Maarif-ul-Quran - At-Taghaabun : 2
هُوَ الَّذِیْ خَلَقَكُمْ فَمِنْكُمْ كَافِرٌ وَّ مِنْكُمْ مُّؤْمِنٌ١ؕ وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ
هُوَ الَّذِيْ : وہ اللہ وہ ذات ہے خَلَقَكُمْ : جس نے پیدا کیا تم کو فَمِنْكُمْ كَافِرٌ : تو تم میں سے کوئی کافر وَّمِنْكُمْ مُّؤْمِنٌ : اور تم میں سے کوئی مومن ہے وَاللّٰهُ : اور اللہ بِمَا تَعْمَلُوْنَ : ساتھ اس کے جو تم عمل کرتے ہو بَصِيْرٌ : دیکھنے والا ہے
وہی ہے جس نے تم کو بنایا پھر کوئی تم میں منکر ہے اور کوئی تم میں ایمان دار اور اللہ جو تم کرتے ہو دیکھتا ہے
معاوف و مسائل
(آیت) خَلَقَكُمْ فَمِنْكُمْ كَافِرٌ وَّمِنْكُمْ مُّؤْمِنٌ، یعنی اللہ تعالیٰ نے تم کو پیدا کیا پھر تم میں بعض کافر ہوگئے بعض مومن رہے، اس میں لفظ فمنکم کا حرف فا جو تعقیب (یعنی ایک چیز کا دوسرے کے بعد ہونے) پر دلالت کرتا ہے، اس سے معلوم ہوا کہ اول تخلیق و آفرینش میں کوئی کافر نہیں تھا، یہ کافر مومن کی تقسیم بعد میں اس کسب و اختیار کے تابع ہوئی جو اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو بخشا ہے اور اسی کسب و اختیار کی وجہ سے اس پر گناہ وثواب عائد ہوتا ہے، ایک حدیث سے بھی اس مفہوم کی تائید ہوتی ہے جس میں رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے (کل مولود یولد علی الفطرة فابو اہ یھودانہ وینصرانہ الحدیث) ”یعنی ہر پیدا ہونے والا انسان فطرت سلیمہ پر پیدا ہوتا ہے (جس کا تقاضا مومن ہونا ہے) مگر پھر اس کے ماں باپ اس کو یہودی یا نصرانی وغیرہ بنا دیتے ہیں (قرطبی)
دو قومی نظریئے
قرآن حکیم نے اس جگہ انسان کو دو گروہوں میں تقسیم کیا ہے، کافر، مومن جس سے معلوم ہوا کہ اولاد آدم ؑ سب ایک برادری ہے اور دنیا کے پورے انسان اس برادری کے ارفاد ہیں، اس برادری کو قطع کرنے اور ایک الگ گروہ بنانے والی چیز صرف کفر ہے جو شخص کافر ہوگیا، اس نے انسانی برادری کا رشتہ توڑ دیا، اس طرح پوری دنیا میں انسانوں میں تحزب اور گروہ بندی صرف ایمان و کفر کی بنا پر ہو سکتی ہے، رنگ اور زبان، نسب و خاندان، وطن اور ملک میں سے کوئی چیز ایسی نہیں جو انسانی برادری کو مختلف گروہوں میں بانٹ دے، ایک باپ کی اولاد اگر مختلف شہروں میں بسنے لگے یا مختلف زبانیں بولنے لگے یا ان کے رنگ میں تفاوت ہو تو وہ الگ الگ گروہ نہیں ہوجاتے، اختلاف رنگ و زبان اور وطن و ملک کے باوجود یہ سب آپس میں بھائی ہی ہوتے ہیں، کوئی سمجھدار انسان ان کو مختلف گروہ نہیں قرار دے سکتا۔
زمانہ جاہلیت میں نسب اور قبائل کی تفریق کو قومیت اور گروہ بندی کی بنیاد بنادیا گیا، اسی طرح ملک و وطن کی بنیاد پر کچھ گروہ بندی ہونے لگی تو رسول اللہ ﷺ نے ان سب بتوں کو توڑا اور مسلمان خواہ کسی ملک اور کسی خطہ کا ہو کسی رنگ اور خاندان کا ہو، کوئی زبان بولتا ہو، ان سب کو ایک برادری قرار دیا بنص قرآن (آیت) انما المؤ منون اخوة (مومنین سب کے سب آپس میں بھائی بھائی ہیں) اسی طرح کفار کسی ملک و قوم کے ہوں وہ اسلام کی نظر میں ملت واحدہ ہیں یعنی ایک قوم ہیں۔
قرآن کریم کی مذکورة الصدر آیت بھی اس پر شاہد ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کل بنی آدم کو صرف کافر مومن دو گروہوں میں تقسیم فرمایا، اختلاف رنگ و زبان کو قرآن کریم نے اللہ تعالیٰ کی قدرت کا ملہ کی نشانی اور انسانی کے لئے بہت سے معاشی فوائد پر مشتمل ہونے کی بنا پر ایک عظیم نعمت تو قرار دیا ہے مگر اس کو بنی آدمی میں گروہ بندی کا ذریعہ بنانے کی اجازت نہیں دی۔
اور ایمان و کفر کی بنا پر دو قوموں کی تقسیم یہ ایک امر اختیاری پر مبنی ہے، کیونکہ ایمان بھی اختیاری امر ہے اور کفر بھی، اگر کوئی شخص ایک قومیت چھوڑ کر دوسری میں شامل ہونا چاہئے تو بڑی آسانی سے اپنے عقائد بدل کر دوسرے میں شامل ہوسکتا ہے، بخلاف نسب و خاندان، رنگ اور زبان اور ملک و وطن کے کہ کسی انسان کے اختیار میں نہیں کہ اپنا نسب بدل دے یا رنگ بدل دے، زبان اور وطن اگرچہ بدلے جاسکتے ہیں مگر زبان و وطن کی بنیاد پر بننے والی قومیں دوسروں کو عادةً اپنے اندر جذب کرنے پر کبھی آمادہ نہیں ہوتیں خواہ ان کی ہی زبان بولنے لگے اور ان کے وطن میں اباد ہوجائے۔
یہی وہ اسلامی برادری اور ایمانی اخوت تھی جس نے تھوڑے ہی عرصہ میں مشرق و مغرب، جنوب و شمال، کالے گورے، عرب عجم کے بیشمار افراد کو ایک لڑی میں پرو دیا تھا جس کی قوت و طاقت کا مقابلہ دنیا کی قومیں نہ کرسکیں تو انہوں نے پھر ان بتوں کو زندہ کیا جن کو رسول اللہ ﷺ اور اسلام نے پاش پاش کردیا تھا، مسلمانوں کی عظیم ترین ملت واحدہ کو ملک و وطن اور زبان اور رنگ اور نسب اور خاندان کے مختلف ٹکڑوں میں تقسیم کر کے ان کو باہم ٹکرا دیا، اس طرح دشمنان اسلام کی یلغار کے لئے میدان صاف ہوگیا جس کا نتیجہ آنکھیں آج دیکھ رہی ہیں کہ مشرق و مغرب کے مسلمان جو ایک قوم، ایک دل تھے اب چھوٹے چھوٹے گروہوں میں منحصر ہو کر ایک دوسرے سے برسر پیکار ہیں اور ان کے مقابلہ پر کفر کی طاغوتی قوتیں باہمی اختلاف رکھنے کے باوجود مسلمانوں کے مقابلہ میں ملت واحدہ ہی معلوم ہوتی ہیں۔
Top