Tafseer-Ibne-Abbas - Al-Maaida : 41
یٰۤاَیُّهَا الرَّسُوْلُ لَا یَحْزُنْكَ الَّذِیْنَ یُسَارِعُوْنَ فِی الْكُفْرِ مِنَ الَّذِیْنَ قَالُوْۤا اٰمَنَّا بِاَفْوَاهِهِمْ وَ لَمْ تُؤْمِنْ قُلُوْبُهُمْ١ۛۚ وَ مِنَ الَّذِیْنَ هَادُوْا١ۛۚ سَمّٰعُوْنَ لِلْكَذِبِ سَمّٰعُوْنَ لِقَوْمٍ اٰخَرِیْنَ١ۙ لَمْ یَاْتُوْكَ١ؕ یُحَرِّفُوْنَ الْكَلِمَ مِنْۢ بَعْدِ مَوَاضِعِهٖ١ۚ یَقُوْلُوْنَ اِنْ اُوْتِیْتُمْ هٰذَا فَخُذُوْهُ وَ اِنْ لَّمْ تُؤْتَوْهُ فَاحْذَرُوْا١ؕ وَ مَنْ یُّرِدِ اللّٰهُ فِتْنَتَهٗ فَلَنْ تَمْلِكَ لَهٗ مِنَ اللّٰهِ شَیْئًا١ؕ اُولٰٓئِكَ الَّذِیْنَ لَمْ یُرِدِ اللّٰهُ اَنْ یُّطَهِّرَ قُلُوْبَهُمْ١ؕ لَهُمْ فِی الدُّنْیَا خِزْیٌ١ۖۚ وَّ لَهُمْ فِی الْاٰخِرَةِ عَذَابٌ عَظِیْمٌ
يٰٓاَيُّھَا : اے الرَّسُوْلُ : رسول لَا يَحْزُنْكَ : آپ کو غمگین نہ کریں الَّذِيْنَ : جو لوگ يُسَارِعُوْنَ : جلدی کرتے ہیں فِي : میں الْكُفْرِ : کفر مِنَ : سے الَّذِيْنَ : جو لوگ قَالُوْٓا : انہوں نے کہا اٰمَنَّا : ہم ایمان لائے بِاَفْوَاهِهِمْ : اپنے منہ سے (جمع) وَ : اور لَمْ تُؤْمِنْ : مومن نہیں قُلُوْبُهُمْ : ان کے دل وَمِنَ : اور سے الَّذِيْنَ هَادُوْا : وہ لوگ جو یہودی ہوئے سَمّٰعُوْنَ : جاسوسی کرتے ہیں لِلْكَذِبِ : جھوٹ کے لیے سَمّٰعُوْنَ : وہ جاسوس ہیں لِقَوْمٍ : جماعت کے لیے اٰخَرِيْنَ : دوسری لَمْ يَاْتُوْكَ : وہ آپ تک نہیں آئے يُحَرِّفُوْنَ : وہ پھیر دیتے ہیں الْكَلِمَ : کلام مِنْۢ بَعْدِ : بعد مَوَاضِعِهٖ : اس کے ٹھکانے يَقُوْلُوْنَ : کہتے ہیں اِنْ اُوْتِيْتُمْ : اگر تمہیں دیا جائے هٰذَا : یہ فَخُذُوْهُ : اس کو قبول کرلو وَاِنْ : اور اگر لَّمْ تُؤْتَوْهُ : یہ تمہیں نہ دیا جائے فَاحْذَرُوْا : تو اس سے بچو وَمَنْ : اور جو۔ جس يُّرِدِ اللّٰهُ : اللہ چاہے فِتْنَتَهٗ : گمراہ کرنا فَلَنْ تَمْلِكَ : تو ہرگز نہ آسکے گا لَهٗ : اس کے لیے مِنَ : سے اللّٰهِ : اللہ شَيْئًا : کچھ اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو لَمْ يُرِدِ : نہیں چاہا اللّٰهُ : اللہ اَنْ : کہ يُّطَهِّرَ : پاک کرے قُلُوْبَهُمْ : ان کے دل لَهُمْ : ان کے لیے فِي الدُّنْيَا : دنیا میں خِزْيٌ : رسوائی وَّلَهُمْ : اور ان کے لیے فِي : میں الْاٰخِرَةِ : آخرت عَذَابٌ : عذاب عَظِيْمٌ : بڑا
اے پیغمبر جو لوگ کفر میں جلدی کرتے ہیں (کچھ تو) ان میں سے (ہیں) جو منہ سے کہتے ہیں کہ ہم مومن ہیں لیکن ان کے دل مومن نہیں ہیں۔ اور (کچھ) ان میں سے یہودی ہیں۔ ان کی وجہ سے غمناک نہ ہونا۔ یہ غلط باتیں بنانے کیلئے جاسوسی کرتے پھرتے ہیں۔ اور ایسے لوگوں (کے بہکانے) کیلئے جاسوس بنے ہیں جو ابھی تمہارے پاس نہیں آئے (صحیح) باتوں کو ان کے مقامات (میں ثابت ہونے کے بعد) بدل دیتے ہیں اور (لوگوں سے) کہتے ہیں اگر تمہیں یہ حکم ملے تو اس کو لے لینا اگر نہ ملے تو اس سے احتراز کرنا اگر خدا کسی کو گمراہ کرنا چاہے تو اس کے لئے تم کچھ بھی خدا سے (ہدایت کا) اختیار نہیں رکھتے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں کو خدا نے پاک کرنا نہیں چاہا۔ ان کے لیے دنیا میں بھی ذلّت ہے اور آخرت میں بھی بڑا عذاب ہے
(41) اے محمد ﷺ جو لوگ کفار کے ساتھ دنیوی اور اخروی معاملات میں دوستی کے لیے پہل کرتے ہیں، آپ ان کی وجہ سے دکھی مت ہوں وہ صرف اپنی زبانوں سے کہتے ہیں کہ ہم نے دل سے تصدیق کی مگر ان منافق یعنی عبداللہ بن ابی اور اس کے ساتھیوں کے دلوں نے تصدیق نہیں کی اور خواہ وہ بنو قریظہ کے یہودی کعب اور اس کے ساتھی ہوں وہ سب اہل خیبر کی وجہ سے یہ باتیں سنتے ہیں اور اہل خیبر سے جن باتوں کا ظہور ہوا بنوقریظہ نے ان کے متعلق آپ ﷺ سے دریافت کیا تھا۔ انھوں نے رسول اللہ ﷺ کی نعت وصفت اور رجم کے حکم میں باوجود اس کے کہ توریت میں اس کا ذکر ہے، تبدیلی کی ہے اور ان کے سردار کمزوروں سے یا یہ کہ عبداللہ بن ابی منافق اور اس کے ساتھی دوسروں سے کہتے ہیں اگر رسول اللہ ﷺ تمہیں زانی کو کوڑے لگانے کا حکم دیں تو اسے قبول کرلو اور اس پر عمل کرو اور اگر سنگسار کرنے کا حکم دیں یعنی اگر تمہاری خواہشات کے مطابق حکم نہ ہو تو اس سے احتراز کرو اور اسے قبول مت کرو اور جس کا کفر وشرک اور ذلت ورسوائی خدا ہی کو منظور ہو تو اسے عذاب الہی سے کون نجات دے سکتا ہے۔ یہ یہود اور منافقین ایسے ہیں کہ مکرو خیانت اور کفر پر اصرار کی وجہ سے اللہ کو ان کی پاکیزگی ہی منظور نہیں، ان کو قتل اور جلاوطن کرنے کا عذاب دیا جائے گا اور آخرت کا عذاب اس دنیاوی عذاب کی نسبت بہت سخت ہوگا۔ شان نزول : (آیت) ”یایھا الرسول لا یحزنک الذین“۔ (الخ) امام احمد ؒ اور ابوداؤد ؒ نے ابن عباس ؓ سے روایت نقل کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہودیوں کی دو جماعتوں کے بارے میں یہ آیت نازل فرمائی ہے جن میں سے ایک جماعت دوسری جماعت پر زمانہ جاہلیت میں غالب آگئی تھی یہاں تک کہ دونوں کا میل جول ہوگیا پھر دونوں نے مل کر یہ طے کرلیا کہ جس مغلوب آدمی کو کوئی معزز یعنی غالب آدمی قتل کردے تو اس کی دیت پچاس وسق ہے۔ اور جس معزز آدمی کو کوئی مغلوب مار ڈالے تو اس کی دیت سو وسق ہے تو یہ لوگ اسی چیز پر قائم رہے یہاں تک کہ رسول اکرم ﷺ تشریف لے آئے تو ایک مغلوب نے ایک معزز کو مار ڈالا، اس معزز کے خاندان والوں نے قاصد بھیجا کہ سو وسق دیت کے دو تو مغلوب نے کہا کہ یہ چیز دو قبیلوں میں کیسے ہوسکتی ہے، جب کہ دونوں کا دین ایک، دونوں کی نسبت ایک اور دونوں کا شہر ایک اور پھر بعض دیت آدھی، ہم تم لوگوں سے ڈر کر خوف کی وجہ سے پوری دیت دے دیا کرتے تھے، اب جب کہ رسول اکرم ﷺ تشریف لے آئے تو اب ہم تمہیں اس طرح سابقہ طریقہ سے دیت نہیں دیں گے، امکان تھا کہ ان دو قبیلوں میں جنگ ہوجاتی مگر یہ دونوں قبیلے اس بات پر رضا مند ہوگئے کہ رسول اللہ ﷺ کو اپنے درمیان منصف بنالیں، چناچہ منافقین میں سے کچھ لوگ آپ کے پاس پہنچے تاکہ آپ کی رائے معلوم کریں اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی یعنی اے رسول ﷺ جو لوگ کفر میں دوڑ دوڑ کر گرتے ہیں الخ۔ اور امام احمد و امام مسلم نے براء عازب ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس سے کچھ یہودی گزرے، جن کی صورتیں سیاہ اور ان کے کوڑے لگے ہوئے تھے، آپ نے پوچھا کہ کیا تمہاری کتاب میں زانی کی یہی سزا ہے بولے ہاں۔ آپ نے ان کے عالموں میں سے ایک شخص کو بلایا اور فرمایا کہ میں تجھے اس ذات کی قسم دے کر دریافت کرتا ہوں جس نے توریت حضرت موسیٰ پر نازل فرمائی، کیا تمہاری کتاب میں زانی کی یہی سزا ہے، وہ بولا نہیں اور اگر آپ اس طریقہ سے مجھے قسم نہ دیتے تو میں آپ کو نہ بتاتا ہماری کتاب میں زانی کی سزا سنگسار کردینا ہے، مگر ہمارے معزز لوگوں میں یہ بکثرت ہوگیا ہے، لہذا ہم میں سے جب کوئی معزز زنا کرتا ہے تو ہم اسے چھوڑ دیتے ہیں اور جس وقت کوئی کمزور زنا کرتا ہے تو اس پر حد نافذ کرتے ہیں۔ اس کے بعد ہم یہودیوں نے آپس میں کہا کہ آؤ کوئی ایسی سزا مقرر کرلیں، جو معزز اور کمزور دونوں پر نافذ کردیا کریں ، تو منہ کالا کرنے اور کوڑے لگادینے پر ہمارا اتفاق ہوگیا، تب رسول اکرم ﷺ نے فرمایا الہ العالمین میں وہ پہلا شخص ہوں کہ جس نے تیرے حکم کو زندہ کیا جب کہ لوگ اس کو ختم کرچکے تھے۔ چناچہ آپ ﷺ نے زانی کے بارے میں تورات کے مطابق حکم دیا، اسے سنگسار کیا گیا، تب اللہ تعالیٰ نے فخذوہ تک یہ آیت نازل فرمائی۔ یہودی کہتے تھے کہ محمد ﷺ کے پاس جاؤ اگر وہ منہ کالا کرنے اور کوڑے لگانے کا حکم دیں تو حکم مان لو اگر سنگسار کرنے کا حکم دیں تو اس سے بچو، یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی۔ یہودی کہتے تھے کہ محمد ﷺ کے پاس جاؤ اگر وہ منہ کالا کرنے اور کوڑے لگانے کا حکم دیں تو حکم مان لو اگر سنگسار کرنے حکم دیں تو اس سے بچو، یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی کہ جو شخص اللہ کے نازل کیے ہوئے حکم کے موافق فیصلہ نہ کرے تو ایسے لوگ بالکل ستم ڈھا رہے ہیں۔ اور حمیدی نے اپنی سند میں حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت نقل کی ہے کہ فدک والوں میں سے ایک شخص نے زنا کیا تو فدک والوں نے مدینہ منورہ کے کچھ یہودیوں کے پاس لکھا کہ اس کے متعلق رسول اللہ ﷺ سے دریافت کرو، اگر آپ کوڑے لگانے کا حکم دیں تو یہ آپ سے لے لو اور اگر سنگسار کرنے کے باے میں فرمائیں تو اس سے بچو، چناچہ یہودیوں نے آپ ﷺ سے دریافت کیا آپ ﷺ نے سنگسار کرنے کا حکم دیا، اس پر آیت کا یہ حصہ نازل ہوا، (آیت) ”فان جاؤک فاحکم (الخ) اور بیہقی نے دلائل میں بوہریرہ ؓ سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔ (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح)
Top