Fi-Zilal-al-Quran - Al-A'raaf : 60
قَالَ الْمَلَاُ مِنْ قَوْمِهٖۤ اِنَّا لَنَرٰىكَ فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ
قَالَ : بولے الْمَلَاُ : سردار مِنْ : سے قَوْمِهٖٓ : اس کی قوم اِنَّا : بیشک ہم لَنَرٰكَ : البتہ تجھے دیکھتے ہیں فِيْ : میں ضَلٰلٍ : گمراہی مُّبِيْنٍ : کھلی
اس کی قوم کے سرداروں نے جواب دیا :” ہم کو تو یہ نظر آتا ہے کہ تم صریحر گمراہی مبتلا ہو ۔
آیت ” قَالَ الْمَلأُ مِن قَوْمِہِ إِنَّا لَنَرَاکَ فِیْ ضَلاَلٍ مُّبِیْنٍ (60) ” قوم کے سرداروں نے جواب دیا : ” ہم کو یہ نظر آتا ہے کہ تم صریح گمراہی میں مبتلا ہو۔ “ یہی بات مشرکین عرب نے حضور ﷺ کے بارے میں کہی تھی ۔ انہ صباء ” یہ کہ آپ بےدین ہوگئے ہیں۔ “ اور آپ نے دین ابراہیم سے روگردانی اختیار کرلی ہے ۔ جب کوئی شخص گمراہی کی حدیں پار کرلیتا ہے تو وہ ان لوگوں کو گمراہ سمجھتا ہے جو اسے راہ ہدایت کی طرف بلاتے ہیں اور جب کسی کی فطرت مسخ ہوجاتی ہے تو وہ بھی خود سری کے اس مقام تک جا پہنچتا ہے ۔ یوں اقدار بدل جاتی ہے اور حق و باطل کے پرکھنے کا معیار بدل جاتا ہے ۔ انسان نفسانی خواہشات کے تابع ہوجاتا ہے ۔ الا یہ کہ انسان اللہ کی اقدار اور پیمانوں کو نہیں اپنا لیتا اس لئے کہ یہ اقدار اور پیمانے غیر متبدل ہوتے ہیں اور ان کے اندر کبھی انحراف نہیں ہوتا ۔ جو لوگ آج کے دور میں ہدایات اللہ سے لیتے ہیں ان کو دور جدید کی جاہلیت گمراہ کہتی ہے اور جو محض جاہلیت جدید سے ہدایت اخذ کرے ‘ مغربی تہذیب کے گندے نالے میں گر جائے اور اس کریہہ ماحول میں اتر ائے اسے وہ ہدایت یافتہ اور ترقی یافتہ کہتے ہیں ۔ آج جو عورت اپنے گوشت کو ننگا نہیں کرتی ‘ اپنے جسم کو عریاں نہیں کرتی ‘ اور جو اس پست حالت کو قبول نہیں کرتی اس کے بارے میں جدید جاہلیت کیا کہتی ہے ؟ یہ دنیا جدید دور کی اس پاک وصاف اور صالح عورت کو رجعت پسند کہتی ہے اسے پسماندگی اور دیہاتی پن کا طعنہ دیا جاتا ہے اور جاہلیت جدید نے اپنے پورے ذرائع ابلاغ اور میڈیا کو اس مقصد کے لئے مصروف کر رکھا ہے کہ وہ ہماری عورت کی اس پاکیزگی نظافت اور سربلندی کو ختم کرکے اسے جنسیت کے اس گندے تالاب میں گرا دے جو نہایت ہی کریہہ المنظر ہے ۔ جن لوگوں کو ترجیحات کھیل کود سے بلند ہیں ‘ جو فلموں ‘ سینماؤں اور ٹیلی ویژن کے جنون سے سربلند ہیں اور جو لوگ رقص و سرود اور جام وسبو کی فحاشیوں اور عیاشیوں سے اپنے آپ کو دور رکھنا چاہتے ہیں ‘ یہ جاہلیت ان کے بارے میں کیا کہتی ہے ؟ یہ کہتی ہے کہ یہ لوگ جامد اور کوڑ مغز ہیں ‘ اپنے آپ کو گم ‘ غیر مہذب اور غیر تعلیم یافتہ ہیں ۔ یہ جاہلیت ہر وقت اسی کام میں لگی ہوئی ہے کہ وہ تمام لوگوں کو اس گندگی میں ڈال دے اور لوگ سب کے سب عیاشی اور فحاشی میں زندگی بسر کریں ۔ غرض جاہلیت ہر دور میں جاہلیت ہوتی ہے وہ اشکال وظروف تو بدلتی ہے مگر اس کی ماہیت وہی رہتی ہے ۔ حضرت نوح (علیہ السلام) ان کو یقین دلاتے ہیں کہ وہ گمراہ نہیں ہیں ۔ وہ ان کے سامنے اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ ان کی دعوت کیا ہے اور اس دعوت کا سرچشمہ کیا ہے ؟ یہ کہ انہوں نے اپنی سوچ اور فکر سے اس دعوت کو نہیں شروع کیا نہ انکی شروع کیا نہ ان کی یہ ذاتی خواہش ہے ۔ وہ تو رب العالمین کے رسول ہیں اور حامل رسالت ہیں۔ وہ نہایت ہی امانت و دیانت سے اللہ کی دی ہوئی ہدایات کے مطابق نصیحت کرتے ہیں اور وہ جو تعلیمات دیتے ہیں وہ بھی رب العالمین کی طرف سے ہیں ۔ یہ تعلیمات ان کے قلب پر اترتی ہیں اور یہ کہ ان کا رب العالمین کے ساتھ مسلسل رابطہ ہے جبکہ تم لوگ اللہ کے ساتھ رابطہ نہیں رکھتے ۔
Top