Tafseer-e-Jalalain - At-Taghaabun : 2
هُوَ الَّذِیْ خَلَقَكُمْ فَمِنْكُمْ كَافِرٌ وَّ مِنْكُمْ مُّؤْمِنٌ١ؕ وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ
هُوَ الَّذِيْ : وہ اللہ وہ ذات ہے خَلَقَكُمْ : جس نے پیدا کیا تم کو فَمِنْكُمْ كَافِرٌ : تو تم میں سے کوئی کافر وَّمِنْكُمْ مُّؤْمِنٌ : اور تم میں سے کوئی مومن ہے وَاللّٰهُ : اور اللہ بِمَا تَعْمَلُوْنَ : ساتھ اس کے جو تم عمل کرتے ہو بَصِيْرٌ : دیکھنے والا ہے
وہی تو ہے جس نے تم کو پیدا کیا پھر کوئی تم میں کافر ہے اور کوئی مومن۔ اور جو کچھ تم کرتے ہو خدا اسکو دیکھتا ہے۔
ھوالذی خلقکم فمنکم کافر و منکم مومن انسان کے لئے خیر و شر، نیکی و بدی اور کفر و ایمان کے راستوں کی وضاحت کے بعد اللہ نے انسان کو ارادہ و اختیار کی جو آزادی بخشی ہے اسی کی رو سے کسی نے کفر کا اور کسی نے ایمان کا راستہ اپنایا ہے اس نے کسی پر جبر نہیں کیا، اگر وہ جبر کرتا تو کوئی شخص بھی کفر و معصیت کا راستہ اختیار کرنے پر قادر نہ ہوتا، لیکن اس طرح انسان کی آزمائش ممکن نہیں تھی، جب کہ اللہ تعالیٰ کی مشیئت انسان کو آزمانا تھا ” الذی خلق الموت و الحیوۃ لیبلوکم ایکم احسن عملاً ! ؟ “ (سورۃ الملک) لہٰذا جس طرح کافر کا خالق اللہ ہے، کفر کا خالق بھی اللہ ہے لیکن یہ کفر اس کافر کا عمل و کسب ہے، جس نے اسے اپنے ارادے سے اختیار کیا ہے، اسی طرح مومن اور مومن کے ایمان کا خالق بھی اللہ ہی ہے لیکن ایمان اس مومن کا کسب و عمل ہے جس نے اسے اختیار کیا ہے اور اس کسب و عمل پر دونوں کو ان کے عملوں کے مطابق جزا و سزا ملے گی کیونکہ وہ سب کے عمل کو دیکھ رہا ہے۔ انسانوں کی صرف دو ہی قسمیں ہیں : قرآن حکیم نے انسانوں کو دو گروہوں میں تقسیم کیا ہے، کافر اور مومن، جس سے معلوم ہوا کہ اولاد آدم سب ایک برادری ہے اور دنیا کے پورے انسان اس برادری کیا فراد ہیں، اس برادری کو دو گروہوں میں تقسیم کرنے والی چیز صرف کفر ہے جو شخص کافر ہوگیا اس نے انسانی برادری کا رشتہ توڑ دیا، اس طرح پوری دنیا میں انسانوں میں تحزب اور گروہ بندی صرف ایمان و کفر کی بنا پر ہوسکتی ہے، رنگ اور زبان، نسب و خاندان، وطن اور ملک میں سے کوئی چیز ایسی نہیں کہ جو انسانی برادری کو مختلف گروہوں میں بانٹ دے، ایک باپ کی اولاد اگر مختلف شہروں اور علاقوں میں بسنے لگے یا مختلف زبانیں بولنے لگے یا ان کے رنگ میں تفاوت ہو تو وہ الگ الگ گروہ نہیں ہوجاتے، اختلاف رنگ و زبان وطن و ملک کے باوجود یہ سب آپس میں بھائی ہی ہوتے ہیں، کوئی سمجھدار انسان ان کو مختلف گروہ قرار نہیں دے سکتا۔ (معارف) بدبودار نعرہ : ایک مرتبہ پانی کے معاملہ میں ایک انصاری اور مہاجر کے درمیان جھگڑا ہوگیا، نوبت زبانی تکرار سے بڑھ کر، ہا تھا پائی تک پہنچ گئی انصاری نے انصار کو اور مہاجر نے مہاجرین کو مدد کے لئے پکارا، دونوں طرف سے لوگ جمع ہوگئے مسلمانوں میں فتنہ برپا ہونے کا خطرہ پیدا ہوگیا، جب آپ ﷺ کو اس کی اطلاع ہوئی تو آپ ﷺ موقع پر تشریف لے گئے اور سخت ناراضی کے ساتھ فرمایا ” ما بال دعوی الجاھلیۃ “ یہ جاہلیت کا نعرہ ہے ؟ اور آپ ﷺ نے فرمایا ” دعوھا فانھا منتنۃ “ اس نعرہ کو چھوڑ دو یہ بدبودار ہے۔
Top