کہ ان کے اٹھنے کا وقت کیا ہے۔ ان نازک حالات میں سے ایک کا ذکر کہ دنیا مثال کے لئے کافی ہوگا اور مفسرین اسلام نے بھی اس کی طرف اشارہ کیا ہے کہ یہ آیت درحقیقت آنے والے فتنہ کی پیش گوئی ہے اور اس کا ہمت کے ساتھ مقابلہ کر کے کامیاب ہونے والی جماعت کے لئے بشارت ہے ۔ ایک تو وہ آنے والا فتنہ ارتداد ہے جس کے بہت سے جراثیم عہد نبوت کے بالکل آخری ایام میں پھیلنے لگے تھے جو بعد از وفات نبی اعظم و اخر ﷺ کے عام ہو کر پورے جزیرۃ العرب میں اسکا طوفان کھڑا ہوگیا اور آپ ﷺ کی بشارت کی مستحق پہلی وہ جماعت صحابہ کرام ؓ کی ہے جس نے خلیفہ اول صدیق اکبر ؓ کے ساتھ مل کر اس فتنہ ارتداد کا مقابلہ کیا۔ ! واقعات اس طرح ہیں کہ مسیلہ کذاب نے نبی اعظم و اخر ﷺ کے وقت ہی میں نبوت کا دعویٰ کیا اور یہاں تک جرات کی کہ آپ ﷺ کے قاصدوں کو یہ کہہ کر واپس کردیا کہ اگر مقصد تبلیغ واصلاح یہ دستور نہ ہوتا کہ قاصدوں اور سفیروں کو قتل نہیں کیا جاتا تو تمہیں قتل کردیتا لیکن آپ ﷺ کو اسکے خلاف جہاد کا موقع نہ ملا کہ آپ ﷺ کی وفات ہوگئی۔ " یمن کے قبیلہ مذحج کے سردار اسود عنسی نے اپنی نبوت کا اعلان کردیا اور رسول اللہ ﷺ نے اپنی طرف سے مقرر کردہ حاکم یمن کو اس کا مقابلہ یمن کو اس کا مقابلہ کرنے کا حکم دے دیا مگر جس رات اس کا قتل ہوا اس کے اگلے ہی روز نبی اعظم و اخر ﷺ کی وفات ہوگئی۔ صحابہ کرام ؓ کو اس کی خبر 10 ربیع الاول کے آخر میں پہنچی۔ # اس طرح قبیلہ بنو اسد کے ایک سردار طلحہ بن خویلد نے بھی خود اپنی نبوت کا دعویٰ کردیا اور یہ بھی بالکل انہی ایام میں ہوا جن میں آپ ﷺ کی وفات ہوئی۔ آپ ﷺ کی وفات کے بعد حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے خالد بن ولید ؓ کو اس کے مقابلہ کے لئے بھیجا حضرت خالد ؓ نے شدید جنگ کے بعد اس کو شکست دی۔ یہ بھاگ کر شام چلا گیا اور کچھ مدت کے بعد دوبارہ مسلمان ہوگیا اور اس کا اسلام لانا خلوص کے ساتھ رہا۔ رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی خلافت میں کچھ قبیلے مرتد ہوئے اور انہوں نے مختلف فتنے کھڑے کئے ۔ ان کے ارتداد کی مختلف صورتیں تھیں اور ان میں سے ہر ایک نے کسی نہ کیب طرح اسلام کے ساتھ چھیڑ خانی کی جس کی تفصیل کتب تاریخ میں موجود ہے۔ ان میں سے یہ قبائل سرفہرست تھے۔ $ بنی فزارہ جو عینہ بن حصین کا قبیلہ تھا۔ % بنی غطفان جو قرہ بن سلمہ قشیری کا قبیلہ تھا۔ ^ بنی سلیم جو فجاۃ بن عبد یا لیل کا قبیلہ تھا۔ بنی یربوع جو مالک بن نویرہ کا قبیلہ تھا۔ خاندان بن تمیم کا ایک خاص حصہ جو دراصل شجاع بنت منذر زوجہ مسیلمہ کذاب کا تھا یہی وہ شجاح ہے جس نے نبوت کا دعویٰ کیا تھا لیکن آخر میں وہ مسلمان ہوگئی تھی۔ ( بنی کندہ جو اشعث بن قیس کا قبیلہ تھا۔ ) بن مکربن وائل جو بحرین کے باشندے اور حطیم کے قبیلہ والے تھے اور انجام کار ان سب قبائل کے ان فتنوں کو سیدنا ابوبکر صدیق ؓ کے ہاتھوں دفن کر ادیا گیا اور اللہ تعالیٰ نے صحابہ ؓ کی اس جماعت سے ان فتنوں کو ایسا دفن کرایا کہ ایک مدت مدیر تک ایسے فتنوں نے دوبارہ سر نہ نکالا۔ سیدنا ابوبکر صدیق ؓ کے مختصر دور کے بعد بھی بلاشبہ وقتا فوقتاً فتنے کھڑے ہوتے رہے اور ہر ایک فتنے کا سر کچلنے کے لئے اللہ کے بندے اٹھتے رہے جتنا فتنہ زبردست تھا یقینا اس کا سر کچلنے والے ہمت مردانگی میں ان سے بھی زیادہ سخت تھے۔ آج فی زماننا ایک مدت سے یہود و نصاریٰ کے گٹھ جوڑ کا فتنہ پھر کھڑا ہے بلاشبہ عالم اسلام کو انہوں نے ناچنی کا ناچ نچانا شروع کر رکھا ہے اور خود پتلیوں کا تماشا دیکھ رہے ہیں انکا گھمنڈ اس قدر بڑھ چکا ہے کہ وہ اسلامی حکومتوں کو ایک دوسرے کے خلاف استعمال کرنے میں ماہر و حاذق ہوچکے ہیں وہ جہاں جس کو چاہتے ہیں اور جس طرح چاہتے ہیں استعمال کرتے ہیں لیکن ان کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر دیکھنے والا کوئی موجود نہیں ہے تاہم قانون خداوندی ہر فرعونے را موسیٰ کے قانون کے مطابق ابھی حرکت میں نہیں آیا۔ یہ حرکت کب ہوگی ؟ کس وقت ہوگی اور کہاں سے ہوگی ؟ ان سوالوں کا جواب اللہ ہی کے پاس ہے اور ہم ایمان بالغیب کے طور پر اس بات کا یقین رکھتے ہیں کہ ابابیلوں سے ہاتھیوں والوں کو مروا دینے والا رب اس وقت بھی موجود ہے ہم روسیاہ اگر اس قابل نہ ہوئے تو اس کے قانون کی گرفت کا جو معین وقت ہے اس سے یہ لوگ تجاوز نہیں کرسکیں گے ۔ پندرہویں صدی کی اخیر نہیں ہوگی کہ یہود و نصاریٰ کے اس گٹھ جوڑ ہی کے نتیجہ میں یہود و نصاریٰ کو تہس نہس کریں گے اور اس سلسلہ میں وہ مسلمانوں سے مدد کے طلب گار ہوں گے پھر یہود کو تہ تیغ کیا جائے گا اور یہی وہ وقت ہوگا کہ مسلمانوں کے قدم جمنے لگیں گے اور یہ جو کچھ کہا گیا ہے قرآن کریم کی روشنی ہی کا پر تو ہے جو ایک مومن کے دل پر پڑ رہی ہے یہ الفاظ 416 1 ء کے ربیع الاول میں تحریر کئے جا رہے ہیں جو 1995 ء کے اگست کا محاذی ہے۔
Top