Fi-Zilal-al-Quran - At-Taghaabun : 2
هُوَ الَّذِیْ خَلَقَكُمْ فَمِنْكُمْ كَافِرٌ وَّ مِنْكُمْ مُّؤْمِنٌ١ؕ وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ
هُوَ الَّذِيْ : وہ اللہ وہ ذات ہے خَلَقَكُمْ : جس نے پیدا کیا تم کو فَمِنْكُمْ كَافِرٌ : تو تم میں سے کوئی کافر وَّمِنْكُمْ مُّؤْمِنٌ : اور تم میں سے کوئی مومن ہے وَاللّٰهُ : اور اللہ بِمَا تَعْمَلُوْنَ : ساتھ اس کے جو تم عمل کرتے ہو بَصِيْرٌ : دیکھنے والا ہے
” وہی ہے جس نے تم کو پیدا کیا ، پھر تم میں سے کوئی کافر ہے اور کوئی مومن “۔ اور اللہ تعالیٰ خوب جاننے والا دیکھنے والا ہے
ھوالذی .................... مومن (46 : 2) ” وہی ہے جس نے تم کو پیدا کیا ، پھر تم میں سے کوئی کافر ہے اور کوئی مومن “۔ یہ انسان اللہ کی قدرت اور اللہ کے ارادے سے وجود میں آیا ہے۔ اور یہ اللہ ہی ہے جس نے انسان کے اندر کفر کے رجحان کے امکانیات اور ایمان کے رجحان کے امکانیات رکھے۔ اس حضرت انسان کے اندر مختلف الجہات استعدادیں بیک وقت ودیعت کردیں اور پھر اللہ نے اسے نیک وبد کی تمیز بھی عطا کی۔ اور اسی استعداد کے مطابق اس انسان کے اندر ایمان پیدا ہوا۔ ایمان اللہ کی طرف سے ایک بڑی امانت ہے اور اس کی بڑی ذمہ داریاں ہیں۔ اس کے بعد اللہ نے اسے دین و شریعت بھی عطا کی جس کے مطابق وہ اپنے ایمان اور عمل کو وزن کرتا ہے۔ یہ دین اس نے رسولوں پر نازل فرمایا اور یوں اللہ تعالیٰ نے انسان کی معاونت کی کہ وہ اس امانت کو اٹھائے اور دوسرے انسانوں کی اس میں داخل ہونے کے لئے مدد دے۔ واللہ ................ بصیر (46 : 2) ” اور اللہ وہ سب کچھ دیکھ رہا ہے جو تم کرتے ہو “۔ وہ دیکھ رہا ہے کہ انسان کر کیا رہا ہے ؟ وہ انسانوں کی نیت اور رجحان سے واقف ہے لہٰذا انسان کو عمل بھی کرنا چاہئے اور ڈرنا بھی چاہئے کیونکہ نگران علیم وبصیر ہے ، کہیں سویا ہوا نہیں ہے۔ انسان کی حقیقت اور اس جہاں میں اس کے مقام وموقف کے بارے میں یہ تصور ، اس کائنات کے بارے میں اسلام کے واضح سیدھے تصور کا ایک حصہ ہے کہ انسان کو یہاں استعداد واختیار دیا گیا ہے اور وہ اپنے خالق کے سامنے اپنے اعمال کا ذمہ دار ہے اور خالق علیم وبصیر ہے۔
Top