Al-Qurtubi - At-Taghaabun : 2
هُوَ الَّذِیْ خَلَقَكُمْ فَمِنْكُمْ كَافِرٌ وَّ مِنْكُمْ مُّؤْمِنٌ١ؕ وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ
هُوَ الَّذِيْ : وہ اللہ وہ ذات ہے خَلَقَكُمْ : جس نے پیدا کیا تم کو فَمِنْكُمْ كَافِرٌ : تو تم میں سے کوئی کافر وَّمِنْكُمْ مُّؤْمِنٌ : اور تم میں سے کوئی مومن ہے وَاللّٰهُ : اور اللہ بِمَا تَعْمَلُوْنَ : ساتھ اس کے جو تم عمل کرتے ہو بَصِيْرٌ : دیکھنے والا ہے
وہی تو ہے جس نے تم کو پیدا کیا پھر کوئی تم میں کافر ہے اور کوئی مومن۔ اور جو کچھ تم کرتے ہو خدا اسکو دیکھتا ہے۔
حضرت ابن عباس نے کہا، اللہ تعالیٰ نے بنی آدم کو مومن اور کافرپیدا کیا قیامت کے روز انہیں مومن، کافر کی حیثیت سے دوبارہ اٹھائے گا (4) حضرت ابو سعید خدری سے روایت نقل کی گئی ہے۔ کہا : نبی کریم ﷺ نے پچھلے پہر ایک دفعہ خطبہ ارشاد فرمایا اور اس میں آئندہ ہونے والے امور کے بارے میں ذکر کیا (5) ۔ فرمایا :” لوگ مختلف طبقات میں جنم لیتے ہیں ایک آدمی مومن کی حیثیت میں پیدا ہوتا ہے، مومن کی حیثیت میں زندہ رہتا ہے اور مومن کی حیثیت میں مر جاتا ہے۔ ایک آدمی کافر کی حیثیت میں جنم لیتا ہے، کافر کی حیثیت میں زندہ رہتا ہے اور اکفر کی حیثیت میں مر جاتا ہے۔ “ حضرت ابن مسعود نے کہا، نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا :” اللہ تعالیٰ نے فرعون کو اس کی ماں کے پیٹ میں کافر پیدا کیا اور حضرت یحییٰ بن زکریا کو اپنی ماں کے پیٹ میں مومن پیدا کیا “ (1) صحیح میں حضرت ابن مسعود سے روایت مروی ہے :” تم میں سے کوئی جنتیوں کا ساعمل کرتا ہے یہاں تک کہ اس کے درمیان اور جنت کے درمیان ایک ہاتھ یا باع (دونوں بازوں کو پھیلایا جائے تو ان کے درمیان کا فاصلہ) کا فاصلہ رہ جاتا ہے تو اس پر لکھی ہوئی تقدیر غالب آجاتی ہے تو وہ جہنمیوں کا سا عمل کرتا ہے اور اس میں داخل ہوجاتا ہے اور ایک آدمی جہنمیوں کا سا عمل کرتا ہے یہاں تک کہ اس کے اور جہنم کے درمیان ایک ہاتھ یا باع کا فاصلہ رہ جاتا ہے تو اس پر تقدیر غالب آجاتی ہے تو وہ جنتی کا سا عمل کرتا ہے اور اس میں داخل ہوجاتا ہے ٭“ اسے امام بخاری اور امام ترمذی نے روایت کیا ہے، اس میں باع کا ذکر نہیں۔ صحیح مسلم میں حضرت سہل بن سعد ساعدمی کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :” ایک آدمی جنتی کا سا عمل کرتا ہے ان امور میں جو لوگوں کے لئے ظاہر ہوتے ہیں جبکہ وہ جہنمی ہوتا ہے اور ایک آدمی ظاہر میں جہنمی کا ساعمل کرتا ہے جبکہ وہ جنتی ہوتا ہے “ (2) ہمارے علماء نے کہا، ان احادیث کا معنی یہ ہے اللہ تعالیٰ کا علم الزی ہے معلوم کے ساتھ متعق ہے تو وہی کچھ ہوتا ہے جو اس کے علم میں ہوتا ہے، جس کا وہ ارادہ کرے اور جو وہ حکم دے وہ عام احوال میں کبھی ایک شخص کے ایمان کا ارادہ کرتا ہے اور کبھی معلوم وقت تک ایمان کا ارادہ کرتا ہے۔ یہی حالت کفر کی ہے۔ ایک قول یہ کہا گیا ہے (3) کلام میں حذف ہے تقدیر کلام یوں ہے فمنکم مومن و منکم کافر ومنکم فاسق کلام سے حذف اس لئے ہوا کیونکہ کلام میں ایسی چیز موجود ہے جو اس کے حذف پر دلالت کرتی ہے، یہ حضرت حسن بصری کا قول ہے۔ دوسرے علماء نے کہا، اس میں کوئی حذف نہیں کیونکہ مقصود دونوں طرفوں کا ذکر ہے۔ اہل علم کی ایک جماعت کا کہنا ہے : اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا کیا پھر انہوں نے کفر کیا اور وہ ایمان لائے۔ انہوں نے کہا، تمام کلام ھو الذی خلقکم ہے پھر ان کی صفت لگائی۔ فمنکم کافروا منکم مومن جس طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : واللہ خلق کل دآبۃ من مآء فمنھم من یمشی علی بطنہ (النور : 45) انہوں نے کہا : اللہ تعالیٰ نے انہیں پیدا کیا اور چلنا انسانوں کا فعل ہے، اس قول کو حسین بن فضل نے اختیار کیا ہے۔ حسین بن فضل نے کہا، اگر اللہ تعالیٰ نے انہیں مومن و کافر کی حیثیت سے پیدا کیا ہوتا تو ان کی صفت اس انداز میں نہ بتاتا فمنکم کافرومنکم مومن انہوں نے نبی کریم ﷺ کے اس ارشاد سے استنباط کیا ہے :” ہر بچے کو فطرت پر پیدا کیا جاتا ہے، اس کے والدین اسے یہید بناتے ہیں، اسے نصرانی بناتے ہیں اور اسے مجسوی بناتے ہیں۔ “ (4) سورة روم میں یہ بحث مفصل گزر چکی ہے۔ ضحاک نے کہا، تم میں سے کچھ اندر سے کافر اور باہر سے مومن ہیں جس طرح منافق ہوتے ہیں۔ تم میں سے کچھ اندر سے مومن اور باہر سے کافر ہوتے ہیں جس طرح حضرت عمار (5) وغیرہ۔ عطاء بنی ابی رباح نے کہا، تم میں سے کچھ اللہ تعالیٰ کی ذات پر ایمان لانے والے اور ستاروں کا انکار کرنے والے ہوتے ہیں یعنی یہ انوائ (ستاروں) کے بارے میں ہے (1) زجاج نے کہا، یہ بہترین قول ہے، جو ائمہ اور جمہور امت کا قول ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کافر کو پیدا کیا اور اس کا کفر اس کا اپنا فعل اور کسب ہے جبکہ اس کے فعل کفر کا خالق اللہ تعالیٰ ہی ہے، اللہ تعالیٰ نے مومن کو پیدا کیا اس کا ایمان اس کا فعل اور کسب ہے جبکہ اللہ تعالیٰ ایمان کا خالق ہے کافر کفر کرتا ہے اور کفر کو پسند کرتا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ نے کفر کو پہلے پیدا کیا ہوتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے کافر کو اس پر قدرت دی اور اس سے کفر کے وقوع کو جانتا تھا۔ یہ جائز نہیں کہ ان دونوں سے اس کے علاوہ کوئی چیز پائی جائے جن پر اللہ تعالیٰ نے اسے قادر بنایا تھا اور اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کو علم تھا کیونکہ مقدور کے خلاف کا پایا جانا یہ عاجزی ہے اور معلوم کے خلاف کا پایج انا جہالت ہے۔ یہ دونوں چیزیں اللہ تعالیٰ کے شایان شان نہیں اس قول میں انسان جبر و قدر کے قول سے محفوظ رہتا ہے، جس طرح شاعر نے ہا ، یا ناظرا فی الذین ما الامر لا قدر صح والا جبر اے دین میں غور و فکر کرنے والے ! یہ معاملہ کیا ہے نہ قدر (2) صحیح ہے اور نہ جبر (3) صحیح ہے۔ سیلان نے کہا، ایک بدو بصرہ میں آیا۔ اسے کہا گیا، تو قدر کے بارے میں کیا کہتا ہے اس نے جواب میں کہا، یہ ایسا امر ہے جس میں گمانات بہت بڑھ گئے ہیں اور اختلاف کرنے والوں نے اس میں اختلاف کیا ہے ضرویر ہے کہ ہم پر جو اس کے حکم میں سے معاملہ مشتبہ ہوجائے ہم اسے اس کے علم کی طرف پھیر دیں۔
Top