بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Mualim-ul-Irfan - At-Taghaabun : 1
یُسَبِّحُ لِلّٰهِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ١ۚ لَهُ الْمُلْكُ وَ لَهُ الْحَمْدُ١٘ وَ هُوَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ
يُسَبِّحُ لِلّٰهِ : تسبیح کررہی ہے اللہ کے لیے مَا فِي السَّمٰوٰتِ : جو کچھ آسمانوں میں ہے وَمَا فِي الْاَرْضِ : اور جو کچھ زمین میں ہے لَهُ : اسی کے لیے الْمُلْكُ : بادشاہت وَلَهُ الْحَمْدُ : اور اسی کے لیے ہے تعریف وَهُوَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ : اور وہ ہرچیز پر قَدِيْرٌ : قدرت رکھنے والا ہے
تسبیح بیان کرتی ہے جو چیز بھی ہے آسمانوں میں اور جو بھی ہے زمین میں۔ اسی کے لئے بادشاہی اور اسی کے لئے ہے تعریف ، اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے
نام اور کوائف : اس سورة مبارکہ کا نام سور ۃ التغابن ہے جو کہ اس کی آیت 9 میں آمدہ لفظ سے ماخوذ ہے ۔ تغابن غبن کے مادہ سے ہے ۔ جس میں نقصان کا معنی پایا جاتا ہے اور یوم التغابن قیامت کے دن کو کہا گیا ہے جس کا ذکر اس سورة میں آرہا ہے زیادہ تر مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ یہ سورة مدنی زندگی کے ابتدائی دور میں سورة تحریم کے بعد نازل ہوئی ، تاہم بعض فرماتے ہیں کہ اس کی کچھ آیات مکی ہیں اور کچھ مدنی ہیں۔ اس سورة مبارکہ میں اٹھارہ آیات اور دو رکوع ہیں۔ اور یہ سورة 241 الفاظ اور 1070 حروف پر مشتمل ہے۔ سابقہ سورة کے ساتھ ربط : پچھلی سورة میں اللہ تعالیٰ نے اعتقادی منافقوں کی مذمت بیان فرمائی ، جو حضور ﷺ کے زمانے میں پائے جاتے تھے۔ اعتقادی منافق تو کافروں کی ہی ایک بدترین قسم ہے۔ تاہم عملی منافق کے قول اور عمل میں تضاد پایا جاتا ہے۔ یہ لوگ بھی انسانی سوسائٹی میں نقصان کا باعث ہوتے ہیں۔ نفاق ہر حالت میں بری خصلت ہے۔ خواہ وہ اعتقادی ہو یا عملی۔ بہرحال اللہ نے منافقوں کی سازشوں اور ان کی غلط کاروائیوں کا ذکر پچھلی سورة میں کیا۔ پھر فرمایا کہ جو لوگ دنیاوی زندگی میں منہمک ہو کر ذکر و عبادت سے غافل ہوجاتے ہیں وہ بھی ایک قسم کے نفاق ہی کا شکار ہوتے ہیں کیونکہ ایک سچے مومن میں بری خصلت نہیں پائی جاتی۔ پھر اسباب غفلت کے طور پر اللہ نے مال اور اولاد کا ذکر فرمایا کہ اکثر لوگ انہی دو چیزوں کی محبت میں مبتلا ہو کر آخرت کی فکر سے غافل ہوجاتے ہیں ، اللہ نے اس سلسلے میں تنبیہ فرمائی کہ اگر ایسا کرو گے تو ہمیشہ کے نقصان میں پڑجائو گے ، منافقوں کی ایک یہ صفت بھی اللہ نے بیان فرمائی کہ وہ نادار مہاجرین کی مالی اعانت سے منع کرتے تھے ، تاکہ ان کی جماعت کی تقویت حاصل نہ ہو ، وہ اپنے آپ کو باعزت اور مہاجرین کو ذلیل کہتے تھے ، اللہ نے اس کی بھی مذمت بیان فرمائی۔ سورۃ کے آخر میں اللہ نے اہل ایمان سے انفاق فی سبیل اللہ سے متعلق خاص طور پر خطاب فرمایا اور تنبیہ کی کہ مال واولاد کی محبت میں مبتلا ہو کر اللہ کے راستے میں خرچ کرنے سے ہاتھ نہ روک لینا۔ یہ ہمارا دیا ہوا مال ہے جس میں خرچ کرنے کا حکم دیا جارہا ہے۔ یہ کوئی تمہاری ذاتی ملکیت نہیں۔ ہر چیز کا مالک اللہ ہے ، اس نے تمہیں مجازی طور پر بعض چیزوں کا محدود عرصہ کے لئے مالک بنایا ہے تو تم اس کے حقیقی مالک نہ بن جانا۔ قرآن پاک کی اکثر سورتوں میں انفاق کی ترغیب دی گئی ہے۔ مثلاً سورة در میں فرمایا۔ واتوھم…………………اتکم (آیت 33) اس مال میں سے مستحقین کو دو جو اللہ نے تمہیں عطا کیا ہے۔ پچھلی سورة المنافقون میں بھی گزر چکا ہے وانفقوا………رزقنکم (آیت 10) ہماری دی ہوئی روزی میں سے خرچ کرو۔ وگر نہ جب موت کا وقت آجائے گا تو انسان اس وقت تمنا کرے گا کہ اسے کچھ مہلت مل جائے تو صدقہ خیرات کرکے نیکوکاروں میں شامل ہوجائے مگر اس وقت مہلت نہیں ملے گی۔ مضامین سورة : گزشتہ سورة میں بیان کی گئی بہت سی باتیں اس سورة میں بھی اللہ نے بیان فرمادی ہیں۔ اس سورة میں قیامت کو یوم التغابن کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ جس کو ترجمہ شاہ عبدالقادر (رح) ہار جیت کا دن کرتے ہیں ۔ جن کے پاس نیکی نہیں ہوگی وہ اس دن ہار جائیں گے اور جن کے پاس ایمان اور نیکی ہوگی وہ جیت جائیں گے اس سورة میں مال اور اولاد کے فتنے کا ذکر بھی ہے۔ یہاں پر نیکی کے بلند ترین اصول بیان کیے گئے ہیں اور کفر کی شدید مذمت کی گئی ہے۔ رسالت کے سلسلہ میں انبیاء (علیہم السلام) کی بشریت کا ذکر ہے اور مشرکین کی جہالت اور بیوقوفی کا پردہ چاک کیا گیا ہے۔ الغرض ! اس سورة مبارکہ میں اللہ نے سب سے پہلے دین کا اصل الاصول اور بنیادی مسئلہ ، مسئلہ توحید بیان فرمایا ہے اور پھر رسالت کا بیان ہے۔ اس میں مشرکین اور نبوت و رسالت میں شکوک و شبہات کا اظہار کرنے والوں کا رد ہے۔ انسان کے مال اور اولاد کو اس کے حق میں فتنہ قرار دیا گیا ہے اور تاکید کی ہے کہ حسب استطاعت دین کا کام زیادہ سے زیادہ انجام دیا جائے۔ توحید باری تعالیٰ : دین میں سب سے پہلے انسان کی فکر کا پاک ہونا ضروری ہے کیونکہ اس کے بغیر کسی شخص کو کمال حاصل نہیں ہوسکتا۔ مسئلہ توحید پر اسی لئے زور دیا جاتا ہے تاکہ انسان کی فکر پاک ہو اور اس کے دل و دماغ میں نور ایمان راسخ ہوجائے ، اور اس کو ظاہر و باطن کی طہارت حاصل ہوجائے۔ حضرت شاہ ولی اللہ (رح) فرماتے ہیں کہ کوئی شخص جب تک اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی صفات پر مکمل یقین نہ رکھتا ہو ، اس کو کمال مطلوب کبھی حاصل نہیں ہوسکتا۔ توحید کی وجہ سے انسان کی فکر پاک ہوتی ہے ، ورنہ انسان نجاست میں ہی مبتلارہتا ہے اسی لئے مشرکین کے متعلق اللہ نے فرمایا ہے انما المشرکون نجس (التوبہ 28) بیشک مشرک لوگ ناپاک ہیں۔ جب تک انسان کا اندرپاک نہ ہو ، اس کا دل و دماغ اور روح پاک نہ ہو ظاہری طہارت کا کچھ فائدہ نہیں۔ اللہ نے منافقوں کے متعلق بھی فرمایا ہے۔ انھم رجس وماوھم جھنم وہ پلید ہیں اور ان کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ اللہ نے اسی روحانی نجاست کے متعلق فرمایا ہے فاجتنبوا الرجس من الاوثان (الحج 30) بت پرستی کی نجاست سے بچو۔ سورة المدثر میں اللہ کا فرمان ہے والرجز فاھجر (آیت 5) نجاست کو ترک کردو۔ اس سے ہر قسم کی گندگی مراد ہے۔ سب سے پہلی نجاست اعتقاد کی ہوتی ہے ، مشرک بظاہر تو بالکل صاف ستھرا معلوم ہوتا ہے ، جو غسل کرتا ہے ، خوشبو لگاتا ہے اور اچھے کپڑے پہنتا ہے۔ مگر اس کی روحانی نجاست کی بناء پر اللہ نے اس کو نجس کہا ہے۔ روحانی نجاست انسان کے باطن کو تاریک کردیتی ہے۔ اس کی موجودگی میں انسان کے دل میں بصیرت پیدا نہیں ہوسکتی۔ شاہ ولی اللہ (رح) فرماتے ہیں کہ اعتقاد کی طہارت کے بغیر انسان کا قدم خطیرۃ القدس کی طرف نہیں اٹھ سکتا ، بلکہ وہ بھٹکتا ہی رہتا ہے۔ قرآن میں اشارتاً موجود ہے کہ ایسا شخص نیچے گڑھے میں ہی گرے گا۔ مرنے کے بعد بدعقیدہ آدمی کی روح اوپر کی طرف کوشش کریگی۔ جب کہ اس کا فاسد عقیدہ اور برے اعمال نیچے کو کھینچیں گے اور اس کشمکش میں اسے تکلیف پہنچے گی۔ غرضیکہ سب سے پہلے اللہ نے ایمان اور توحید کا مسئلہ بیان فرمایا ہے۔ تاکہ انسان کا تعلق اللہ تعالیٰ کے ساتھ درست ہوجائے اور وہ تریقی کی منازل طے کرسکے۔ اس طرح وہ اپنے لئے خدا کی طرف سے لکھا ہوا کمال حاصل کرسکے گا۔ شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور اس کی صفات کو صحیح طریقے سر نہیں مانتا وہ ملحد ہے۔ جب کوئی آدمی اللہ تعالیٰ کی واحدنیت اور اس کیتقدیر پر یقین کرلیتا ہے ، تو اللہ تعالیٰ اور بندے کے درمیان ایک دروازہ واہوجاتا ہے اور بندے کو ترقی نصیب ہوجاتی ہے۔ طبرانی شریف کی روایت میں آتا ہے کہ اس سورة کی ابتدائی پانچ آیتیں ہر شخص کی پیشانی پر لکھی ہوئی ہیں۔ چناچہ ابتداء میں بچہ فطرت سلیمہ پر ہی پیدا ہوتا ہے۔ جیسے فرمایا کل مولود یولد علی الفطرۃ ہر بچہ صحیح فطرت پر پیدا ہوتا ہے۔ وہ بچہ خواہ کسی یہودی ، نصرانی ، ہندو ، سکھ ، بدھ یا دہریہ کے گھر پیدا ہوا ہو۔ اس کی فطرت بالکل صحیح ہوتی ہے۔ پھر بعد میں اس کے والدین اور اس کا ماحول اسے یہودی ، عیسائی یا ہندو وغیرہ بنادیتے ہیں۔ پانچ آیتوں کا ذکر کرکے حضور ﷺ نے کنایتاً بات سمجھائی ہے کہ نومولود ہمیشہ صحیح فطرت پر پیدا ہوتا ہے۔ اگر اس پر ماحول کا اثر نہ ہو تو وہ ان پانچ آیات میں بیان کردہ اللہ کی وحدانیت اور اس کی مذکورہ صفات پر مکمل یقین رکھنے والا ہو۔ خدا تعالیٰ کی تسبیح : ارشاد ہوتا ہے یسبح للہ مافی السموت ومافی الارض پاکی بیان کرتی ہے اللہ تعالیٰ کی جو چیز بھی ہے آسمانوں میں اور جو زمین میں۔ کائنات کا ذرہ ذرہ اللہ کی تسبیح وتنزیہہ بیان کرتا ہے۔ تنزیہہ کا معنی یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی ذات ہر عیب ، نقص ، کمزوری اور ہر قسم کے شرک سے پاک ہے۔ اللہ نے سورة نحل میں فرمایا ہے کہ ہر چیز اپنی فطرت کے مطابق خدا کی تسبیح بیان کرتی ہے ، البتہ انسانوں میں آکر دو گروہ بن جاتے ہیں۔ بعض اللہ تعالیٰ کی توحید پر مستقیم رہتے ہیں اور بعض شرک کرنے لگتے ہیں۔ حالانکہ ان کے سائے بھی خدا تعالیٰ کے سامنے سجدہ ریز ہوتے ہیں۔ یہ صرف انسان ہی ناشکرگزار ہے جو اپنے خالق اور مالک کا حق نہیں پہچانتا اور اس کے ساتھ دوسروں کو شریک بناتا ہے حالانکہ اللہ کا واضح فرمان ہے فتعلی………یشرکون (الاعراف 190) اللہ تعالیٰ ہر اس چیز سے بلندو برتر ہے جس کو لوگ اس کے ساتھ شریک ٹھہراتے ہیں۔ خدا کی ذات ازلی ابدی اور عیب اور نقص سے پاک ہے۔ آسمان کے سیارے اور ستارے فرشتے اور ساری مخلوق حتیٰ کہ پتا پتا ، ٹہنی ٹہنی ، شجر وحجر اللہ کی تسبیح بیان کر رہے ہیں۔ خدا تعالیٰ کی بادشاہی : فرمایا لہ الملک بادشاہی بھی اسی کی ہے جو معبود برحق ہے اور جس کی سبھی تنزیہہ بیان کرتے ہیں۔ سورة الملک کے آغاز میں فرمایا تبرک الذی بیدہ الملک (آیت 1) بابرکت ہے وہ ذات جس کے قبضہ قدرت میں حقیقی بادشاہی ہے ، دنیا کی بادشاہی اور اقتدار تو عارضی ہے اور ختم ہوجانے والا ہے ، لوگ خواہ مخواہ اس پر مغرور ہوجاتے ہیں۔ حقیقی بادشاہ وہی ہے جس کی بادشاہی کو کبھی زوال نہیں ہے۔ یہ بادشاہی صرف زمین پر انسانوں کی حد تک محدود نہیں بلکہ لہ ملک………والارض (الزمر 44) آسمانوں اور زمین کی ساری سلطنت اسی کی ہے ، بادشاہی اس کی ہے ولہ الحمد اور تعریف بھی اسی کی ہے ، صفات کمال کا مالک وہی ہے وھو علی کل شیء قدیر ، اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے ، اللہ کی ذات فعال لمایرید (البروج 16) جو چاہے کرے اس کے راستے میں کوئی چیزرکاوٹ نہیں بن سکتی ، اس کی صفت یہ ہے کہ وہ ملک الملک………………… …ممن تشآء (آل عمران 26) بادشاہوں کا بادشاہ ہے ، جس کو چاہے ، جس کو چاہے اقتدار عطا کردے اور جس سے چاہے بادشاہی چھین لے۔ ہر چیز پر قدرت اسی کو حاصل ہے ، دنیا میں کتنی بھی بڑی سلطنت کا مالک ہو ، مگر وہ ہر کام نہیں کرسکتا۔ یہ صرف خدا کی ذات ہے جو ہر شے پر قادر ہے اصلی اور حقیقی بادشاہی اسی کی ہے ، لہٰذا انسانوں کا فرض ہے کہ اس کو احکم الحاکمین تصور کریں ، اس کی توحید کو تسلیم کریں اور اس کے ساتھ شرک نہ کریں۔ خدا تعالیٰ کی صفت خلق : فرمایا ، اللہ تعالیٰ کی ایک صفت یہ بھی ہے۔ ھوالذی خلقکم وہی ذات ہے جس نے تمہیں پیدا کیا ہے۔ وہ خود ازلی ابدی ہے اور باقی سب مخلوق ہے۔ سورة الزمر میں ہے اللہ خالق کل شیء (آیت 26) جو ہر چیز کا خالق ہے ، رب بھی وہی ہے اور معبود بھی وہی ہے ، پھر دوسروں کی عبادت کیوں کی جائے ؟ ان کے سامنے انتہائی درجے کی تعظیم کیوں بجا لائی جائے ؟ اللہ کے علاوہ ہر جاندار اور بےجان چیز مخلوق ہے۔ اور مخلوق عاجز اور سوالی ہے۔ ہر جن وانس ، ملائکہ ، کیڑے مکوڑے ، چرند پرند ، آبی مخلوق سب اللہ کے سوالی ہیں۔ دینے والا صرف وہی وحدہ لاشریک ہے۔ امام شاہ ولی اللہ (رح) فرماتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی دو صفات کو تو سبھی مانتے ہیں۔ پہلی صفت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ واجب الوجود ہے۔ صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہی خود بخود ہے۔ اس کے علاوہ کسی چیز کا وجود ذاتی نہیں بلکہ خدا کا عطا کردہ ہے۔ اللہ کی دوسری صفت خلق ہے ۔ جس پر تمام مذاہب والے متفق ہیں کہ پیدا کرنے والا بھی خدا تعالیٰ ہی ہے۔ البتہ تیسری صفت میں لوگ اختلاف کرتے ہیں ، حقیقت یہ ہے کہ مدبر بھی اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ ہر چیز کی وہی تدبیر کرتا ہے مگر مشرک لوگ دوسروں کو بھی مدبر مانتے ہیں۔ عیسائی (علیہ السلام) کو مدبر تسلیم کرتے ہیں۔ جب کہ نجومی ستاروں میں کرشمہ مانتے ہیں۔ قبر پرست ، قبروالوں کو حاجت روا اور مشکل کشا سمجھتے ہیں۔ مگر اللہ نے فرمایا یدبر…………الارض (السجدۃ 5) آسمان کی بلندیوں سے لے کر زمین کی پستیوں تک ہر چیز کی تدبیر وہی کرتا ہے۔ امام شاہ ولی اللہ (رح) فرماتے ہیں کہ جو تھی صفت تدلی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی تجلی کا عکس ہر انسان کی روح میں پڑتا ہے۔ آج انسان پر غفلت کے پردے پڑے ہوئے ہیں جن کی وجہ سے وہ اس عکس کو محسوس نہیں کرتا۔ جب انسان پر موت واقع ہو کر اس کا مادی خول اتر جاتا ہے اور اصل انسان ظاہر ہوجاتا ہے تو اس وقت اس کو اللہ کی تجلی کا اثر محسوس ہوتا ہے جو اس کا اوپر عالم بالا کی طرف کھینچتی ہے۔ اگر وہ شخص صاحب ایمان ہے تو اسے کوئی تکلیف نہیں ہوتی۔ اور اگر وہ توحید پر قائم نہ رہا تو تدلی کی کشش تو اوپر کی طرف ہوگی جب کے انسان اپنے فاسد عقیدے کی وجہ سے نیچے کی طرف جائے گا ، لہٰذا اس کشمکش میں اسے تکلیف ہوگی۔ مومن اور کافر : فرمایا وہی ذات ہے جس نے تمہیں پیدا کیا فمنکم کافر ومنکم مومن پھر تم میں سے کوئی کافر بن جاتا ہے اور کوئی مومن بن جاتا ہے۔ کافر کا معنی انکار کرنے والا یعنی جس شخص نے اللہ کی توحید ، رسالت ، کتب سماویہ ، ملائکہ مقربین ، اور قیامت کا انکار کیا وہ کافر شمار ہوگا۔ کافر کا دوسرا معنی ناشکر گزار بھی ہے اور یہاڈ دونوں معنی صادق آتے ہیں۔ یعنی تم میں سے بعض ناشکر گزار اور بعض شکر گزار ہوتے ہیں۔ اللہ نے ناشکر گزاروں یا کافروں کا ذکر پہلے فرمایا ہے۔ کیونکہ دنیا میں اکثریت انہی کی ہوتی ہے۔ سورة سبا میں بھی اللہ کا ارشاد ہے۔ وقلیل…………الشکور (آیت 13) میرے شکر گزار بندے تھوڑے ہی ہیں۔ چناچہ ہم آج بھی دیکھتے ہیں کہ دنیا کی پانچ ارب آبادی میں سے مسلمان صرف ایک ارب کے قریب ہیں۔ باقی چار ارب کی آبادی کافر ہے۔ فرمایا واللہ بما تعملون بصیر اور اللہ تعالیٰ تمہارے انجام دیے جانے والے تمام امور کو دیکھنے والا ہے۔ تمہارا چھوٹے سے چھوٹا عمل حتیٰ کہ نیت اور ارادہ بھی اللہ کی نگاہ میں ہے۔ جزائے عمل کی منزل آنے والی ہے جس میں ہر شخص کے عقیدہ اور عمل کے مطابق ہی فیصلہ ہوگا۔ تخلیق کائنات : آگے ارشاد ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات وہ ہے خلق السموت والارض بالحق جس نے آسمانوں اور زمین کو حق کے ساتھ پیدا کیا ۔ اس کی کوئی تخلیق بےسود نہیں ہے بلکہ اس نے ہر چیز کو اپنی خاص مصلحت اور حکمت کے ساتھ پیدا فرمایا ہے فرمایا کافروں کا یہ خیال باطل ہے کہ اللہ نے ارض سما کو فضول پیدا کیا ہے ، نہیں بلکہ ان کا کوئی مقصد ہے ، اور اس کا نتیجہ نکلنے والا ہے ، پھر فرمایا ارض وسماء کی تخلیق کے علاوہ وصورکم فاحسن صورکم ، اے انسانو ! تمہیں صورت بخشی اور بہت اچھی شکل و صورت عطا فرمائی ، اللہ کا ارشاد ہے لقد خلقنا……………تقویم (التین 4) ہم نے انسان کی بہترین صورت میں پیدا کیا۔ اللہ نے انسان جیسی خوبصورت شکل کسی دوسری مخلوق کو عطا نہیں کی۔ ذرا غور کریں کہ انسان کا چہرہ صرف چھ سات انچ مربع جگہ میں مگر اربوں چہروں میں ہر چہرہ مختلف ہے۔ جس کی وجہ سے ایک دوسرے کی پہچان ہوتی ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی صناعی کا بہت بڑا شاہکار ہے۔ انسان کے پیچیدہ اعضاء کو کمال قدرت کے ساتھ اپنی اپنی جگہ پر فٹ کیا ہے کہ وہ ساٹھ ، ستر ، سو سو سال تک کام کرتے رہتے ہیں۔ یہ خدا کی قدرت کا اعجاز ہے۔ کسی انسان کے بس میں نہیں ہے۔ کہ وہ دماغ جیسی پیچیدہ چیز اور حواس ظاہرہ و باطنہ کو پیدا کرسکے ، فرمایا یہ بہترین شکل و صورت انسان کو عطا کی ہے۔ والیہ المصیر ، اور بالآخر اسے خدا تعالیٰ کی طرف ہی لوٹ کر جانا ہے۔ اسے بارگاہ رب العزت میں پیش ہو کر اپنی کارکردگی کا حساب دینا ہے۔ خدا تعالیٰ علیم کل ہے : آگے اللہ تعالیٰ کی صفت علیم کل کا ذکر ہے۔ یعلم مافی السموت والارض ، وہ جانتا ہے جو کچھ ہے آسمانوں میں اور جو کچھ ہے زمین میں ہے۔ ارض وسما کی کوئی چیز اس سے مخفی نہیں ہے ، وہ علم محیط کا مالک ہے۔ ویعلم ماتسرون وما تعلنون ، اور وہ ان چیزوں کو بھی جانتا ہے جن کو تم چھپاتے ہو اور ان کو بھی جن کو تم ظاہر کرتے ہو۔ وہ تمہارے تمام ظاہر و باطن سے واقف ہے حتیٰ کہ واللہ علیم بذات الصدور ، وہ تمہارے سینوں کے رازوں کو بھی جانتا ہے انسان مخلوق سے تو کئی چیزیں مخفی رکھنے میں کامیاب ہوجاتا ہے اور وہ چیزیں عمر بھر راز ہی رہتی ہیں مگر اللہ کی ذات وہ ہے کہ جس سے کوئی راز بھی نہیں چھپایا جاسکتا ۔ وہ انسان کی نیت اور ارادے تک کو جانتا ہے۔ اللہ نے سورة الملک میں واضح کیا ہے الا یعلم من خلق ، وھوا لطیف الخبیر ، کیا وہی تمہارے حالات کو نہیں جائے گا ، جس نے تمہیں پیدا کیا ہے ؟ یقینا وہ کائنات کے ذرے ذرے سے واقف ہے اور انسان کے رگ وریشے کی باتوں کو بھی جانتا ہے۔ یہی بات ہے جو انسان کو غلط کاروائی سے روکتی ہے۔ جو مالک الملک ہر چیز کو جانتا ہے ، حساب کتاب کے وقت اس سے کون سی چیز چھپائی جاسکے گی ؟
Top