Urwatul-Wusqaa - At-Taghaabun : 2
هُوَ الَّذِیْ خَلَقَكُمْ فَمِنْكُمْ كَافِرٌ وَّ مِنْكُمْ مُّؤْمِنٌ١ؕ وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ
هُوَ الَّذِيْ : وہ اللہ وہ ذات ہے خَلَقَكُمْ : جس نے پیدا کیا تم کو فَمِنْكُمْ كَافِرٌ : تو تم میں سے کوئی کافر وَّمِنْكُمْ مُّؤْمِنٌ : اور تم میں سے کوئی مومن ہے وَاللّٰهُ : اور اللہ بِمَا تَعْمَلُوْنَ : ساتھ اس کے جو تم عمل کرتے ہو بَصِيْرٌ : دیکھنے والا ہے
وہی (اللہ) ہے جس نے تم کو پیدا کیا پھر تم میں سے بعض کافر ہیں اور بعض مومن ہیں اور تم لوگ جو کچھ کرتے ہو اللہ (اس کو) دیکھتا ہے
پیدا کرنے والا سب کا اللہ ہے خواہ کوئی کافر ہے یا مسلمان 2 ؎ انسان کیا ہے ؟ وہ اپنی تخلیق پر غور کرے اور دیکھے کہ وہ کیا ہے ؟ مومن کے پاس کیا زیادہ ہے اور کافر کے ساتھ کیا کم ؟ لاریب جتنی کوشش بیک وہ کرے گا اس بات کا فیصلہ وہ نہیں کرسکتا اور نہ ہی ان دونوں میں کوئی کمی بیشی ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے دونوں کو ایک ہی جے سک انسان بنایا ہے اور ایک ہی طرح سے ان کی تخلیق کی ہے اور کوئی بھی ان میں سے نہ تو مختار کل ہے اور نہ ہی مجبور محض ۔ ہاں ! دونوں کی صلاحیتوں کا خالق بھی وہی اللہ تعالیٰ ہے۔ انسان کو اس بات کا اختیار دیا گیا ہے کہ وہ ان میں سے جن صلاحیتوں کو چاہے بروئے کار لائے اور جس طرح چاہے ان کا استعمال کرے یہی انسان کا فعل اور کسب ہے اور اسی کسب کے باعث اس کو جزا اور سزا کا مستحق قرار دیا گیا ہے۔ زیر نظر آیت میں بتایا گیا ہے کہ سارے انسانوں کو خواہ وہ کافر ہوں یا مسلمان ان کو نیست سے ہست کرنے والا والا اللہ تعالیٰ ہی ہے اور کوئی دوسرا نہیں ہے۔ جتنی صلاحیتیں اللہ تعالیٰ نے انسان میں پیدا کردی ہیں اتنی کسی اور مخلوق میں پیدا نہیں کی گئیں خواہ وہ مخلوق حجم اور جسم کے لحاظ سے انسان سے کروڑوں گنا زیادہ ہو اور ان کے سامنے انسان کی کوئی نسبت ہی قائم نہ کی جاسکے کیونکہ یہی ایک مخلوق ہے جو باقی ساری مخلوقات پر حاوی اور بھاری ہے ۔ اس لیے ہم نے یہ بات بار بار عرض کی ہے کہ ہزاروں بندے الگ الگ نوعیت کے کام کرتے ہیں لیکن ہر نوعیت کی صلاحیتیں ہر انسان کے اندر ودیعت کی گئی ہیں ۔ یہ دوسری بات ہے کہ کسی نے کسی صلاحیت سے کام لیا ہے اور بقای سب کو ڈیڈ (Dead) کردیا اور کسی نے دو چار ، چھ سات کو بہر حال انسان جس کوشش میں مصروف ہوجائے اس کو حاصل کرسکتا ہے اور سیکھنے سے سب کچھ سیکھا جاسکتا ہے۔ اسی تکلیف کے باعث وہ مکلف ہے اور یہی وجہ ہے کہ اگر وہ مومن ہے تو اختیار سے ہے اور کافر ہے تو اختیار سے ہے۔ اگر کافر کو کافر پیدا کیا گیا ہوتا اور اسی طرح مومن کو مومن ، تو وہ کبھی جزا اور سزا کا مستحق نہ ہوتا ۔ ہاں ! اللہ تعالیٰ نے اس کو پیدا کیا اور کائنات میں جو کچھ ہے سب کو اس نے پیدا کیا پھر جو صلاحیتیں اس نے انسان میں پیدا کی ہیں وہ صلاحیتیں کسی دوسری مخلوق میں پیدا نہیں کیں ۔ اس کی ہدایت کے سارے سازو سامان پیدا کیے ، حق اور ناحق کی پہچان دی اور پہچان کرانے والوں کا سلسلہ شروع کیا اور اختیار دینے کے بعد اس کو اس آزمائش میں مبتلا کیا اور پھر سامان رزق سب کے لیے برابر ایک ہی نہج پر رکھا ۔ کسی کے معاملہ میں ایک ذرہ برابر فرق نہ پایا اور سب کے کاموں سے وہ اچھی طرح واقف ہے کہ کون کیا کر رہا ہے اور کیا نہیں ۔ پھر ان کے کرنے کے بعد وہ جزا و سزا کا مستحق قرار دیتا ہے۔ غور کرو کہ کیا اس کو اس کا حق نہیں تھا کہ وہ ایسا کرے ؟ بلا شبہ اسے حق تھا اور انسانی فرض ہے کہ وہ حدود میں رہتے ہوئے اپنے اختیار کا جائز استعمال کرے اور ناجائز سے گریز کرے تاکہ وہ آخرت میں بھی اجر پانے کا مستحق ٹھہرے۔
Top