Tafseer-e-Haqqani - Al-Haaqqa : 9
وَ جَآءَ فِرْعَوْنُ وَ مَنْ قَبْلَهٗ وَ الْمُؤْتَفِكٰتُ بِالْخَاطِئَةِۚ
وَجَآءَ فِرْعَوْنُ : اور آیا فرعون وَمَنْ قَبْلَهٗ : اور جو اس سے پہلے تھے وَالْمُؤْتَفِكٰتُ : اور اٹھائی جانے والی بستیاں بِالْخَاطِئَةِ : ساتھ خطا کے
اور فرعون اور اس سے پہلے کے لوگ اور الٹی ہوئی بستیوں والے گناہ کے مرتکب ہوئے
ترکیب : من موصلۃ قبلہ قراء الجمہور بفتح القاف و سکون الباء ای ومن حقدومن الامم و قراء ابوعمرو و عاصم والکسائی بکسر القاف وفتح الباء معناہ من جہتہ وطرفہ وعلی الوجہین ھو صلۃ والمجموع معطوف علی فرعون وھو فاعل جاء و۔ المؤتفکات معطوف علیہ بالخاطئۃ مفعول جاء و ‘ الباء للتعدیۃ والخاطئۃ امامصدر کالحظاء واما الفعلۃ ای بالفعلۃ الخاطئۃ رسول ربہم مفعول عصوا ای عصیٰ کلواحد رسول ربہ اخذۃً مفعول مطلق رابیۃً صفۃ من ربا الشیء اذا زاد انا مبتداء حملنا کم خبرہ فی الجاریۃ حال من مفعولہ اذ فی متعلقہ بمحذوف لیست بصلۃ للحمل لماطغا الماء ظرف لحملنا دخلت بین المبتداء وخبرہ لنجعلہا واللام متعلقہ بمحذوف ای فعلناوالضمیر المنصوب فی نجعلہا للفعلۃ انجاء المومنین واہلاک الکافرین وھی معلومۃ وان کانت غیرمذکورۃ قال الفراء الضمیر للسفینۃ۔ وتعیہا معطوف علی نجعلای ولتعیھاوھی بکسر العین عندالقراء السبعۃ وقریٔ اسکان العین کمافی فخذوکبدوانما فعل ذلک لان حرف المضارعۃ لاینفصل من الفعل فاشبہ ما ھومن نفس الکلمۃ وصارکقول من قال ھو وھی ومثل ذلک قولہ ویتقہ فی قرأۃ من سکن القاف (الکبیر) والوعی ان تحفظ الشیء فی نفسک والایعاء ان تحفظ فی غیرک (البیضاوی) ۔ تفسیر…فرعون اور اس سے پہلے والوں کی ہلاکت : (2) فرعون کا قصہ۔ (3) وہ جو اس سے پہلے گزرے ہیں ان کا واقعہ۔ حضرت نوح و ابراہیم (علیہما السلام) کے درمیانی زمانے میں یا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بعد سے فرعون کے عہد تک جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا عہد تھا۔ اس عرصہ میں بھی بہت انبیاء آئے اور ان کی امتوں پر نافرمانی سے بلائیں نازل ہوئیں اور وہ غارت کردیے گئے۔ ان کا تفصیلی علم اللہ ہی کو ہے۔ یا من قبلہ سے فرعونی لوگ مراد ہیں یعنی فرعون اور اس کے لوگوں کا قصہ کہ وہ اپنی بدکاری کی وجہ سے قلزم میں غرق ہوئے۔ الٹی ہوئی بستیوں کی ہلاکت : (4) مؤتفکۃ الٹی ہوئی بستیاں۔ حضرت لوط (علیہ السلام) کے عہد میں پانچ بستیاں جو جھیل مردار کے کنارے پر آباد تھیں۔ سدوم عامورا وغیرہ ان کی بدکاری اور نافرمانی و سرکشی کی وجہ سے الٹی گئی تھیں۔ فرماتا ہے ان سب لوگوں نے جو خطائی گناہوں میں پڑگئے، پھر سب کے قصے کو مختصر کرتا ہے۔ فعصوارسول ربہم۔ نہ صرف گناہ ہی کئے تھے بلکہ گناہوں کے سبب دل سیاہ ہوگئے تھے۔ جس لیے خداوند تعالیٰ کے رسولوں کی۔ نافرمانی کی فرعون نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی نافرمانی میں کوئی دقیقہ اٹھا نہیں رکھا۔ علی ہذا القیاس اس سے پہلے لوگوں نے یا اس کے بعد لوگوں نے اور سدوم وغیرہ بستیوں کے رہنے والوں نے حضرت لوط (علیہ السلام) کی نافرمانی میں کوئی کمی نہ کی۔ فاخذھم اخذۃ رابیہ پھر تو ان سب کو اللہ قادر نے انتقام میں زور سے پکڑا۔ ہر ایک مختلف عذابوں میں مبتلا کر کے غارت کیا گیا۔ فرعون اور اس کی قوم بد کو قلزم میں ڈبویا۔ لوط (علیہ السلام) کی قوم پر آسمان سے پتھر برسائے ان کی بستیوں کو الٹ دیا۔ قوم نوح کی ہلاکت : (5) انالماطغا الماء یہ پانچویں نظیر حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم کی ہے۔ گرچہ من قبلہ میں اجمالی طور پر داخل تھی مگر ایک بڑا عبرتناک واقعہ تھا۔ اس واقعہ میں سے صرف ان باقی رہ جانے والوں پر کشتی میں سوار کرلینے کا احسان یاد دلاتا ہے کہ جن کی اولاد نے پھر بدکاری پر بدکاری اور بت پرستی پر بت پرستی کی۔ یہ فرعون اور قوم لوط اور مکہ کے کفار کون ہیں انہیں کی اولاد کہ اے سرکشو ! جب پانی کی طغیانی ہوئی تو تم کو (تمہارے باپ دادا کو جن کی پشتوں میں تم نالائق نمک حرام تھے) ہم نے کشتی پر اٹھا لیا تاکہ یہ ہمارا فعل آیندہ نسلوں میں یادگار رہے مگر تم بھول گئے اور تاکہ اس کو یاد رکھنے والے کان سنیں۔ تم سنتے ہو مگر تمہارے کان اس کو پھینک دیتے ہیں محفوظ نہیں رکھتے۔ یہاں اجمالی بیان ہر ایک قوم کا کافی تھا اس لیے اسی پر بس کی گئی۔
Top