Taiseer-ul-Quran - Al-A'raaf : 60
قَالَ الْمَلَاُ مِنْ قَوْمِهٖۤ اِنَّا لَنَرٰىكَ فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ
قَالَ : بولے الْمَلَاُ : سردار مِنْ : سے قَوْمِهٖٓ : اس کی قوم اِنَّا : بیشک ہم لَنَرٰكَ : البتہ تجھے دیکھتے ہیں فِيْ : میں ضَلٰلٍ : گمراہی مُّبِيْنٍ : کھلی
اس کی قوم کے سرداروں 64 نے کہا : ہم تو تجھے ہی صریح گمراہی میں دیکھتے ہیں
64 سرداروں کی مخالفت کی وجوہ :۔ انبیاء (علیہ السلام) کی دعوت کی مخالفت میں عموماً سرداران قوم ہی پیش پیش ہوا کرتے ہیں اس کی بڑی وجہ تو یہ ہوتی ہے کہ اگر وہ نبی کی دعوت قبول کرلیں تو انہیں ان مناصب یا اس مقام سے دستبردار ہونا پڑتا ہے جو معاشرے میں انہیں حاصل ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں جب نبی یہ دعوت دیتا ہے کہ اللہ کے سوا تمہارا کوئی کار ساز حاجت روا اور مشکل کشا نہیں تو اس سے از خود ان کے بتوں کی توہین ہوجاتی ہے اور اس کے ساتھ ان کی اپنی عقلوں اور آباؤ اجداد کی عقلوں کی بھی توہین ہوجاتی ہے۔ لہذا یہ سردار قسم کے لوگ انبیاء (علیہ السلام) کی دعوت پر فوراً بھڑک اٹھتے ہیں اور یہی وہ طبقہ ہوتا ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا آیت (لَا يَخْرُجُ اِلَّا نَكِدًا 58؀ ) 7 ۔ الاعراف :58) اس طرح ان کا خبث باطن کھل کر سامنے آجاتا ہے پھر صرف یہی نہیں کہ یہ لوگ خود دعوت قبول نہیں کرتے بلکہ عام طبقہ کو بھی اس راہ سے روکتے اور قبول دعوت پر طرح طرح کی پابندیاں لگا دیتے ہیں اور ایسے لوگوں نے جو سیدنا نوح (علیہ السلام) کو جواب دیا تو ان کا استدلال یہ تھا کہ اپنے باپ دادا کے دین کو چھوڑ دینے اور کوئی اور دین اختیار کرنے سے بڑی گمراہی اور کیا ہوسکتی ہے ؟ لہذا صریح گمراہی میں ہم نہیں بلکہ تم ہو۔
Top