Tafseer-e-Haqqani - An-Nisaa : 133
اِنَّمَا جَزٰٓؤُا الَّذِیْنَ یُحَارِبُوْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ وَ یَسْعَوْنَ فِی الْاَرْضِ فَسَادًا اَنْ یُّقَتَّلُوْۤا اَوْ یُصَلَّبُوْۤا اَوْ تُقَطَّعَ اَیْدِیْهِمْ وَ اَرْجُلُهُمْ مِّنْ خِلَافٍ اَوْ یُنْفَوْا مِنَ الْاَرْضِ١ؕ ذٰلِكَ لَهُمْ خِزْیٌ فِی الدُّنْیَا وَ لَهُمْ فِی الْاٰخِرَةِ عَذَابٌ عَظِیْمٌۙ
اِنَّمَا : یہی جَزٰٓؤُا : سزا الَّذِيْنَ : جو لوگ يُحَارِبُوْنَ : جنگ کرتے ہیں اللّٰهَ : اللہ وَرَسُوْلَهٗ : اور اس کا رسول وَ : اور يَسْعَوْنَ : سعی کرتے ہیں فِي الْاَرْضِ : زمین (ملک) میں فَسَادًا : فساد کرنے اَنْ يُّقَتَّلُوْٓا : کہ وہ قتل کیے جائیں اَوْ : یا يُصَلَّبُوْٓا : وہ سولی دئیے جائیں اَوْ : یا تُقَطَّعَ : کاٹے جائیں اَيْدِيْهِمْ : ان کے ہاتھ وَاَرْجُلُهُمْ : اور ان کے پاؤں مِّنْ : سے خِلَافٍ : ایکدوسرے کے مخالف سے اَوْ يُنْفَوْا : یا، ملک بدر کردئیے جائیں مِنَ الْاَرْضِ : ملک سے ذٰلِكَ : یہ لَهُمْ : ان کے لیے خِزْيٌ : رسوائی فِي الدُّنْيَا : دنیا میں وَلَهُمْ : اور ان کے لیے فِي الْاٰخِرَةِ : آخرت میں عَذَابٌ : عذاب عَظِيْمٌ : بڑا
جو لوگ اللہ اور اس کے رسول سے لڑائی کرتے اور زمین میں فساد مچاتے پھرتے ہیں (سو) ان کی یہی سزا ہے کہ ان کو قتل کیا جاوے یا سولی دی جائے یا ان کے ہاتھ اور پائوں ادھر ادھر سے کاٹ دیے جائیں یا ملک سے نکال دیے جائیں۔ یہ تو ان کی دنیا میں رسوائی ہے اور آخرت میں تو ان کو بڑا (ہی سخت) عذاب ہے
ترکیب : جزا مضاف الذین مضاف الیہ یحاربون اللہ معطوف علیہ و یسعون معطوف الذین کا صلہ جملہ مبتدا ان یقتلوا مع اس کے عواطف کے مجموعہ خبر ذلک مبتداء لہم خزی جملہ خبر۔ تفسیر : پہلی آیت میں قتل ناحق کی سخت مذمت تھی۔ اب اس آیت میں اس قتل کی سزا بیان فرمائی جاتی ہے اور نیز یہ کہ کونسا جرم کس سزا کو چاہتا ہے ؟ جمہور کے نزدیک یہ آیت عرینیوں 1 ؎ کے حق میں نازل ہوئی جو کہ مرتد ہو کر قتل اور ڈاکے کے مرتکب ہوئے تھے۔ پھر وہ گرفتار کرکے لائے گئے اور ان کے ہاتھ پائوں کاٹ کر ان کی آنکھوں میں گرم سلائیاں پھیر کر ان کو دھوپ میں ڈال دیا گیا وہیں تڑپ کر مرگئے۔ اس فعل کی ممانعت کے لئے یہ آیت نازل ہوئی جس میں حد مقرر کردی گئی۔ امام مالک اور ابوحنیفہ اور شافعی اور ابو ثور اور دیگر مجتہدین (رح) فرماتے ہیں کہ یہ آیت ان اہل اسلام کے حق میں ہے جو بادشاہ اسلام سے باغی ہو کر راہزنی اور فساد کرنے لگیں۔ بقرینہ الا الذین تابوا۔ اپنی تفسیر میں علامہ قرطبی فرماتے ہیں کہ گو یہ آیت کسی کے حق میں نازل ہو مگر عموم الفاظ کا لحاظ کیا جاوے گا۔ خصوصی سب کو نہ دیکھا جاوے گا۔ اس لئے ہر ایک ڈاکو اور راہزن پر یہ حکم جاری ہوگا۔ خواہ وہ مسلمان ہو خواہ کافر۔ اس میں کسی کا بھی خلاف نہیں۔ الذین یحاربون اللّٰہ خدا سے لڑائی کرنا اس مقام پر بقول ابن عباس ؓ و سعید بن المسیب و مجاہد و عطا و حسن بصری و ابراہیم نخعی وغیرہم (رح) شاہ اسلام کے مقابلہ میں ہتھیار اٹھانا اور مسافروں کو چھیڑنا لوٹنا مارنا ہے نہ کہ چوری اور زنا وغیرہ معاصی کے لئے کہ ان جرائم کی اور سزا مقرر ہے۔ پس جو شخص جمعیت بہم پہنچا کر ایسا کرے خواہ شہر میں رہ کر خواہ جنگل میں رہ کر (مگر امام ابوحنیفہ (رح) فرماتے ہیں کہ یہ سزا ان شخصوں کے لئے ہے جو شہروں میں نہ ہوں کیونکہ شہر میں رہنے والے پر حکومت ہر وقت قابو پا سکتی ہے وہ بمنزلہ چور کے ہے) شاہ اسلام کو بقول ابن عباس ؓ و مجاہد و علی بن ابی طلحہ و حسن بصری وغیرہم (رح) قابو پا کر اختیار ہے خواہ قتل کر ڈالے خواہ دار پر کھینچے خواہ جانب مخالف سے ہاتھ پائوں کاٹ کر چھوڑ دے خواہ جلاوطن کردے۔ اس کو اختیار ہے۔ ان چاروں سزائوں میں سے جو چاہے دے کیونکہ کلمہ او تخییر کے لئے ہے مگر جمہور کے نزدیک او تخییر کے لئے نہیں بلکہ یہ سزائیں جرائم پر منقسم ہیں۔ اگر وہ صرف قتل کے مرتکب ہوئے ہیں تو ان کو صرف قتل کرنا چاہیے اور اگر قتل کے ساتھ مال بھی لوٹا 1 ؎ بنی عرینہ عرب ایک قوم ہے۔ ان میں سے مدینہ میں آکر چند لوگ مسلمان ہوئے۔ چونکہ مرض استسقاء میں مبتلا تھے۔ آپ نے ان کو جہاں بیت المال کے اونٹ چرتے تھے بھیج دیا کہ وہاں تندرست ہوجائیں۔ جب تندرست ہوئے تو نیت میں فرق آیا۔ اونٹوں کے چرانے والوں کو قتل کرکے اونٹ لے کر چل دیے۔ مدینہ میں خبر ہوئی تو وہ گرفتار کرکے لائے گئے۔ ان کے لئے یہ سزا دی گئی تھی جس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ 12 منہ ہے تو قتل کرکے عبرت کے لئے سولی پر بھی لٹکا دیا جائے۔ اس صورت میں ہاتھ پائوں کاٹ کر پھر قتل کیا جاوے اور سولی پر بھی تشہیر کے لئے لٹکا دیا جائے اور اگر صرف مال لوٹا ہے تو ایک طرف کا ہاتھ اور دوسری طرف کا پائوں کاٹ کر چھوڑ دیا جائے اور اگر صرف لوگوں کو خوف ہی دلایا ہے تو نفی کی جاوے یعنی اس کو قید کیا جاوے۔ شافعی (رح) فرماتے ہیں اس کے معنی جلاوطن کے ہیں یعنی جلاوطن کردیا جاوے الا الذین تابوا من قبل الخ یعنی اگر وہ لوگ گرفتار ہونے سے پہلے اس فعلِ بد سے توبہ کرلیں تو ان سے یہ حد ساقط ہوجائے گی ہاں حقوق عباد خواہ مالی ہوں خواہ جانی اس کا عوض عدالت ان سے ضرور لوگوں کو دلائے گی۔ وہذا ہوالقوی۔
Top