بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Tafseer-e-Haqqani - At-Taghaabun : 1
یُسَبِّحُ لِلّٰهِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ١ۚ لَهُ الْمُلْكُ وَ لَهُ الْحَمْدُ١٘ وَ هُوَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ
يُسَبِّحُ لِلّٰهِ : تسبیح کررہی ہے اللہ کے لیے مَا فِي السَّمٰوٰتِ : جو کچھ آسمانوں میں ہے وَمَا فِي الْاَرْضِ : اور جو کچھ زمین میں ہے لَهُ : اسی کے لیے الْمُلْكُ : بادشاہت وَلَهُ الْحَمْدُ : اور اسی کے لیے ہے تعریف وَهُوَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ : اور وہ ہرچیز پر قَدِيْرٌ : قدرت رکھنے والا ہے
آسمانوں اور زمین والے سب اللہ کی تقدیس کرتے رہتے ہیں۔ اسی کی بادشاہی ہے اور اسی کی تعریف ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔
ترکیب : وھو الجملۃ معطوفۃ علی ماقبلھا۔ ویمکن تکون حالامن الضمیر فی لہ فمنکم خبرمقدم کافر مبتداء اوالجملۃ تشریح و تفصیل للخلق ومنکم مومن الجملۃ معطوفۃ علی الجملۃ السابقۃ واللہ مبتداء بصیر خبرہ بماتعلمون متعلق بہ بالحق حال من فاعل خلق اے خلق متلبسًا بالحق بشر مبتداء یھدوننا خبرہ۔ تفسیر : یہ سورة بھی اکثر کے نزدیک مدینے میں نازل ہوئی ہے۔ چناچہ ضحاک یہی کہتے ہیں۔ ابن عباس اور ابن زبیر ؓ بھی یہی فرماتے ہیں مگر کلبی کہتے ہیں کہ سورة کچھ مکہ میں کچھ مدینے میں نازل ہوئی یعنی اخیر کی چند آیات یا ایہا الذین آمنوا ان من ازواجکم و اولادکم عدوالکم فاحذروھم مدینے میں نازل ہوئیں جبکہ عوف بن مالک اشجعی ؓ نے اپنی اولاد اور بیوی کی بدسلوکی اور زیادتی آنحضرت ﷺ سے بیان کی تھی۔ عطاء بن یسار بھی ایسا ہی کہتے ہیں۔ بخاری (رح) نے اپنی تاریخ میں اور ابن حبان نے ضعفاء میں اور طبرانی و ابن مردویہ وابن عساکر نے روایت کی ہے کہ ہر بچہ جو پیدا ہوتا ہے اس کی پیشانی پر اس سورة کی پانچ آیتیں 1 ؎ اول کی لکھی ہوئی ہوتی ہیں۔ ابن کثیر فرماتے ہیں یہ روایت صحیح نہیں۔ مناسبت اس سورة کو اول سورة منافقون سے یہ ہے کہ اس میں منافقوں کی مذمت تھی اس میں صادقون کی مدح و خوبی ہے اور یہ بھی ہے کہ اس سورة کی اخیر میں یہ تھا کہ تمہارے مال و اولاد تمہیں یادالٰہی سے غافل نہ کریں جو سراسر خسران ہے اور موت کا ہر وقت کھٹکا ہے پھر اس وقت مہلت نیکی کرنے کی نہیں ملے گی۔ اس مضمون پُر ہدایت کی اس سورة میں تاکید فرماتا ہے کہ ان کی یاد کچھ تم پر موقوف نہیں بلکہ یسبح للہ مافی السمٰوات ومافی الارض کہ آسمان و زمین کے رہنے والے اس کی ہر وقت تسبیح و تقدیس کیا کرتے ہیں اور وہ اسی کے لائق بھی ہے (ا) اس لیے کہ لہ الملک ولہ الحمد۔ بادشاہت اور ستائش اسی کو ہے بادشاہت حقیقی کے تو کیا کہنے ہیں۔ مجازی پادشاہت جس کو حاصل ہوتی ہے سب اسی کی طرف جھکتے ہیں اسی کا ذکر خیر کرتے ہیں۔ ہر ایک رعیت اسی کی طرف دوڑتی ہے۔ پھر جبکہ بادشاہ میں صفات حمیدہ بھی ہوں (جن کی طرف لہ الحمد میں اشارہ ہے کس لیے کہ حمد کسی نہ کسی ذاتی یا صفاتی خوبی پر ہوا کرتی ہے اور اسی لیے اس جملہ کو بعد میں ذکر کیا) تو اور بھی مرغوب و محمود ہوتا ہے چہ جائیکہ بادشاہ حقیقی اور اس میں تمام خوبیاں بھی ہوں۔ غصہ کا دھیما جواد کریم آنکھوں میں بےانتہا مروت جب کوئی سامنے جا کر عذر آور ہو معاف کر دے اور پھر (2) وھوعلی کل شیء قدیر۔ ہر چیز پر قادر بھی ہو بھلا کرنے پر بھی مضرت پہنچانے پر بھی جیسا کہ وہ صاحب نعمت وجود ہے ویسا ہی صاحب ہیبت و جبروت بھی ہے۔ ہر بادشاہ ہر بات پر قادر نہیں ہوتا لیکن وہ ہر بات پر قادر ہے اس لیے اور بھی ہر ایک مخلوق اسی کی تسبیح و تہلیل کر رہی ہے غیرذوی العقول کی صرف حالت امکانیہ و صورت احتیاجیہ ہی زبان حال سے پکار پکار کہہ رہی ہے سبوح قدوس لک الملک ولک الحمد۔ اور ذوی العقول میں سے ایماندار تو زبان سے بھی ثناخواں ہیں خصوصاً ملائکہ جو بڑی جاں نثار رعیت ہے ہمہ وقت اسی میں رہتے ہیں۔ پھر اے انسان ! تو کیوں غافل اور مہلت چند روزہ میں دنیاوی لذات و شہوات میں شاغل ہے۔ اس کے بعد پھر حضرت انسان کی طرف خطاب کر کے اپنے انعام و افضال سابقہ ولاحقہ یاد دلا کر تسبیح و تقدیس پر آمادہ کرتا ہے (اور نبوت کا یہ فرض منصبی ہے) فقال ھوالذی خلقکم کہ اللہ جس کی ہمہ وقت تسبیح و تقدیس آسمانوں اور زمین میں ہو رہی ہے وہ ہے کہ جس نے تم کو بھی پیدا کیا اس لیے وہ لائق ہے کہ تم بھی اسی کی تسبیح کرو مگر تمہاری یہ حالت ہے فمنکم کافرومنکم مومن کہ تم میں سے کافروناشکر ہیں نہ اللہ کو جانتے ہیں نہ مانتے ہیں تسبیح و تقدیس کیسی بجائے اس کے غیرمعبودوں کی طرف رجوع ہیں اور بعض مومن ہیں اسی کی پرستش کرتے ہیں، اسی کو مانتے ہیں۔ اس دنیا میں جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس کو دیکھ رہا ہے ضرور سزاء وجزا دے گا۔ واللہ بماتعملون بصیر۔ بندہ کاسب ہے نہ کہ خالق : اہل سنت کے نزدیک بندہ اور اس کے جملہ افعال و کفر و ایمان ‘ نیکی بدی اللہ کے مخلوق ہیں۔ بدلیل قولہ تعالیٰ واللہ خلقکم وماتعملون چونکہ بندہ کاسب ہے اس لیے اس کے اعمال کی جزاء و سزا اس کو ملتی ہے اور کا سب و خالق میں فرق ہے۔ معتزلہ کہتے ہیں خدائے پاک کفروغیر قبائح کا خالق نہیں کیونکہ یہ اس کی تقدیس میں فرق ڈالتا ہے اس لیے اس آیت کو معتزلہ نے یوں بیان کیا کہ اللہ نے تم کو پیدا کیا، بعد میں ازخود کچھ کافر کچھ مومن ہوگئے۔ سنی مفسروں نے کہا نہیں بلکہ اس کے یہ معنی کہ اللہ نے تم کو پیدا کیا، پھر کیونکر پیدا کیا کہ کچھ کافر پیدا کئے کچھ مومن۔ اس آیت کے معنی عطاء و حسین بن فضیل وغیرہ کے نزدیک یہی ہیں کہ تم میں سے کچھ کافر کچھ مومن بن گئے۔ اور یہی سیاق کلام کے مناسب ہے۔ اہل سنت کا استدلال کچھ اس پر موقوف نہیں۔ ا ؎ پیشانی پر ان آیتوں کے لکھے ہونے سے یہ مراد نہیں کہ سیاہی اور قلم سے نسخ خط میں لکھی ہوئی ہوتی ہیں بلکہ یہ مراد کہ ہر بچہ ہنوز زنگ جہالت و بت پرستی سے عاری ہوتا ہے۔ اب تک اس کی وہی اصل فطرت ہوتی ہے اس کا چہرہ بزمان حال کہہ رہا ہے کہ آسمانوں اور زمین والے اسی کی تسبیح و تقدیس کرتے ہیں الخ الغرض یہ ایک استعارہ ہے اس کی حالت اصلیہ سے جس کو بلفظ کتابت تعبیر کیا ہے۔ سبحان اللہ کیا راز حقیقت رسول کریم ﷺ نے بیان فرمایا ہے۔ پھر فرماتا ہے کہ کچھ تمہیں کو پیدا نہیں کیا بلکہ خلق السمٰوات والارض۔ آسمانوں اور زمین کو بھی اسی نے پیدا کیا۔ یہ نہیں کہ حرکات فلکیہ اور کواکب کی تاثیرات سے حوادث ظہور کرتے ہیں اور اچھی بری صورتیں بھی تاثیرات فلکیہ سے ہوتی ہیں حتٰی کہ سعادت و نحوست بھی انہیں سے ہے جیسا کہ بہت حکماء اور عرب و یونان و ہند وغیرہ لوگوں کا خیال تھا ان کا رد کرتا ہے۔ وصور کم فاحسن صورکم کہ تمہاری صورتیں بھی اسی کے یدقدرت نے بنائیں۔ پھر دیکھو کیا عمدہ نقشہ کھینچا، ناک کی جگہ کان اور منہ کی جگہ شانے ہوتے تو کیا ہی بدنما معلوم ہوتا۔ یہ اور بات ہے کہ انسانوں میں بھی تفاوت ہے، کوئی خوبصورت، کوئی اس کے لحاظ سے بدصورت 1 ؎ مگر بدصورت بھی مناسبت و اعتدال فطری کے لحاظ سے خوبصورت ہے۔ اس کی شکل کو طبعی مناسبت و اعتدال کے خلاف تصور کر کے دیکھو تو کیسا برا معلوم ہوگا۔ پھر فرماتا ہے کہ پیدا کر کے آزاد نہیں کرد یا کہ آیندہ اس سے کوئی سروکار نہیں رہا بلکہ والیہ المصیر اسی کی طرف پھر کر جانا ہے۔ دنیا میں بھی جب اسباب منقطع ہوجاتے ہیں بندہ اسی کی طرف پھر کرجاتا ہے۔ پھر وہی سوجھتا ہے اس کے بعد اپنے وصف علم کا ثبوت کرتا ہے۔ فقال یعلم ما فی السمٰوات الخ کہ آسمانوں اور زمین کی اور تمہارے دل کی مخفی باتیں جانتا ہے۔ اس میں تنبیہ ہے منافقوں پر کہ دل میں کفرونفاق رکھ کر خدا سے کہاں چھپاؤ گے ؟ یہ تمام امور اس بات کی دلیل ہیں کہ وہی تسبیح و تقدیس کے لائق ہے اور جو کوئی احسان فراموشی کر کے خدا تعالیٰ سے سرکشی کرتا ہے تو وہ دنیا میں بھی گردن مروڑ دیتا ہے اس لیے پہلے برباد شدہ قوموں کے حالات کی طرف اجمالاً اشارہ فرماتا ہے۔ الم یاتکم الخ کہ تمہیں پہلے لوگوں کی خبر نہیں معلوم ہوئی کہ دنیا میں بھی انہوں نے اپنے کردار کا مزہ چکھا اور آخرت میں عذاب الیم کے حوالے ہوئے اور یہ کیوں ہوا کہ اس لیے ان کے پاس رسول نشانیاں اور معجزے لے کر آئے تو وہ منکر ہوگئے اور کہنے لگے کہ یہ بھی آدمی ہم بھی ان میں کیا فوقیت ہے جو یہ ہم کو ہدایت کرنے آئے ہیں (یعنی رسول بشر نہیں ہونا چاہیے مگر خدا حجر ہوجائے تو مضائقہ نہیں) منہ موڑ لیا اور نخوت وتکبر سے بےپروائی کی پھر تو اللہ نے ان سے بےپروائی کی۔ چاہتا تو ان کو راہ راست پر لاتا ‘ ان کے دلوں کو روشن کرتا مگر متکبر سے وہ بھی متکبرانہ پیش آیا کرتا ہے اور اس کو خاک میں جلد ملایا کرتا ہے اسے کسی کی کچھ پروا بھی نہیں۔ 2 ؎ 1 ؎ آیات میں الفاظ کی ترتیب و تقدیم و تاخیر میں جو کچھ اسرار ہیں ان کے بیان کے لیے دفتر چاہیے اور کس خوبی کے ساتھ مسئلہ توحید اور اثبات ذات وصفات علیم بذات الصدور تک بیان فرمایا ہے اور الم یاتکم الخ سے مسئلہ نبوت شروع کیا متکبرین نبوت کا شبہ اور ان کی سرتابی اور اس کا انجام بد بھی نہایت پر اثر الفاظ میں کس اختصار کے ساتھ بیان فرمایا اور بندہ کو عبادت و خلوص اور نیک رائی پر الیہ البصر وعلیم بذات الصدور وسبح للہ ما فی السموات الخ جملوں میں کیا آمادہ کیا۔ زمانہ گزشتہ کی عبرتناک اجمالی تاریخ بھی بیان فرمادی۔ یہ ہی اعجاز قرآنی 12 2 ؎ کس لیے کہ خوبصورتی بد صورتی اضافی بات ہے ایک خوبصورت ہے مگر اس کی نسبت جو اس سے بھی بڑھ کر ہے بد صورت کہلاتا ہے اور اسی لیے کہتے ہیں حسن کی انتہا نہیں اور یہی مال بد صورتی کا ہے ایک صورت اپنے سے زیادہ بد صورت کی نسبت خوبصورت خیال کیا جاتا ہے۔ 12 منہ
Top