Tafseer-e-Haqqani - At-Tawba : 63
اَلَمْ یَعْلَمُوْۤا اَنَّهٗ مَنْ یُّحَادِدِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ فَاَنَّ لَهٗ نَارَ جَهَنَّمَ خَالِدًا فِیْهَا١ؕ ذٰلِكَ الْخِزْیُ الْعَظِیْمُ
اَلَمْ يَعْلَمُوْٓا : کیا وہ نہیں جانتے اَنَّهٗ : کہ وہ جو مَنْ : جو يُّحَادِدِ : مقابلہ کرے گا اللّٰهَ : اللہ وَرَسُوْلَهٗ : اور اس کا رسول فَاَنَّ : تو بیشک لَهٗ : اس کے لیے نَارَ جَهَنَّمَ : دوزخ کی آگ خَالِدًا : ہمیشہ رہیں گے فِيْهَا : اس میں ذٰلِكَ : یہ الْخِزْيُ : رسوائی الْعَظِيْمُ : بڑی
کیا وہ نہیں جانتے کہ جو اللہ اور اس کے رسول کو ناخوش کرتا ہے تو اس کے لئے دوزخ کی آگ ہے کہ جس میں ہمیشہ رہے گا۔ یہ بڑی رسوائی ہے۔
ترکیب : انہ جملہ قایم مقام دو مفعول یعلموا کے من شرطیہ موضع مبتداء میں فان جواب ان کا فتح مشہور ہے۔ یہ خبر ہے مبتداء محذوف کی اے فجزائوھم ان لھم نار الخ اسم ان لہ اس کی خبر ان تنزل موضع نصب میں ہے یحذر کا مفعول ہو کر باللّٰہ اور اس کے معطوفات مجرور ہیں۔ ب کے جو تستہزئون سے متعلق ہیں۔ تفسیر : ان آیات میں منافقین کے حالات ذکر کرکے ان پر تہدید و تنبیہ کرتا ہے کہ ایسے لوگوں کے لئے ہمیشہ کا جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہا کریں گے اور یہ بات بھی کہ ان کے مرد و عورت یکساں ہیں۔ جیسے مرد خبیث بےدین ہیں اسی طرح عورتیں بھی جو کہ منافق اور بےدین ہیں۔ بری باتوں کی تعلیم کرنے والیاں ہیں ٗ بھلی باتوں سے منع کرتی ہیں۔ منجملہ ان کے حالات و اقوال ذمیمہ کے (جو وہ آنحضرت ﷺ اور صحابہ مخلصین کے حق میں کہتے تھے جنگ تبوک سے پیچھے رہ کر اعنی مدینہ میں بیٹھ کر اور نیز فوج میں شامل ہو کر جو کہ شرما شرمی چلے گئے تھے) ایک یہ ہے کہ وہ تحقیر اسلام کرتے تھے اور گستاخانہ کلمات بکا کرتے تھے جن پر بسا اوقات آنحضرت ﷺ بذریعہ وحی مطلع کئے جاتے تھے۔ پھر جب پوچھا جاتا تھا تو کہتے تھے کہ ہم تو ہنسی دل لگی کے طور پر کہتے تھے۔ پس جب وحی نازل ہوتی تھی تو آیات سے بہت ڈرتے تھے کہ کہیں وہ باتیں آشکارا نہ ہوجائیں اور وہ ہمارے دل کے راز نہ کھل جائیں۔ اس کی طرف یحذرا المنافقون الخ میں اشارہ فرماتا ہے۔ فرماتا ہے کہ کیوں ناحق کے عذر کرتے ہو تم کافر ہوچکے اگر تمہارا ظاہری کچھ ایمان تھا بھی وہ بھی رخصت ہوا۔ اسی جگہ سے علمائِ اسلام کا اتفاق ہے کہ جو دین محمدی کے ساتھ تمسخر کرتا ہے کافر ہوجاتا ہے۔ پھر فرماتا ہے کہ اچھا ہم ان لوگوں کو جو صدق دل سے توبہ کرتے ہیں یا ان کے کلمات حد کفر تک نہ پہنچے تھے ٗ معاف کردیں گے تو اس کے برخلاف دوسرے گروہ منافقین کو جو دل سے توبہ نہیں کرتے جھوٹے عذرات پیش کرتے ہیں ضرور عذاب کریں گے۔ ازانجملہ یہ کہ وہ بری باتیں سکھلاتے ‘ اچھی باتوں سے منع کرتے ‘ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے ہاتھ روکتے ہیں سو وہ اللہ کو بھول گئے اللہ ان کو بھول گیا۔ یہ علی سبیل مشاکلت فرمایا۔ مراد یہ کہ جس طرح انہوں نے اللہ سے اعراض و بےاعتنائی کی اسی طرح عالم آخرت میں اعراض و بےاعتنائی خدا تعالیٰ کی طرف سے ظہور میں آئے گی۔ جیسا کوئی بوئے گا ویسا کاٹے گا۔ اس کا بدل اور اس جرم کی سزا ان کے لئے بیان فرماتا ہے کہ وعد اللّٰہ ان کو ابدی جہنم ہے اور لعنت اور عذاب دائمی ہر صفت بد کے مقابلہ میں ایک سزا، پھر ان بادہ غفلت اور مئے نخوت کے مستوں کو متنبہ فرماتا ہے کہ ذرا آنکھ کھول کر تو دیکھو کہ کدھر ہیں وہ صاحبان جاہ و حشم اور کہاں گئے وہ والیان فوج و خدم ؟ وہ ان کے نعیم و ناز اور وہ ان کے ماہ رویان خوش انداز کہاں ہیں۔ وہ عمدہ مکان ‘ وہ باغ جنت نشاں کس طرف ہیں۔ دیکھو وہ تم سے زیادہ مال و اولاد رکھتے تھے جس کے نشہ میں انبیائِ الٰہی سے نافرمان ہوئے۔ ان کی باتوں کو ٹھٹھوں میں اڑانے لگے تو شعلہ قہر الٰہی نے ان کو نیست و نابود کردیا اور دیار عدم کی موجوں میں ٹکراتے ٹکراتے قعر جہنم میں پہنچے۔ اب بجز خرابات اور مکانوں کی بنیاد شکستہ کے ان کے حال زار پر کوئی رونے والا بھی نہیں۔ پھر تم بیچارے کیا ہو۔ چلو تم بھی چند روزہ مزے اڑا چکے۔ ان کی چال چل چکے اب دیکھو کیا ہوتا ہے۔ اس کے بعد اپنے پاکباز بندوں کے لئے ان کے افعال حمیدہ ایمان و صلوٰۃ و زکوٰۃ بیان کرکے ان کے لئے عالم قدس میں حیات جاودانی اور جنات الفردوس میں سرور و شادمانی کا وعدہ فرماتا ہے جس سے سعید ازلی کا دل بےخود عالم قدس کی طرف کھنچا جاتا ہے۔
Top