Baseerat-e-Quran - Al-Haaqqa : 9
وَ جَآءَ فِرْعَوْنُ وَ مَنْ قَبْلَهٗ وَ الْمُؤْتَفِكٰتُ بِالْخَاطِئَةِۚ
وَجَآءَ فِرْعَوْنُ : اور آیا فرعون وَمَنْ قَبْلَهٗ : اور جو اس سے پہلے تھے وَالْمُؤْتَفِكٰتُ : اور اٹھائی جانے والی بستیاں بِالْخَاطِئَةِ : ساتھ خطا کے
فرعون اور اس سے پہلے الٹی ہوئی بستیوں کے رہنے والوں (قوم لوط (علیہ السلام) ) نے بھی برے بڑے گناہ کئے تھے
لغات القرآن۔ الموتفکت۔ الٹی ہوئی بستیاں (قوم لوط کی بستیاں) رابیۃ۔ سخت۔ طغا المائ۔ پانی نے جوش مارا۔ پانی کھولنے لگا۔ الجاریۃ۔ چلنے والی (کشتی) تعی۔ محفوظ رکھا۔ واعیۃ۔ حفاظت سے رکھنا۔ دکتا۔ کوٹ دیا جائے گا۔ واھیۃ۔ کمزور۔ بےجان۔ ارجاء (رجائ) ۔ کنارے۔ ھائوم۔ آئو (دیکھو) لو۔ ظننت۔ میں نے خیال رکھا تھا۔ انی ملق۔ بیشک میں ملنے والا ہوں۔ عیشۃ راضیۃ۔ من پسند زندگی کا عیش۔ عالیۃ۔ اونچی۔ بلند۔ قطوف۔ پھل ۔ میوے۔ دانیۃ۔ قریب۔ لم اوت۔ نہ دیا گیا ہوتا۔ القاضیۃ۔ فیصلہ کرنے والی۔ غلوا۔ طوق ڈالو۔ صلوہ۔ اس کو ڈال دو ۔ سلسلۃ۔ زنجیریں۔ ذرع۔ لمبائی۔ سبعون۔ ستر۔ اسلکوا۔ جکڑ لو۔ لا یحض۔ آمادہ نہ کرتا تھا۔ حمیم۔ جگری دوست۔ حمایتی۔ غسلین۔ زخموں کا دھو ون۔ الخاطئون۔ خطا کرنے والے تشریح : اس سے پہلی آیات میں قوم عاد اور قوم ثمود جیسی عظیم ترقی یافتہ قوموں کو ان کی نافرمانیوں کی وجہ سے جو عذاب دیا گیا اس کا ذکر کرنے کے بعد طوفان نوح اور ان بستیوں کا ذکر فرمایا جن کو الٹ کر تہس نہس کیا گیا تھا۔ ان قوموں کی بربادیوں کا ذکر کرکے یہ بتایا گیا ہے کہ اس کائنات میں ساری طاقت و قوت اللہ رب العالمین کی ہے وہی قادر مطلق اور مالک و مختار ہے۔ اگر وہ زبردست ترقی یافتہ قوموں کو تباہ و برباد کرسکتا ہے تو وہ اس پوری کائنات کو بھی ختم کرنے پر پوری قدرت رکھتا ہے۔ جب اللہ چاہیے گا تو پورے نظام کائنات کو الٹ رکھ دے گا۔ چناچہ جب اللہ کے حکم سے پہلی مرتبہ صور میں پھونک ماری جائے گی تو زمین وآسمان اور اس کے درمیان بسنے والی ساری مخلوق، دریا، پہاڑ، سمندر، چاند اور سورج ستارے اور ہر چیز ریزہ ریزہ ہوجائے گی اور اس وقت اللہ کی ہیبت و جلال سے اس کے عرش کو چار کے بجائے آٹھ فرشتے اٹھائے ہوئے ہوں گے۔ چونکہ اللہ جسم اور جسمانیت سے پاک ہے اس لئے عرش الٰہی کے اٹھائے جانے کا مقصد یہ ہے کہ اللہ اور عرش الٰہی کے سوا کوئی چیز بھی باقی نہ بچے گی۔ پھر دوبارہ صور پھونکا جائے گا تو ساری مخلوق دوبارہ پیدا کردی جائے گی یہی ” حاقہ “ کا دن ہے جب سب کو اپنے اعمال کے ساتھ اللہ کے سامنے حاضر ہو کر زندگی کے ایک ایک لمحے کا حساب دینا ہوگا اور اس دن کوئی بات چھپی نہ رہ سکے گی بلکہ سارے اعمال ظاہر ہوجائیں گے فرمایا کہ ہر شکس کا نامہ اعمال اس کے ہاتھ مین دیدیا جائے گا۔ جس کا نامہ اعمال داہنے ہاتھ میں دیا جائے گا تو اس کی کوشی کا ٹھکانا نہ ہوگا وہ ہر ایک سے کہے گا کہ آئو میرے اعمال نامے کو دیکھو۔ وہ خوشی سے کہے گا کہ مجھے یقین تھا کہ میں نوازا جاؤں گا۔ چناچہ وہ اپنی من پسند زندگی گزارے گا۔ بلند وبالا جنتیں ہوں گی، درختوں پر لگے ہوئے پھلوں کے گچھے جنتیوں کی طرف اس طرح جھکے ہوئیہوں گے کہ ان کے پھلوں کو توڑ کر کھانے میں کوئی محنت اور مشقت نہ اٹھانا پڑے گی۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اعلان کیا جائے گا کہ آج کے دن خوب کھائو پیو، عیش و آرام کی زندگی گزارو۔ یہ سب کچھ تمہارے ان نیک اعمال کا نتیجہ ہے جو تم اسے پہلے دنیا میں کیا کرتے تھے۔ اور جن بدنصیوں کا نامہ اعمال ان کے بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا وہ اس کو پرھ کر شرمندگی اور افسوس کے ساتھ کہیں گے کہ کاش یہ نامہ اعمال ہمیں دیا ہی نہ گیا ہوتا مجھے تو اس کا احساس تک نہ تھا کہ میرا حساب بھی لیا جائے گا۔ کاش میں پہلی موت کے ساتھ ہی مٹ گیا ہوتا۔ ہائے افسوس میرا مال بھی میرے کام نہ آسکا۔ میری عزت بھی گئی اور میرا وقار بھی رخصت ہوگیا۔ اس گناہ گار کے اس اعتراف کے بعد اللہ تعالیٰ فرشتوں کو حکم دیں گے کہ اس کو پکڑو۔ اس کے گلے میں طوق ڈالو اور گھسٹتے ہوئے جہنم میں لے جا کر اس میں جھونک دو ۔ اور اس کو ایسی زنجیر میں جکڑ دو جو ستر ہاتھ لمبی ہو۔ فرمایا جائے گا کہ یہ وہ شخص ہے جو اللہ پر جو سب سے بر تر و اعلیٰ ہے ایمان نہ رکھتا تھا اسے اتنی بھی توفیق نہیں تھی کہ وہ کسی غریب کو کھانا کھلانے کی ترغیب ہی دے دیتا۔ ا اج کے دن کوئی ایک شخص بھی تو ایسا نہیں ہے جو اس کے ستھ ہمدردی کرسکے۔ اب اس کا انجام یہ ہے کہ اس کو زخموں کے دھو ون کے سوا اور کوئی چیز بھی کھانے کے لئے دستیاب اور میسر نہ ہوگی۔ ان گناہ گاروں کو اس کے علاوہ کچھ بھی نصیب نہ ہوگا۔
Top