Ruh-ul-Quran - Al-Haaqqa : 9
وَ جَآءَ فِرْعَوْنُ وَ مَنْ قَبْلَهٗ وَ الْمُؤْتَفِكٰتُ بِالْخَاطِئَةِۚ
وَجَآءَ فِرْعَوْنُ : اور آیا فرعون وَمَنْ قَبْلَهٗ : اور جو اس سے پہلے تھے وَالْمُؤْتَفِكٰتُ : اور اٹھائی جانے والی بستیاں بِالْخَاطِئَةِ : ساتھ خطا کے
اور اسی خطائے عظیم کا ارتکاب فرعون اور اس سے پہلے کے لوگوں نے اور الٹی ہوئی بستیوں والوں نے کیا
وَجَـآئَ فِرْعَوْنُ وَمَنْ قَبْلَـہٗ وَالْمُؤْتَفِکٰتُ بِالْخَاطِئَۃِ ۔ فَعَصَوْا رَسُوْلَ رَبِّہِمْ فَـاَخَذَھُمْ اَخْذَۃً رَّابِیَۃً ۔ (الحآقۃ : 9، 10) (اور اسی خطائے عظیم کا ارتکاب فرعون اور اس سے پہلے کے لوگوں نے اور الٹی ہوئی بستیوں والوں نے کیا۔ انھوں نے اپنے رب کے رسولوں کی نافرمانی کی، تو اس نے ان کو بڑی سختی کے ساتھ پکڑا۔ ) مشکل الفاظ کی تشریح : مُؤْتَفِکٰتُ … کے معنی باہم مختلط اور ملے جلے کے ہیں۔ حضرت لوط (علیہ السلام) کی بستیوں کو مُؤْتَفِکٰتُ یا تو اس لیے کہا جاتا ہے کہ وہ سب آپس میں ملی ہوئی بستیاں تھیں۔ اور یا اس لیے کہ عذاب آنے کے وقت جب ان کا تختہ الٹا گیا تو سب گڈمڈ ہوگئیں۔ اور بعض اہل لغت کے نزدیک اس کا معنی ہے، الٹی ہوئی۔ قوم لوط کی بستیاں زلزلہ سے الٹ دی گئی تھیں اور کنکر برسانے والی ہوا نے ان کو ریت اور کنکروں سے ڈھانپ دیا تھا، اس لیے ان کو مُؤْتَفِکٰتُ کہا جاتا ہے۔ فرعون اور قوم عاد کا انجام قومِ عاد وثمود کے انجام کے ذکر کے بعد فرعون اور قوم لوط وغیرہ کی بستیوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ کیونکہ یہ وہ بستیاں ہیں جن کے آثار قریش کے تجارتی اسفار میں جابجا دکھائی دیتے تھے۔ فرعون اگرچہ مصر میں ہوا اور قریش کا مصر سے کوئی تجارتی تعلق نہ تھا۔ البتہ یہود کی ہمسائیگی کی وجہ سے وہ فرعون کے انجام سے ناواقف نہ تھے۔ اور قوم عاد کی بستیوں کے کھنڈرات تو ان کے راستے میں پڑتے تھے۔ اس لیے قوم عاد وثمود کے بعد ان کا ذکر کرکے قریش اور دیگراہلِ عرب کو تنبیہ کی جارہی ہے کہ یہ سب قومیں تکذیبِ قیامت اور تکذیبِ رُسل کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے عذاب کا شکار ہوئیں۔ اور آج تم اسی راستے پر چل رہے ہو۔ تمہیں ان قوموں کے انجام سے عبرت حاصل کرکے اپنا رویہ بدلنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ عذاب کا سبب اگلی آیت کریمہ میں جرم کی نوعیت واضح فرمائی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان قوموں کو بےسبب نہیں پکڑا بلکہ ان پر عذاب کا سبب یہ تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے رسول کی نافرمانی کرتے تھے۔ جو رسول بھی ان قوموں کی طرف آیا، اس نے ان کو یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ تم جو زندگی گزار رہے ہو اس کے ایک ایک لمحے کی کارروائی محفوظ رکھی جارہی ہے۔ تمہارا ہر عمل محفوظ ہورہا ہے۔ اس زندگی کے بعد ہمیشہ کا خاتمہ نہیں بلکہ ایک اور زندگی آنے والی ہے جسے قیامت یا آخرت کہتے ہیں۔ اس زندگی میں کیے ہوئے ہر عمل کا حساب وہاں دینا پڑے گا۔ اس لیے اس زندگی کو اس طرح گزارو جس طرح میں تمہیں تعلیم دے رہا ہوں کیونکہ میں اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں، اس نے اپنا دین مجھ پر اتارا ہے۔ میں وہ ضابطہ حیات لے کر مبعوث ہوا ہوں جو تمہارے لیے زندگی کا ضابطہ اور قانون ہے اور جس کے مطابق تمہیں زندگی گزارنی ہے اور اسی کے حوالے سے تم سے بازپرس ہوگی۔ میری اطاعت اور میرا اتباع تم پر لازم ہے کیونکہ میں اللہ تعالیٰ کا فرستادہ اور اس کا نمائندہ ہوں۔ اگر تم مجھے تسلیم کرنے سے انکار کرو گے تو تم حقیقت میں اللہ تعالیٰ کا انکار کرو گے اور تم جانتے ہو یہ کتنا بڑا جرم ہے۔ لیکن جب انھوں نے بار بار کی تنبیہ کے باوجود اللہ تعالیٰ کے رسول کو ماننے سے انکار کردیا، نہ صرف اس کی نافرمانی کی بلکہ اس کی زندگی کے درپے ہوگئے تو اللہ تعالیٰ نے اس جرم میں انہیں پکڑا۔ کیونکہ اس کی نافرمانی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور اس کیخلاف علم بغاوت بلند کرنے کے مترادف ہے۔ کیونکہ وہ دنیا میں اللہ تعالیٰ کا سفیر بن کر آتا ہے۔ اور پھر جب انہیں پکڑا تو ایسا پکڑا جس کی وہ مدافعت کرنے پر قادر نہ تھے۔ اَخْذَۃً رَّابِیَۃً ، اس سے مراد وہ پکڑ ہے جس کی مدافعت نہ ہوسکے اور جو انسان کے لیے ناقابلِ برداشت ہو۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بعض دفعہ گرفت صرف تنبیہ اور یاددہانی کے لیے ہوتی ہے۔ ایسی تنبیہ سے آدمی چھوٹ جاتا ہے۔ لیکن جب کوئی قوم خدا کے خلاف علم بغاوت بلند کرتی ہے تو وہ اس کو ایسی پکڑ پکڑتا ہے جس کی تاب لانا ناممکن ہوتا ہے۔
Top