Tafseer-e-Mazhari - At-Taghaabun : 2
هُوَ الَّذِیْ خَلَقَكُمْ فَمِنْكُمْ كَافِرٌ وَّ مِنْكُمْ مُّؤْمِنٌ١ؕ وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ
هُوَ الَّذِيْ : وہ اللہ وہ ذات ہے خَلَقَكُمْ : جس نے پیدا کیا تم کو فَمِنْكُمْ كَافِرٌ : تو تم میں سے کوئی کافر وَّمِنْكُمْ مُّؤْمِنٌ : اور تم میں سے کوئی مومن ہے وَاللّٰهُ : اور اللہ بِمَا تَعْمَلُوْنَ : ساتھ اس کے جو تم عمل کرتے ہو بَصِيْرٌ : دیکھنے والا ہے
وہی تو ہے جس نے تم کو پیدا کیا پھر کوئی تم میں کافر ہے اور کوئی مومن۔ اور جو کچھ تم کرتے ہو خدا اس کو دیکھتا ہے
ھو الذیی خلقکم .... بصیر . ” وہی ہے جس نے تم کو پیدا کیا ہے (اسکے باوجود) تم میں سے بعض کافر ہیں اور بعض مومن اور اللہ تمہارے سب اعمال کو دیکھ رہا ہے۔ “ ھُوَ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ.... یعنی اللہ نے تم کو پیدا کیا ‘ اس کے بعد تم میں سے کچھ لوگ کافر ہوگئے اور کچھ لوگ مؤمن۔ فَمِنْکُمْ : میں فَ تعقیب پر دلالت کر رہی ہے (یعنی پیدائش کے بعد کچھ لوگوں نے کفر اختیار کیا اور کچھ ایماندار ہوئے) جیسے دوسری آیت میں آیا ہے : وَ اللہ ُ خَلَقَ کُلَّ دَآبَّۃٍ مِّنْ مَّآءٍ فَمِنْھُمْ مَنْ یَّمْشِیْ عَلٰی بَطْنِہٖ وَ مِنْھُمْ مَنْ یَّمْشِیْ عَلٰی رِجْلَیْنِ.... (یعنی پیدا ہونے کے بعد کچھ جانور پیٹ کے بل چلتے ہیں اور کچھ ٹانگوں پر . الخ) وَ اللہ ُ بِمَا تَعمَلُوْنَ : یعنی ایمان اور کفر ‘ فرمانبرداری اور نافرمانی ‘ بہرحال تم جو کچھ کرتے ہو اللہ اسکو دیکھتا ہے ‘ تم کو اسکا بدلہ دیگا۔ معتزلہ نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ ایمان و کفر بتقدیر خداوندی نہیں ‘ نہ اللہ نے ان کو پیدا کیا ‘ بلکہ ان کا خالق خود بندہ ہے۔ یہ استدلال غلط ہے تمام چیزیں ازل میں مقدر ہوچکی ہیں ‘ اللہ نے فرمایا : کُلَّ شَیْ ءٍ خَلَقْنٰہَ بِقَدَرٍ ۔ بندوں کے افعال و اعمال بھی اللہ ہی کے پیدا کردہ ہیں لیکن اس میں کسی قدر بندوں کے اختیار کو دخل ہے اسی لیے بندے کو کا سب کہا جاتا ہے اور اس کے افعال پر ثواب و عذاب مرتب ہے۔ صحابہ اور تابعین وغیرہم کا اسی پر اجماع و اتفاق ہے۔ یہی قول صحیح ہے اس کے خلاف آیات کی تاویل کرنی جائز نہیں ‘ اللہ نے فرمایا ہے : وَ یَتَّبِعْ غَیْرَ سَبِیْلِ الْمُؤْمِنِیْنَ تُوَلِّہٖ مَا تَوَلّٰی وَ نُصْلِہٖ جَھَنَّمَ : (مؤمنوں کے راستہ سے جو ہٹا ‘ اللہ اس کو دوزخ میں ڈال دے گا) ۔ حضرت انس بن مالک راوی ہیں کہ حضور ﷺ نے فرمایا : اللہ نے رحم پر ایک فرشتہ مقرر کردیا ہے۔ فرشہ عرض کرتا ہے : اے رب (اب) نطفہ ہے (اب) بستہ خون کا لوتھڑا ہے (اب) بوٹی ہے (ان مراحل سے گزرنے کے بعد) جب اللہ اس کو پیدا کرنا چاہتا ہے تو فرشتہ عرض کرتا ہے : اے رب ! کیا یہ نر ہے یا مادہ ‘ نیک بخت ہے یا بدبخت ‘ اس کا رزق کیا ہے ‘ اس کی مدت زندگی کیا ہے ؟ یہ سب کچھ ماں کے پیٹ میں ہی لکھ دیا جاتا ہے۔ (رواہ البخاری) صحیحین میں حضرت ابن مسعود کی مرفوع روایت بھی اسی طرح آئی ہے جس کے آخر میں اتنا اور بھی ہے کہ قسم ہے اس کی جس کے سوا کوئی معبود نہیں کہ تم میں سے بعض لوگ اہل جنت جیسے عمل (ساری عمر) کرتے رہتے ہیں ‘ یہاں تک کہ ان کے اور جنت کے درمیان صرف ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے کہ لکھا ہوا آگے آتا ہے اور وہ جہنم میں چلے جاتے ہیں۔ مسلم نے حضرت عبداللہ بن عمرو کی مرفوع حدیث بیان کی ہے کہ اللہ نے آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے سے پچاس ہزار برس پہلے مخلوق کی تقدیریں لکھ دی ہیں اور اس وقت اس کا عرش پانی پر تھا۔ اس مضمون کی حدیثیں بکثرت آئی ہیں۔ اس آیت کی : تفسیر میں حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : اللہ نے آدمیوں کو مؤمن اور کافر پیدا کیا ہے پھر جیسا پیدا کیا ہے ویسا ہی مومن و کافر (دنیوی زندگی میں) ان کو کردیتا ہے یعنی بعض آدمیوں کے لیے کفر مقدر کردیا ‘ بعض کے لیے ایمان ‘ جن کے لیے تقدیر کفر کی جاتی ہے ان کا رخ انہی اعمال کی طرف کردیتا ہے جو کفر پر آمادہ کرنے والے ہوتے ہیں اور جن کے لیے ایمان مقدر کیا جاتا ہے ان کو انہی اعمال کی توفیق دیتا ہے جو ایمان کی طرف بلاتے ہیں۔ بغوی نے حضرت ابن عباس کی وساطت سے حضرت ابی بن کعب کی روایت بیان کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : خضر ( علیہ السلام) نے جس لڑکے کو قتل کیا تھا اس کی سرشت ہی کفر پر تھی۔ اللہ نے (حضرت نوح کی بددعا نقل کی ہے اور) فرمایا : وَلَا یِلِدُوْا الاَّ فَاجِرًا کَفَّارًا : (یہ کافر ایسے ہی بچے پیدا کریں گے جو بدکار ‘ کافر ہوں گے) ۔
Top