Urwatul-Wusqaa - Al-Maaida : 41
یٰۤاَیُّهَا الرَّسُوْلُ لَا یَحْزُنْكَ الَّذِیْنَ یُسَارِعُوْنَ فِی الْكُفْرِ مِنَ الَّذِیْنَ قَالُوْۤا اٰمَنَّا بِاَفْوَاهِهِمْ وَ لَمْ تُؤْمِنْ قُلُوْبُهُمْ١ۛۚ وَ مِنَ الَّذِیْنَ هَادُوْا١ۛۚ سَمّٰعُوْنَ لِلْكَذِبِ سَمّٰعُوْنَ لِقَوْمٍ اٰخَرِیْنَ١ۙ لَمْ یَاْتُوْكَ١ؕ یُحَرِّفُوْنَ الْكَلِمَ مِنْۢ بَعْدِ مَوَاضِعِهٖ١ۚ یَقُوْلُوْنَ اِنْ اُوْتِیْتُمْ هٰذَا فَخُذُوْهُ وَ اِنْ لَّمْ تُؤْتَوْهُ فَاحْذَرُوْا١ؕ وَ مَنْ یُّرِدِ اللّٰهُ فِتْنَتَهٗ فَلَنْ تَمْلِكَ لَهٗ مِنَ اللّٰهِ شَیْئًا١ؕ اُولٰٓئِكَ الَّذِیْنَ لَمْ یُرِدِ اللّٰهُ اَنْ یُّطَهِّرَ قُلُوْبَهُمْ١ؕ لَهُمْ فِی الدُّنْیَا خِزْیٌ١ۖۚ وَّ لَهُمْ فِی الْاٰخِرَةِ عَذَابٌ عَظِیْمٌ
يٰٓاَيُّھَا : اے الرَّسُوْلُ : رسول لَا يَحْزُنْكَ : آپ کو غمگین نہ کریں الَّذِيْنَ : جو لوگ يُسَارِعُوْنَ : جلدی کرتے ہیں فِي : میں الْكُفْرِ : کفر مِنَ : سے الَّذِيْنَ : جو لوگ قَالُوْٓا : انہوں نے کہا اٰمَنَّا : ہم ایمان لائے بِاَفْوَاهِهِمْ : اپنے منہ سے (جمع) وَ : اور لَمْ تُؤْمِنْ : مومن نہیں قُلُوْبُهُمْ : ان کے دل وَمِنَ : اور سے الَّذِيْنَ هَادُوْا : وہ لوگ جو یہودی ہوئے سَمّٰعُوْنَ : جاسوسی کرتے ہیں لِلْكَذِبِ : جھوٹ کے لیے سَمّٰعُوْنَ : وہ جاسوس ہیں لِقَوْمٍ : جماعت کے لیے اٰخَرِيْنَ : دوسری لَمْ يَاْتُوْكَ : وہ آپ تک نہیں آئے يُحَرِّفُوْنَ : وہ پھیر دیتے ہیں الْكَلِمَ : کلام مِنْۢ بَعْدِ : بعد مَوَاضِعِهٖ : اس کے ٹھکانے يَقُوْلُوْنَ : کہتے ہیں اِنْ اُوْتِيْتُمْ : اگر تمہیں دیا جائے هٰذَا : یہ فَخُذُوْهُ : اس کو قبول کرلو وَاِنْ : اور اگر لَّمْ تُؤْتَوْهُ : یہ تمہیں نہ دیا جائے فَاحْذَرُوْا : تو اس سے بچو وَمَنْ : اور جو۔ جس يُّرِدِ اللّٰهُ : اللہ چاہے فِتْنَتَهٗ : گمراہ کرنا فَلَنْ تَمْلِكَ : تو ہرگز نہ آسکے گا لَهٗ : اس کے لیے مِنَ : سے اللّٰهِ : اللہ شَيْئًا : کچھ اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو لَمْ يُرِدِ : نہیں چاہا اللّٰهُ : اللہ اَنْ : کہ يُّطَهِّرَ : پاک کرے قُلُوْبَهُمْ : ان کے دل لَهُمْ : ان کے لیے فِي الدُّنْيَا : دنیا میں خِزْيٌ : رسوائی وَّلَهُمْ : اور ان کے لیے فِي : میں الْاٰخِرَةِ : آخرت عَذَابٌ : عذاب عَظِيْمٌ : بڑا
اے پیغمبر اسلام ! اس گروہ میں سے جس نے زبان سے کہا ہم ایمان لائے مگر ان کے دل مومن نہیں ہوئے اور اس گروہ میں سے جو یہودی ہیں جو لوگ کفر میں تیز گام ہوئے تو ان کی حالت تمہیں غمگین نہ کرے ، یہ لوگ جھوٹ کے لیے کان لگانے والے ہیں اور اس لیے کان لگانے والے ہیں کہ ایک دوسرے گروہ تک جو تمہارے پاس نہیں آیا خبریں پہنچائیں ، یہ کلموں کو باوجودیکہ ان کا صحیح محل ثابت ہوچکا ہے صحیح محل سے پھیر دیتے ہیں یہ کہتے ہیں اگر یہی حکم دیا جائے (جو تم کو پسند ہے) تو قبول کرلو (اور اگر ایسا حکم) نہ دیا جائے تو اس سے اجتناب کرو ، جس کسی کے لیے اللہ نے چاہا کہ آزمائش میں پڑے تو تم اس کے لیے اللہ سے کچھ نہیں پا سکتے ، یہی لوگ ہیں کہ اللہ ان کے دلوں کو پاک کرنا نہیں چاہتا ، ان کے لیے دنیا میں بھی رسوائی ہوئی اور آخرت میں بھی بہت بڑا عذاب ہے
سزائیں تجویز کرنے والا مالک الملک بھی ہے اور قادر مطلق بھی : 117: زیر نظر آیت کا ربط و مناسبت پچھی آیات سے یہ ہے کہ پچھلی آیات میں ڈاکہ اور چوری کی حدود شرعیہ جن میں ہاتھ پاؤں یا صرف ہاتھ کاٹ ڈالنے کے سخت احکام ہیں۔ ظاہر نظر میں یہ احکام شرافت انسانی اور اس کے اکرم المخلوقات ہونے کے منافی ہیں۔ اس شبہ کے ازالہ کے لئے اس آیت میں اللہ جل و شانہ نے پہلے اپنا مالک حقیقی ہونا سارے جہان کے لئے بیان فرمایا ہے پھر اپنے قادر مطلق ہونے کا ذکر فرمایا اور انکے درمیان میں ارشاد فرمایا کہ وہ صرف سزایا عذاب ہی نہیں دیتا بلکہ معاف بھی فرماتا ہے اور اس معافی اور سزا کا مدار اس کی حکمت پر ہے کیونکہ وہ جس طرح مالک مطلق اور قادر مطلق ہے اسی طرح حکیم مطلق بھی ہے جس طرح اس کی قدرت و سلطنت کا احاطہ کوئی انسان طاقت نہیں کرسکتی اسی طرح اس کی حکمتوں کا پورا احاطہ انسانی عقل و دماغ نہیں کرسکتے اور اصول کے ساتھ غوروفکر کرنے والوں کو بقدر کفایت کچھ علم ہو بھی جاتا ہے جس سے ان کے قلب مطمئن ہوجاتے ہیں۔ اسلامی سزاؤں کے متعلق بعض انسانوں کو یہ اعتراض ہے کہ یہ سزائیں سخت ہیں اور بعض ناعاقبت اندیش لوگ تو یہاں تک کہہ دیتے ہیں کہ یہ سزائیں وحشیانہ اور شرافت انسانی کے خلاف ہیں۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ سزائیں مقرر ہی اس لئے کی گئی ہیں کہ شرف انسانی قائم رہے اور اس فعل کے مرتکب نے شرافت انسانی کو جو نقصان پہنچا یا ہے اس کا ازالہ ہونا چاہئے ۔ غور کیجئے کہ قرآن کریم نے صرف چار جرموں کی سزائیں خود مقرر اور معین کی ہیں جن کو شرعی اصطلاح میں حد کہا جاتا ہے اور چاروں شرف انسانیت پر داغ ہیں۔ اول ڈاکہ کی سزا ہے کہ اس ننگ انسانیت کا داہنا ہاتھ اور بایاں پیر کاٹ دو ۔ دوم چوری کی سزا اس کا داہنا ہاتھ پہنچے پر سے کاٹ دو اور تیسرے زنا کی سزا ہے اس کو سو کوڑے لگانا اور چوتھی سزا ہے زنا کی جھوٹ تہمت کسی پر لگانا کہ اسکی سزا اسی کوڑے مقرر کی گئی اور علاوہ ازیں ایک حد پانچویں اگرچہ قرآن کریم میں نہیں لیکن حدیث سے واضح ہوتی ہے جس پر صحابہ کرام ؓ کا اجماع نقل کیا گیا اور وہ ہے شرابی کو اسّی کوڑے لگانا۔ ان پانچ جرائم کے سوا باقی تمام جرائم کی سزا حاکم وقت کی صوابدید پر ہے کہ مجرم اور جرم اور اس کے ماحول پر نظر کر کے جتنی اور جیسی چاہے سزا دے۔ بعض وہ لوگ جو ایمان کے دعویدار ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ مومن نہیں : 118: پیچھے سے ذکر چلا آرہا ہے اہل کتاب یعنی یہود ونصاریٰ کا درمیان میں بعض مضامین خاص خاص مناسبت سے آگئے۔ اب پھر موضوع اصل میں اہل کتاب ہی کی طرف پھر رہا ہے اور اہل کتاب میں جیسا کہ اوپر ذکر ہوا دو فرقے تو پہلے ہی متعارف تھے یعنی یہود اور نصاریٰ لیکن آیت زیر نظر سے ایک تیسرا فرقہ اور شامل ہوگیا جو حقیقت میں تو یہودی ہی تھے مگر منافقانہ طور پر مسلمان ہوگئے۔ یہ لوگ مسلمانوں کے سامنے اپنا اسلام ظاہر کرتے اور اپنے ہم مذہب یہودیوں کے ساتھ اکثر بیٹھتے اٹھتے اور اسلام کا مذاق اڑاتے رہتے تھے یہ وہ لوگ تھے جو اللہ تعالیٰ کے احکام اور ہدایات کے مقابلہ میں اپنی خواہشات اور آراء کو مقدم رکھتے تھے اور احکام وہدایات میں تاولیں کر کے اپنی خواہشات کے مطابق بنانے کی فکر میں رہتے تھے۔ یہاں تین آیتوں میں ان لوگوں کی دنیا اور آخرت میں رسوائی اور انجام بد کا بیان ہے اور اس کے ضمن میں مسلمانوں کے لئے چند اصولی ہدایات اور احکام شرعیہ کا بیان ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ باتیں ایسی تھیں جن سے آزردہ خاطر ہونا فطری امر ہے۔ خصوصاً جب کہ نبی کریم ﷺ ان کو قدم قدم پر اسلام کی حقانیت کے ثبوت مہیا فرماتے لیکن وہ برابر کفر سے چمٹے رہنے پر مصر رہتے۔ اللہ تعالیٰ اپنے رسول ﷺ کو تسلی دے رہے ہیں کہ آپ افسردہ خاطر نہ ہوں یہ لوگ نہ تو آپ ﷺ کو کوئی گزند پہنچا سکتے ہیں اور نہ ہی اسلام کی ترقی کو روکنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں یہ صرف زبان سے ایمان کا اقرار کر رہے ہیں لیکن انکے دل اس پرانے کفر میں مبتلا ہیں اور حق یہ ہے کہ آج بھی ایسے لوگوں کی کوئی کمی موجود نہیں ہے۔ زیر نظر آیات کے شروع میں نبی اعظم وآخر ﷺ کو ” یٰۤاَیُّهَا الرَّسُوْلُ “ کے خطاب سے مخاطب کیا گیا ہے اور قرآن کریم میں صرف دو جگہ آپ ﷺ کو اس خطاب سے یاد کیا گیا ہے ایک اس جگہ اور دوسرا اس سورة المائدہ کی آیت 70 میں اور ” یایہا النبی “ کے الفاظ سے قرآن کریم میں 12 دفعہ خطاب ہے اور ہر جگہ یہ خطاب اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہے کسی مومن و مسلم کو یہ حق نہیں کہ وہ اپنی طرف سے رسول اللہ ﷺ کو ان الفاظ سے خطاب کرے۔ کیوں ؟ اس لئے کہ ایھا یا یایھا سے خطاب ہمیشہ بڑا چھوٹے ہی کو کرسکتا ہے چھوٹا بڑے کو نہیں کرسکتا۔ یاد رہے کہ تشہد میں جو مسلمان ” ایہا لنبی ورحمۃ اللہ “ کے الفاظ پڑھتے ہیں وہ بھی اپنی طرف سے نہیں پڑھتے بلکہ یہ وہی الفاظ ہیں جو نبی اعظم وآخر ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے خود مخاطب فرما کر کہے اور وہی اللہ تعالیٰ کے کہے ہوئے الفاظ مسلمانوں کو دہرانے کا حکم دیا گیا ہے۔ جیسا کہ حدیث شریف میں اس کی وضاحت موجود ہے۔ اور یہ نکتہ بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ نبی اعظم و آخر ﷺ کو اسم ذات سے یعنی ” یا محمد “۔ ” یا احمد “ کہہ کر کسی ایک جگہ بھی مخاطب نہیں کیا گیا حالانکہ دوسرے انبیائے کرام کے ناموں سے مخاطب کیا گیا ہے جیسے یا ادم ، یا نوح ، یا ابراہیم ، یا داؤد وغیرہ۔ بلاشبہ اس میں آپ ﷺ کی تشریف بھی ہے اور یہ بھی کہ آپ ﷺ کے بعد کوئی النبی اور الرسول ہونے والا نہ تھا اس لئے آپ ﷺ کو النبی اور الرسول کہہ کر خطاب کی گیا اور یہ بات بھی اپنی جگہ صحیح ہے کہ آپ ﷺ میں چونکہ کمالات نبوت جمع کردیئے گئے تھے اسی لئے آپ ﷺ کے سوا کوئی اس خطاب کا مستحق نہ ہوا اور نہ ہی ہو سکتا تھا۔ یہود کی ان مختلف چالوں سے جو وہ اسلام کے خلاف چل رہے ہیں آپ ﷺ غمگین مت ہوں : 119: یہودنا مسعود کی وہ کونسی چالیں تھیں جن کا ذکر اس جگہ ہوا ایسے ان گنت واقعات ہیں جن کے یہود مرتکب ہوئے لیکن ان میں سے دو واقعات بہت مشہورومعروف ہیں جو مدینہ کے قرب و جوار میں رہنے والے یہودی قبائل میں پیش آئے جن میں سے ایک واقعہ قتل و قصاص کا ہے اور دوسرا واقعہ زنا کا۔ تاریخ عالم کا مطالعہ کرنے والے اس کی بات کو اچھی طرح جانتے ہیں کہ اسلام سے پہلے ہر جگہ ، ہر خطہ اور ہر طبقہ میں ظلم وجور کی حکومت تھی۔ قوی ضعیف کو عزت والا کمزور کو غلام بنائے رکھتا تھا۔ قوی اور عزت والوں کے لئے قانون اور تھا کمزور اور ضعیف کے لئے قانون اور گورے کا قانون الگ تھا اور کالے کا الگ۔ محسن انسانیت رسول اعظم و آخر ﷺ نے آکر ان سارے امتیازات کو ختم کیا ، اولاد آدم کے حقوق کی مساوات کا اعلان کیا اور انسان کو انسانیت اور آدمیت کا سبق دیا ۔ آپ ﷺ کے مدینہ تشریف لانے سے پہلے حوالئی مدینہ یہود کے دو قبیلے بنو قریظ اور بنو نضیر آباد تھے ان میں سے بنو نضیر قوت ، شوکت اور دولت و عزت میں بنو قریظہ سے زیادہ تھے ۔ یہ لوگ آئے دن بنو قریظہ پر ظلم کرتے رہتے تھے اور وہ چارونا چار اسکو سہتے تھے یہاں تک کہ بنو نضیر نے بنو قریظہ کو اس ذلت آمیز معاہدہ پر مجبور کیا کہ اگر بنو نضیر کا کوئی آدمی بنو قریظہ کے کسی شخص کو قتل کردے تو اس کا قصاص یعنی جان کے بدلے جان لینے کا ان کو حق نہ ہوگا بلکہ صرف ستر وسق کھجوریں اس کے خون بہا کے طور پر ادا کی جائیں گی اور اگر معاملہ اس کے برعکس ہو کہ بنوقریظہ کا کوئی آدمی بنو نضیر کے کسی شخص کو قتل کردے تو قانون یہ ہے کہ اس کے قائل کو قتل بھی کیا جائے اور ان سے خون بہا بھی لیا جائے اور وہ بنو نضیر کے خون بہا سے دوگنا یعنی ایک سو چالیس وسق کھجور ہیں۔ پھر صرف یہی نہیں بلکہ اس کے ساتھ یہ بھی کہ اگر ان کا مقتول عورت ہوگی تو اس کے بدلہ میں بنو قریضہ کے ایک مرد کو قتل کیا جائے گا اگر مقتول مرد ہے توا س کے معاوضہ میں بنو قریظہ کے دو مردوں کو قتل کیا جائے گا اور اگر بنو نضیر کے غلام کو قتل کیا گیا تو اس کے بدلہ میں بنو قریظہ کے آزاد کو قتل کیا جائے گا اور اگر بنو قریضہ کے کسی آدمی کا بنو قریظہ نے ایک ہاتھ کاٹا تو بنو قریظہ کے آدمی کے دو ہاتھ کاٹے جائیں گے۔ ایک کان کاٹا ہے تو دو کان کاٹے جائیں گے۔ یہ وہ قانون تھا جو اسلام سے قبل ان دونوں قبیلوں کے درمیان رائج تھا اور بنو قریظہ اپنی کمزوری کی بناء پر اس کے ماننے پر مجبور تھے۔ نبی اعظم و آخر ﷺ ہجرت کر کے مدینہ تشریف لائے اور مدینہ دار اسلام بن گیا اگرچہ یہ دونوں قبائل ابھی مسلمان نہ ہوئے تھے تاہم اسلامی قانون کی عدل گستری اور عام سہولتوں سے واقف ہوچکے تھے کہ اس عرصہ میں یہ واقعہ پیش آیا کہ بنو قریظہ سے بنو نضیر کا ایک آدمی قتل ہوگیا تو بنو نظیر نے معاہدہ کے مطابق بنو قریظہ سے دو گنی دیت یعنی خون بہا کا مطالبہ کیا ۔ بنو قریظہ اگرچہ نہ اسلام میں داخل تھے اور نہ ہی نبی اعظم وآخر ﷺ سے اس وقت تک کوئی معاہدہ تھا لیکن چونکہ یہ لوگ بھی یہودی تھے اور پھر ان میں بہت پڑھے لکھے تھے جو تورات کی پیش گوئیوں کے مطابق جانتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ ہی نبی ﷺ آخرالزمان ہیں جن کے آنے کی خوشخبری تورات نے دی تھی مختصر یہ کہ بنوقریظہ نے بنو نضیر کو اس طرح کا خون بہادینے سے صاف انکار کردیا اور کہا کہ دیکھو ہم اور تم ایک ہی خاندان ہیں ، ایک ہی وطن کے باشندے ہیں اور ہم دونوں کا مذہب بھی ایک ہے یعنی یہودیت یہ غیر منصفانہ معاملہ جو آج تک تمہاری زبردستی اور ہماری کمزوری کے سبب ہوتا رہا اب ہم اس کو گوارنہ کریں گے۔ ان کے اسی جواب سے بنو نضیر میں اشتعال پیدا ہوا اور قریب تھا کہ جنگ چھڑ جاتی تاہم کچھ لوگوں کے مشورے سے طے پایا کہ اس معاملہ کا فیصلہ نبی آخر الزمان ﷺ سے کرایا جائے۔ بنونضیر نے اس بات کو منظور تو کرلیا لیکن ساتھ ہی کچھ اپنے آدمی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں بھیجے جو اصلیت میں یہودی تھے لیکن بظاہر مسلمان ہوگئے تھے اور مطلب اس سے ان کا یہ تھا کہ یہ لوگ کسی نہ کسی طرح مقدمہ اور اس کے فیصلے سے پہلے اس معاملہ میں رسول اللہ ﷺ کا عندیہ اور نظریہ معلوم کرلیں اور پھر یہی تاکید ان لوگوں کو کردی اگر رسول اللہ نے ہمارے مطالبہ کے موافق فیصلہ فرمادیا تو اس کو قبول کرلینا اور اگر اس کے خلاف کوئی حکم آیا تو تم ماننے کا وعدہ نہ کرنا۔ اس طرح گویا یہ ان کی چال تھی جو انہوں نے اسلام کے خلاف چلی۔ اور دوسرا واقعہ اسی طرح پیش آیا کہ خبیر کے یہودیوں میں سے کسی نے زنا کرلیا تورات کی ہدایت کے مطابق ان دونوں کو سنگسار کرنا ضروری تھا لیکن یہ لوگ بڑے خاندان کے تھے یہودیوں نے اپنی قدیم عادت کے موافق یہ چاہا کہ ان کے لئے سزا میں نرمی کی جائے اور ان کو یہ معلوم تھا کہ مذہب اسلام میں بڑی سہولتیں دی گئی ہیں اس وجہ سے اپنے نزدیک یہ سمجھا کہ اسلام میں شاید اس سزا میں بھی تخفیف ہوگی خبیر کے لوگوں نے اپنی برادری بنو قریظہ کے لوگوں کے پاس پیغام بھیجا کہ اس معاملہ میں فیصلہ محمد رسول اللہ ﷺ سے کرا دیں اور دونوں مجرموں کو بھی ساتھ بھیج دیں منشاء ان کا یہی تھا کہ آپ ﷺ کوئی ہلکی سزا تجویز کریں گے تو مان لیا جائے گا وگرنہ انکار کردیا جائے گا ۔ بنو قریظہ کو پہلے تو تردد ہوا کہ معلوم نہیں آپ ﷺ کیا فیصلہ کریں اور وہاں جانے کے بعد ہمیں ماننا پڑے مگر کچھ دیر گفتگو کے بعد یہی فیصلہ رہا کہ ان کے چند سردار نبی اعظم و آخر ﷺ کی خدمت میں ان مجرموں کو لے کر جائیں اور آپ ﷺ ہی سے اس کا فیصلہ کرائیں۔ چنانچہ کعب اشرف سردار یہود ایک وقد ساتھ لے کر نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور سوال کیا کہ شادی شدہ مرد و عورت اگر بدکاری میں مبتلا ہوں تو ان کی سزا کیا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ کیا تم میرا فیصلہ مانو گے ؟ انہوں نے اقرارکر لیا تو اسی وقت جبرئیل امین اللہ کا یہ حکم لے کر نازل ہوئے کہ ان کی سزا سنگسار کر کے قتل کردینا ہے ان لوگوں نے یہ فیصلہ سنا تو بوکھلا گئے اور ماننے سے انکار کردیا۔ رسول اللہ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کا حکم پا کر ان لوگوں سے کہا کہ تم لوگ اس فیصلہ کے ماننے یا نہ ماننے کیلئے ابن صوریا کو حکم بنا دو ۔ آپ ﷺ نے ان کے وفد سے کہا کہ تم اس نوجوان کو پہچانتے ہو جو سفید رنگ مگر ایک آنکھ سے معذور ہے اور فدک میں رہتا ہے جس کو ابن صوریا کہا جاتا ہے۔ سب اقرار کیا۔ آپ ﷺ نے دریافت کیا کہ آپ لوگ اس کو کیا سمجھتے ہیں ؟ انہوں نے کہا کہ علمائے یہود میں روئے زمین پر اس سے بڑا کوئی عالم نہیں۔ یہ سن کر آپ ﷺ نے حکم دیا کہ اس کو بلاؤ ۔ وہ آگیا آپ ﷺ نے اسے قسم دے کر پوچھا کہ بتاؤ اس صورت میں تورات کا حکم کیا ہے ؟ وہ بولا کہ حقیقت تویہی ہے کہ حکم اسلام کی طرح تورات میں بھی یہی حکم ہے کہ ان دونوں کو سنگسار کر کے قتل کردیا جائے۔ یہ بھی گویا یہود کی ایک چال تھی جو کامیاب نہ ہوسکی۔ آپ ﷺ کے پاس صرف جاسوسی کے لئے آتے ہیں تاکہ آپ ﷺ کی باتیں دوسروں تک پہنچادیں : 120: ” یہ لوگ جھوٹ کے لئے کان لگانے والے ہیں ۔ “ مطلب یہ ہے کہ جھوٹ سننے کے عادی مجرم ہیں کہ سچی بات کو سن کر انہیں سرور نہیں آتا اور جھوٹی باتیں سنتے ہیں تو جھوم کر رہ جاتے ہیں ۔ سماع مبالغہ کا صیغہ ہے جس کے معنی سننے اور قبول کرنے کے ہیں۔ یعنی اپنی باطنی خباثت کی وجہ سے انہیں اپنے پادریوں کی جھوٹی باتیں پسند ہیں اور انہیں وہ فوراً قبول کرلیتے ہیں۔ یہ بیماری آج بھی عام ہے فرق ہے تو صرف یہ کہ جو بیماری اس وقت یہود میں تھی آج وہ نام کے مسلمانوں میں عام ہو چلی ہے۔ قرآن کریم اور حدیث رسول ﷺ سنیں گے تو ذرا لطف نہیں آئے گا اور نہ ہی دل سے اس کو قبول کریں گے اور اس کے علاوہ فرضی قصّے کہانیوں اور بناوٹی کہانیوں میں ان کو بڑا لطف آتا ہے۔ ان کے سننے کی دوسری وجہ یہ بیان فرمائی کہ وہ آپ ﷺ کی مجلس میں محض جاسوسی کے لئے آتے ہیں کہ کوئی راز کی بات سنیں اور اسے اپنی قوم کے سرداروں کو جا کر بتائیں اور اس طرح وہ اپنے سرداروں سے داد تحسین حاصل کریں اور ان لوگوں نے اسلام کو قبول ہی اس غرض کے لئے کیا ہے کہ آپ ﷺ کی مجلس میں بےجھجھک آجا سکیں گویا ایک سکیم کے تحت ان لوگوں نے اسلام کو قبول کرلیا دل ان کے قبول نہیں کرتے کیونکہ ان کے دل انہی جھوٹی باتوں کے ساتھ اٹکے ہوئے ہیں۔ اللہ کے کلام کو سمجھ لینے کے بعد اس کو پھیر دینا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے : 121: کلام کے اس واضح محمل سے ہٹانا تحریف دین ہے۔ اس جگہ ارشاد الٰہی ہوا کہ ” یہ کلموں کو باوجود یکہ ان کا صحیح محل ثابت ہوچکا ہے صحیح محل سے پھیر دیتے ہیں۔ “ اس طرح ارشاد فرما کر گویا یہود کی پس پردہ سازشوں سے پردہ اٹھایا اور بتایا جا رہا ہے کہ یہ منافین جن کے مرید ہیں اور جن سے یہ اشارے پا کر کام کرتے ہیں ان کی کارستانیاں کیا ہیں اور وہ ان کو کیا سبق پڑھا کر آپ ﷺ کے پاس بھیجتے ہیں۔ آیت کا یہ ٹکڑا آیت 13 میں بھی گزر چکا ہے البتہ اس میں فرق یہ ہے کہ وہاں یُحَرِّفُوْنَ الْكَلِمَ عَنْ مَّوَاضِعِهٖ 1ۙ ہے اور اس جگہ مِنْۢ بَعْدِ مَوَاضِعِهٖ 1ۚ ہے بات اگرچہ اصل حقیقت کے لحاظ سے دونوں جگہ ایک ہی ہے لیکن اس دوسرے اسلوب نے آیت کے مفہوم کونسبتاً زیادہ واضح کردیا ہے مطلب یہ ہے کہ وہ اللہ کے کلام اور اس کے احکام کا موقع ومحل اور اس کا محمل و مصداق متعین ہوجانے کے باوجود اس کو اس کے موقع و محل سے ہٹانا چاہتے ہیں جو صریح تحریف دین ہے اور یہ بات اس سے پہلے سورة بقرہ کی آیت نمبر 75 میں اور سورة النساء کی آیت 46 میں بڑی تفصیل کے ساتھ بیان کی جا چکی ہے کہ یہود اپنے صحیفوں میں جس طرح تحریف لفظی کے مرتکب ہوتے ہیں اسی طرح اس انطباقی تحریف کے بھی مرتکب ہوئے اور خصوصاً تعزیرات و حدود کے باب میں تو انہوں نے اس خنجر تحریف کو اس بےدردی کے ساتھ استعمال کیا کہ شریعت کی کوئی حدو تعذیر بھی اس سے سلامت نہ رہ سکی اور نہایت افسوس سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ تحریف کی اس قسم کے ارتکاب میں یہ امت بھی یعنی امت مسلمہ میں یہود سے کچھ پیچھے نہیں رہی۔ بلکہ آج تو جس معاملہ میں دونوں کا موازنہ کیا جائے اس میں یہود چار قدم پیچھے رہتے دکھائی دیں گے۔ ان کی یہ گمراہی کہ مطلب کی بات قبول کرلو ، باقی کا انکار کردو : 122: دنیا میں آج سے نہیں مدت سے یہ کام ہوتا چلا آرہا ہے کہ مطلب کی سن لی۔ مطلب کی دیکھ کی۔ مطلب کی کہہ لی۔ لیکن جہاں مطلب نہ ہو سنی ان سنی ، دیکھی ان دیکھی اور کہی ان کہی کردی ۔ کیوں کہ ان لوگوں کے نزدیک اپنے مطلب کے سوا کوئی چیز دنیا میں ہے ہی نہیں اس جگہ بھی ان کی اس کارستانی کا بتایا جارہا ہے کہ یہ ان منافقین کو یہ سکھا کر آپ ﷺ کے پاس بھیجتے ہیں کہ اگر تمہارے قضیے کا فیصلہ یہ ہو تو تب تو قبول کرلینا اور اگر یہ فیصلہ نہ ہو تو اس کو قبول نہ کرنا گویا اول تو وہ خود ہی تحریف کے چور دروازے سے مجرم کے لئے فرار کی راہ نکال دیتے ہیں اور اگر اس میں کچھ زحمت محسوس ہوتی ہے تو نبی اعظم و آخر ﷺ کی عدالت میں بھیج دیتے ہیں لیکن اس ہدایت کے ساتھ کہ فیصلہ حسب منشاء ہو تب تو قبول کرلینا ورنہ اس سے کترا جانا۔ اسی کو کہتے ہیں کہ ” میٹھا میٹھا ہپ ہپ اور کڑوا کڑوا تھو “ قرآن کریم کا مطلب اس ساری پردہ دری سے یہ ہے کہ جو لوگ اس طرح کے فتنہ کاروں کے ہتھے چڑھے ہوئے ہیں اور خود بھی فتنہ پسند ہیں ان کو ان کی قسمت پر چھوڑ دو اور ان کی اس حالت پر غم نہ کرو کہ جو اپنا نقصان اپنے ہاتھوں کرنا چاہتے ہیں آپ کو کیسے اس نقصان سے روک سکتے ہیں ۔ زیر نظر آیت کے اس ٹکڑے سے ان لوگوں کی مذمت نکل آئی ہے جو اہل علم کی طرف اس غرض سے رجوع نہیں کرتے کہ مسئلہ پر عمل کریں گے جو حکم ہوا مان لیں گے بلکہ اس غرض سے کرتے ہیں کہ اگر عرض کے موافق مل گیا تو اس کو اپنی بدنامی کے لئے سپر بنا لیں گے اور اسی کو کہتے ہیں ” دوسرے کے کندھے پر رکھ کر بندوق چلانا۔ “ ہدایت و ضلالت کے باب میں سنت الٰہی کیا ہے ؟ : 123: اللہ تعالیٰ نے حق و باطل اور خیر و شر میں امتیاز کی صلاحیت اور انسان کو اختیار کی نعمت دے کر اس کو دونوں طرح کے حالات سے آزمایا ہے اس کے سامنے نفس اور شیطان کی طرف سے شروباطل بھی آتا ہے اور فطرت اور خدائے رحمن کی طرف سے خیر اور حق بھی اسی طرح اس کے عقل و ارادے کا امتحان ہوتا ہے کہ وہ خیر اور حق کو اختیار کرتا ہے یا شرو باطل کو۔ سنت الٰہی یہ ہے کہ جو لوگ جانتے بوجھتے اور دیکھتے سنتے شر کو خیر پر اور باطل کو حق پر ترجیح دیتے ہیں نہ اللہ کی تنبیہات سے سبق حاصل کرتے نہ اہل حق کو نصیحتوں سے وہ آہستہ آہستہ اپنے ضمیر اور اپنے عقل و ارادے کو اس درجہ کند اور بےحس بنا لیتے ہیں کہ ان کے اندر حق کی طرف بڑھنے کا کوئی عزم و حوصلہ سر سے باقی نہیں رہ جاتا اس ہی ان کا اوڑھنا بچھونا بن جاتا ہے ان کو کتنا ہی جھنجھوڑیئے اور کتنا ہی جگایئے لیکن وہ یہ بستر چھوڑنے کا نام ہی نہیں لیتے۔ یہی وہ لوگ ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کو اس فتنہ ہی میں اوندھے پڑے چھوڑ دیتا ہے جس میں وہ پڑچکے ہوتے ہیں کیونکہ اس معاملہ میں قانون الٰہی یہی ہے کہ جو تلاش کرتا ہے اسی کو ملتا ہے۔ بلاشبہ ہر پبرمنہ نے اپنی دل سوزی اور محبت حق کی وجہ سے اپنا پورا زور لگایا کہ ان کو جگائے لیکن جب وہ نہ جاگے تو بعض اوقات اس کو یہ غم ہوا کہ مبادا ان کا یہ نہ جاگناخود اس کی کسی کوتاہی کا نتیجہ ہو اس طرح کا احساس نبی اعظم و آخر ﷺ کو بھی ہوا اس پر آپ ﷺ کو تسلی دی جا رہی ہے کہ کفر کی راہ میں ان لوگوں کی بھاگ دوڑ اس بات کا نتیجہ ہے کہ یہ سنت الٰہی کی زد میں آئے ہوئے ہیں اور جب یہ سنت الٰہی کی زد میں آچکے ہیں تو بھلا کس کے امکان میں ہے کہ ان کو باطل سے موڑ کر حق کی راہ پر گامزن کرسکے۔ مطلب واضح ہے اے پیغمبر تیرے اختیار میں کسی کی ہدایت نہیں آپ ﷺ کا کام صرف اور صرف پیغام کا پہنچانا ہے ۔ غور کیجئے کہ یہ حق کو کس طرح تسلیم کریں گے جب کہ حق کی طرف سے انہوں نے منہ موڑ رکھا ہے ۔ دلوں کی تطہیر اور ان کے تزکیہ کے لئے اللہ تعالیٰ کے ہاں ایک خاص ضابطہ ہے جو لوگ نیکی اور تقویٰ کی راہ پر چلتے ہیں اگر اثنائے راہ میں ان کو کوئی ٹھوکر لگ جاتی ہے تو وہ گر پڑتے ہیں لیکن گرنے کے بعد پھر اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور توبہ واصلاح کے ذریعے سے دامن جھاڑ کر پھر چل کھڑے ہوتے ہیں تو خواہ ہزار بار گریں اور انھیں لیکن ان کے دامن دل پر میل جمنے نہیں پاتا۔ اللہ تعالیٰ ان کی توبہ و اصلاح کو ان کے لئے کفارہ سیئات بناتا رہتا ہے لیکن جو لوگ برائی اور نافرمانی ہی کو اپنا پیشہ بنا لیتے ہیں اور گناہوں ہی کی کیچڑ میں لت پت رہنے میں لذت و راحت محسوس کرتے ہیں آہستہ آہستہ ان کے دلوں پر اتنی سیاہی جم جاتی ہے کہ ان پر کوئی صیقل بھی کارگر نہیں ہوتا پھر اللہ تعالیٰ انہیں جہنم کی بھٹی ہی کے لئے چھوڑ دیتا ہے کیونکہ یہی اس کا قانون ہے اور اس کو اللہ کی چاہت سے بیان کیا جاتا ہے اور یہی اس جگہ بیان کیا گیا ہے اور یہی اللہ کا چاہنا ہے۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے دنیا میں رسوائی ہے اور آخرت میں بہت بڑا عذاب ہے : 124: عذاب آخرت کا ظہور تو آخرت ہی میں ہوگا اور یقینا ہوگا کہ اللہ کا کہنا ہمیشہ سچ ہی ہوتا ہے لیکن دنیا کے عذاب اور شرمندگی کا ظہور تو اس شددمد سے چند ہی روز کے اندر ہو کر رہا کہ دوست و دشمن سب نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا کہ منافقوں میں سے نفاق ایک ایک کا ظاہر ہو کر رہا سب کے سب سوسائٹی میں حقیر و ذلیل ہوئے رہے یہود تو ان کے بڑے سے بڑے پر قوت قبیلہ بنو نضیر ، بنو قریظہ اور بنوقینقاع سب کے سب قید ہوئے ، جلا وطن ہوئے اور قتل ہوئے اور اس طرح ان کی دنیا میں رسوائی ہوئی۔ اس طرح اس جگہ یہ بات بھی واضح کردی کہ اے امت محمد آگاہ رہنا کہ تم بھی پچھلی امتوں کی طرح خدا کے میثاق سے فرار اختیار کرنے والے نہ بن جانا بلکہ ہر حالت میں اس پر قائم و استوار رہنا ورنہ جس طرح ان کے لئے دنیا کی رسوائی اور آخرت کا عذاب عظیم ہے اسی طرح تم بھی اس کے مستحق ٹھہرو گے۔ اللہ کا قانون سب کے لئے یکساں اور بےلاگ ہے۔
Top