Kashf-ur-Rahman - Al-Maaida : 41
یٰۤاَیُّهَا الرَّسُوْلُ لَا یَحْزُنْكَ الَّذِیْنَ یُسَارِعُوْنَ فِی الْكُفْرِ مِنَ الَّذِیْنَ قَالُوْۤا اٰمَنَّا بِاَفْوَاهِهِمْ وَ لَمْ تُؤْمِنْ قُلُوْبُهُمْ١ۛۚ وَ مِنَ الَّذِیْنَ هَادُوْا١ۛۚ سَمّٰعُوْنَ لِلْكَذِبِ سَمّٰعُوْنَ لِقَوْمٍ اٰخَرِیْنَ١ۙ لَمْ یَاْتُوْكَ١ؕ یُحَرِّفُوْنَ الْكَلِمَ مِنْۢ بَعْدِ مَوَاضِعِهٖ١ۚ یَقُوْلُوْنَ اِنْ اُوْتِیْتُمْ هٰذَا فَخُذُوْهُ وَ اِنْ لَّمْ تُؤْتَوْهُ فَاحْذَرُوْا١ؕ وَ مَنْ یُّرِدِ اللّٰهُ فِتْنَتَهٗ فَلَنْ تَمْلِكَ لَهٗ مِنَ اللّٰهِ شَیْئًا١ؕ اُولٰٓئِكَ الَّذِیْنَ لَمْ یُرِدِ اللّٰهُ اَنْ یُّطَهِّرَ قُلُوْبَهُمْ١ؕ لَهُمْ فِی الدُّنْیَا خِزْیٌ١ۖۚ وَّ لَهُمْ فِی الْاٰخِرَةِ عَذَابٌ عَظِیْمٌ
يٰٓاَيُّھَا : اے الرَّسُوْلُ : رسول لَا يَحْزُنْكَ : آپ کو غمگین نہ کریں الَّذِيْنَ : جو لوگ يُسَارِعُوْنَ : جلدی کرتے ہیں فِي : میں الْكُفْرِ : کفر مِنَ : سے الَّذِيْنَ : جو لوگ قَالُوْٓا : انہوں نے کہا اٰمَنَّا : ہم ایمان لائے بِاَفْوَاهِهِمْ : اپنے منہ سے (جمع) وَ : اور لَمْ تُؤْمِنْ : مومن نہیں قُلُوْبُهُمْ : ان کے دل وَمِنَ : اور سے الَّذِيْنَ هَادُوْا : وہ لوگ جو یہودی ہوئے سَمّٰعُوْنَ : جاسوسی کرتے ہیں لِلْكَذِبِ : جھوٹ کے لیے سَمّٰعُوْنَ : وہ جاسوس ہیں لِقَوْمٍ : جماعت کے لیے اٰخَرِيْنَ : دوسری لَمْ يَاْتُوْكَ : وہ آپ تک نہیں آئے يُحَرِّفُوْنَ : وہ پھیر دیتے ہیں الْكَلِمَ : کلام مِنْۢ بَعْدِ : بعد مَوَاضِعِهٖ : اس کے ٹھکانے يَقُوْلُوْنَ : کہتے ہیں اِنْ اُوْتِيْتُمْ : اگر تمہیں دیا جائے هٰذَا : یہ فَخُذُوْهُ : اس کو قبول کرلو وَاِنْ : اور اگر لَّمْ تُؤْتَوْهُ : یہ تمہیں نہ دیا جائے فَاحْذَرُوْا : تو اس سے بچو وَمَنْ : اور جو۔ جس يُّرِدِ اللّٰهُ : اللہ چاہے فِتْنَتَهٗ : گمراہ کرنا فَلَنْ تَمْلِكَ : تو ہرگز نہ آسکے گا لَهٗ : اس کے لیے مِنَ : سے اللّٰهِ : اللہ شَيْئًا : کچھ اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو لَمْ يُرِدِ : نہیں چاہا اللّٰهُ : اللہ اَنْ : کہ يُّطَهِّرَ : پاک کرے قُلُوْبَهُمْ : ان کے دل لَهُمْ : ان کے لیے فِي الدُّنْيَا : دنیا میں خِزْيٌ : رسوائی وَّلَهُمْ : اور ان کے لیے فِي : میں الْاٰخِرَةِ : آخرت عَذَابٌ : عذاب عَظِيْمٌ : بڑا
اے پیغمبر آپ کو وہ لوگ جو کفر میں جلدی سے جا گرتے ہیں غم گین نہ کریں خواہ یہ لوگ ان میں سے ہوں جو اپنے منہ سے تو یوں کہتے ہیں کہ ہم ایمان لانے اور ان کی حالت یہ ہے کہ ان کے دل ایمان نہیں لائے اور خواہ وہ ان لوگوں میں سے ہوں جو یہودی ہیں یہ لوگ جھوٹی باتیں سننے کے بڑے عادی ہیں یہ کان لگا کر آپ کی باتیں ان دوسرے لوگوں کی جاسوسی کے لئے سنتے ہیں جنہوں نے آپ تک آنا بھی گوارہ نہیں کیا وہ لوگ کلام کو باوجود اس کے صحیح موقعہ پر ہونے کے بدل دیتے ہیں وہ اپنے جاسوسوں سے یہ کہہ دیتے ہیں کہ اگر تم کو ہمارے اس حکم کے موافق کوئی حکم ملے تو قبول کرلینا اور اگر ایسا حکم نہ ملے تو بچ نکلنا2 اور جس شخص کو اللہ ہی فتنہ میں مبتلا کرنا چاہے تو اس کے لئے اللہ کے سامنے آپ کا کچھ زور نہیں چل سکتا۔ یہی وہ لوگ ہیں جس کے دلوں کو پاک کرنے کا اللہ نے ارادہ نہیں کیا دنیا میں ان لوگوں کے لئے بڑی رسوائی ہے اور ان کے لئے آخرت میں بڑا عذاب ہے۔3
2 اے رسول وہ لوگ جو کفر کی باتوں میں جلدی سے جاگرتے ہیں اور دوڑ دوڑ کر کفر کی باتوں میں گرتے ہیں یہ لوگ آپ کو متاسف اور غمگین نہ کریں یعنی آپ ان کی حرکات سے متاثر نہ ہوں خواہ یہ لوگ ان میں سے ہوں جو اپنے منہ سے اور اپنی زبانوں سے تویوں کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے حالانکہ ان کے دل ایمان نہیں لائے …… اور خواہ یہ لوگ ان میں سے ہوں جو یہودی ہیں یہ لوگ جھوٹی اور غلط باتیں سننے کے عادی ہیں یہ آپ کی باتیں دوسرے لوگوں تک پہنچانے کو خوب کان لگا کر سنتے ہیں وہ دوسرے لوگ وہ ہیں جنہوں نے خود آپ کی خدمت میں حاضر ہونا گوارہ نہیں کیا اور خود آپ تک نہیں آئے۔ ان دوسرے لوگوں کی حالت یہ ہے کہ یہ کلام الٰہی کو باوجود اس کے صحیح موقعہ پر ہونے کے اس کو اپنے موقعہ سے بدل دیتے ہیں اور جو اس کلام الٰہی کے مواقع ہوتے ہیں ان میں تحریف و تبدیل کرتے رہتے ہیں یہ لوگ ان جاسوسوں کو یہ کہہ کر بھیجتے ہیں کہ اگر تم کو اس پیغمبر کے ہاں ہمارے اس تبدیل کردہ حکم کے موافق کوئی حکم ملے تو اس کو لے لینا اور قبول کرلینا اور اگر تم کو اس حکم کے موافق حکم نہ ملے تو اس سے بچ نکلنا اور اس کے قبول کرنے میں احتیاط برتنا۔ (تیسیر) یہ بات ہم کئی دفعہ عرض کرچکے ہیں کہ اہل کتاب کے اکثر علماء اپنی کتابوں میں تحریف اور تبدیل کے عادی تھے خواہ یہ تحریف لفظی ہو۔ جیسا کہ بعض علماء مفسرین کا خیال ہے یا یہ تحریف معنوی ہو۔ جیسا کہ جر الامتہ حضرت عبداللہ بن عباس کی رائے ہے اور اسی کو ترجمان القرآن حضرت مولانا شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی نے الفوز الکبیر میں اختیار کیا ہے۔ بہرحال ! یہود کے علماء اس میں خاص امتیاز رکھتے تھے اور بعض دفعہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں اس قسم کے مباحثے بھی ہوئے اور دربار رسالت میں توریت منگا کر یہ مطالبہ بھی کیا گیا کہ اس میں یہ بات دکھائو اور یہود قائل بھی ہوئے جب تک نبی آخر الزمان ﷺ نہیں لائے تھے یہ لوگ عام طور پر اس قسم کی حرکات کرتے تھے اور مسائل میں تبدیل و تحریف کیا کرتے تھے مگر شریعت محمدیہ کے بعد بعض مواقع پر ان کی خواہش یہ ہوتی تھی کہ ہمارے تحریف کردہ حکم کی نبی آخر الزمان حضرت محمد ﷺ بھی موافقت کردیں تو ہم کو گنجائش ہوجائے اور ایک سند مل جائے اور ہم یہ کہہ سکیں کہ ہمارے اس حکم سے حضور ﷺ بھی اتفاق کرتے ہیں اور بعض موقعہ پر ایسا بھی ہوتا تھا کہ کسی جھگڑے میں لوگوں کی یہ خواہش ہوتی تھی کہ بجائے اپنے علماء کے نبی کریم ﷺ سے فیصلہ کرائیں اور یہ بات عام طور سے فریقین میں ہوا کرتی ہے کہ جہاں ان کو کامیابی کی امید ہوتی ہے وہ اس طرف رجوع کیا کرتے ہیں نیز لوگوں کو اس امر کا یقین تھا کہ حضور ﷺ ہر مقدمہ میں انصاف کرتے ہیں خواہ معاملہ کسی اپنے کا ہو یا پرائے کا مگر آپ ہمیشہ اصناف سے کام لیتے ہیں اس لئے یہود اپنے آدمیوں کو کبھی فریقین کو یہ سمجھا کر بھیجتے کہ جائو اس نبی سے فیصلہ کرا لو مگر دیکھو اگر وہ ہمارے اس مسئلے کی تائید کریں جو ہم نے بتایا ہے تب تو مان لینا اور اگر ہمارے بتائے ہوئے حکم کے خلاف کوئی فیصلہ دیں تو اس کو قبول کرنے سے احتیاط کرنا اور بچ جانا۔ ان آیات کا تعلق بھی کسی ایسے ہی واقعہ سے ہے اور چونکہ اس قسم کے واقعات میں یہودی منافقوں کو بھی استعمال کرتے تھے اس لئے قرآن کریم نے منافقوں کو بھی شامل کردیا ہے۔ شان نزول کی روایات سے بھی اس قسم کا واقعہ معلوم ہوتا ہے بغوی نے کہا ہے کہ بنی نفیر اور بنی قریظہ کی قدیم دشمنی تھی کسی موقعہ پر بنی نظیر نے بنی قریظہ کو دبا کر ان سے ایک معاہدہ کرلیا تھا کہ اگر بنی نضیر کا کوئی آدمی تم قتل کردو گے تو تم سے قصاص لیا جائے گا اور بنی قریظہ کا کوئی آدمی ہمارے ہاتھ سے مارا جائے گا تو ہم سترد سق کھجوروں کے دیت کے طور پر ادا کریں گے اور تم کو دگنی یعنی ایک سو چالیس دسق ادا کرنے ہوں گے اگر بنو قریظ کسی ایک شخص کو قتل کریں گے تو وہ شخصوں کو قصاص میں قتل کیا جائے گا اور عورت کے بدلے میں مرد کو قتل کیا جائے گا اور غلام کے بدلے میں آزاد کو قتل کیا جائے گا۔ نبی کریم ﷺ کے عہد میں بنو قریظہ نے اس معاہدہ کے خلاف سوال اٹھایا اور یہ اعتراض کیا کہ بنو نضیر ہمارے بھائی اور ہمارے ہم ملت ہیں پھر اس ترجیحی سلوک کی وجہ کیا ہے کہ ہمارے مقتول کا قصاص نہ لیا جائے اور ان کے مقتول کا قصاص لیا جائے یہ جھگڑا ایک قتل کے بارے میں شروع ہوا بنی نضیر معاہدے کی بنا پر دستر وسق دینا چاہتے تھے اور بنو قریظہ زیادہ خوں بہا کا مطالبہ کرتے تھے۔ اس پر مقتول کے فریق نے نبی کریم ﷺ سے فیصلہ کرانے کی درخواست کی۔ دوسرا فریق جو قاتل تھا وہ یہ جانتا تھا کہ آپ انصاف کریں گے اس لئے اس فریق نے درخواست منظور کرنے سے قبل چند منافقوں کو حضور ﷺ کی خدمت میں بھیجا کہ وہ اپنے طور پر حضور ﷺ سے تذکرہ کر کے آپ کا مسلک معلوم کریں اگر آپ کا فیصلہ ہمارے معاہدے کے موافق ہو تو ہم فریق مقتول کی درخواست قبول کرلیں گے ورنہ حضور ﷺ نے فیصلہ کرانے کی درخواست مسترد کردیں گے۔ چنانچہ یہ منافق اس تجسس اور تلاش کی غرض سے آپ کے پاس آئی تھے کہ دیکھیں حضور ﷺ کی رائے اس معاملہ میں کیا ہے اس پر آیتیں نازل ہوئیں۔ ابن کثیر کی رائے یہ ہے کہ ان آیتوں کا تعلق رجم سے ہے کیونکہ یہود نے ایک طریقہ اختیار کر رکھا تھا کہ جب کوئی بڑا آدمی زنا کا مرتکب ہوتا تو اس کو معمولی تعزیر کردیا کرتے کچھ کوڑے مار دیتے اس کا منہ کالا کر کے گدھے پر سوار کرتے اور شہر میں پھرا دیتے۔ اتفاق سے ہیود میں ایک اسی قسم کا واقعہ پیش آیا اور ایک شادی شدہ مرد و عورت نے زنا کا ارتکاب کیا تو ریت کے قاعدے سے ان دونوں کو سنگسار کرنا تھا لیکن ان دونوں کی ریاست اور دولت اس حد کے جاری کرنے سے مانع تھی آپس میں یہ مشورہ ہوا کہ بنو قریظہ میں سے کچھ لوگوں کو اس یثرب والے نبی کے پاس بھیجو کیونکہ یہ بنو قریظہ اس نبی کے ہمسایہ اور معاہد ہیں اور ان سے کہہ دو کہ اگر وہ کوڑے مارنے کی سزا دیں تو قبول کرلینا اور اگر سنگسار کرنے کو کہیں تو قبول نہ کرنا۔ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا اس پر یہ آیتیں نازل ہوئیں بعض اور روایتیں بھی مفسرین نے اس بارے میں نقل کی ہیں اور ابن کثیر نے ان سب کو جمع کردیا ہے ابن صوریا کا وہ واقعہ جو ہم آل عمران میں ذکر کرچکے ہیں اور حضور ﷺ کا یہود کے ایک مدرسہ میں تشریف لے جانا اور وہاں ابن صوریا کو قسم دے کر شادی شدہ زنا کاروں کا حکم دریافت کرنا یہ سب روایات مفسرین نے اس موقع پر ذکر کی ہیں۔ بہرحال ! ہم خلاصہ اوپر عرض کرچکے ہیں کہ اسی قسم کا کوئی واقعہ ہے جس میں حضور ﷺ کی رائے معلوم کرنے کی غرض سے کچھ منافقوں کو بھیجا اور فیصلہ کرانے والوں سے یہ کہہ دیا کہ جو حکم ہم بیان کرتے ہیں اس کے موافق یہ نبی فیصلہ کرے تو ماننا ورنہ چلے آنا۔ سماعون کے معنی ہیں خوب کان لگا کر سننے والے قوم اخرین سے وہ لوگ مراد ہیں جو اپنے کبر کی وجہ سے خود تو دربار رسالت میں حاضر نہ ہوتے تھے اور اپنے جاسوسوں کو ہدایت کر کے بھیجتے تھے کان لگا کر سننے کا بعض مفسرین نے یہ مطلب بھی بیان کیا ہے کہ قبول کرنے اور بات کو ماننے کے لئے کان لگا کر سنتے ہیں اگر یہ معنی لئے جائیں تو مطلب یہ ہوگا کہ جھوٹی باتوں اور غلط احکام کو خوب کان لگا کر سنتے ہیں اور دوسری قوم یعنی اپنے رئوسا اور علماء کی باتیں خوب جی لگا کر سنتے اور قبول کرتے ہیں۔ بعض حضرات نے سماعون اللکذب کا یہ مطلب بھی بیان کیا ہے کہ جھوٹ بولنے کو کان لگا کر سنتے ہیں یعنی کان لگا کر سننے کی غرض یہ ہوتی ہے کہ حضور کے کالم میں جھوٹ اور کذب ملا کر نقل کریں۔ (واللہ اعلم) چونکہ ہم نے پہلا قول اختیار کیا ہے اس لئے اس تقدیر پر ہمارے ترجمہ کا خلاصہ یہ ہے اے پیغمبر آپ کو وہ لوگ جو کفر کی باتوں میں دوڑ کر جاگرتے ہیں اور دل کی رغبت سے ان کفریہ امور کو کرتے ہیں یہ لوگ آپ کو متاسف اور آزر دہ خاطر نہ کریں خواہ یہ منافقین میں سے ہوں جو ایمان کے بظاہر مدعی ہیں اور ان کے قلوب ایمان سے محروم ہیں اور خواہ یہ لوگ یہودیوں میں سے ہوں۔ یہ لوگ جھوٹی باتوں اور غلط مسائل کو سننے کے عادی ہیں۔ یہود تو اس بنا پر کہ ان کے علماء کام یہی کرتے ہیں اور منافقین اس لئے کہ ان سے گھلے ملے رہتے ہیں اور ان کی تحریفات کی تائید کرتے ہیں اور جس جھوٹ کو یہ سنتے رہتے ہیں اور جن غلط احکام کو سننے کے یہ پہلے سے عادی ہیں ان ہی کو تلاش کرنے اور انہی کا تجسس کرنے کی غرض سے آپ کی باتیں بھی خوب کان لگا کر سنتے ہیں اور یہ ان کا کان لگا کر سننا دوسری قوم کی خاطر سے ہوتا ہے کہ آپ سے سنیں اور ان کی پہنچائیں ان دوسرے لوگوں کی حالت یہ ہے کہ وہ اپنے تکبر اور عناد کی وجہ سے خود آپ کی خدمت میں حاضر تک نہ ہوئے اور انہوں نے یہ گوارہ نہ کیا کہ تحقیق حق کی غرض سے خود آپ تک آئیں بلکہ اپنے جاسوسوں کو بھیجا اور وہ بھی طلب حق کے لئے نہیں بلکہ محض اس لئے کہ شاید کسی تحریف شدہ حکم کی آپ سے تائید حاصل کرلیں نیز ان کی حالت یہ ہے کہ کلام الٰہی کو باوجود اس کے کہ وہ کلام اپنے مواقع کے مناسب ہوتا ہے اور توریت کا وہ کلام اپنے موقعہ کے لحاظ سے صحیح ہوتا ہے اس میں لفظاً یا معنی تغیر و تبدل کرتے رہتے ہیں جیسا کہ خون بہا اور رجم کے حکم کو بدلا اور اپنے تحریف کردہ حکم کی تائید کے لئے جاسوسوں کو بھیجا۔ نیز بھیجا بھی تو یہ کہہ کر بھیجا کہ اگر تم کو ہمارے اس تبدیل کردہ حکم کے موافق اس یثرب کے نبی ﷺ کا حکم ملیتو مان لینا اور اگر ہمارے تبدیل کردہ حکم کے مطابق حکم نہ ملے تو اس سے بچ نکلنا یعنی اس پر عمل کرنے کی ذمہ داری نہ لینا اور کوئی اقرار نہ کرنا۔ غرض خود اپنے تکبر اور بڑائی کی وجہ سے آئیں نہیں بلکہ اپنی تحریف کردہ باتوں کی تائید حاصل کرنے کی غرض سے جاسوس بھیجیں پھر چلتے وقت ان سے یہ بھی کہہ دیں کہ دیکھو ہمارے حکم کے موافق حکم ہو تو اس کو قبول کرلینا اور اگر خلاف ہو تو زبان نہ دینا اور اس کے ماننے کی ہاں نہ کرنا کیونکہ فیصلہ تو بہرحال یہاں ہی ہوگا تم کو صرف یہ معلوم کرنے کی غرض سے بھیجا جاتا ہے کہ ذرا ان سے باتیں کر کے یہ معلوم کرلو کہ ہماری بات کی تائید کرتے ہیں یا نہیں اب آگے اس قسم کے لوگوں کی مذمت اور ان کا افسوسناک انجام مذکور ہے۔ (تسہیل) 3 اور جس شخص کو اللہ تعالیٰ ہی فتنے اور گمراہی میں مبتلا کرنا چاہے تو اس کے لئے اللہ تعالیٰ کے سامنے آپ کا کچھ زور نہیں چل سکتا کہ آپ اس گمراہی کو روک دیں یہی وہ لوگ ہیں کہ جن کے قلوب کو اللہ تعالیٰ نے پاک کرنے کا ارادہ نہیں کیا اور ان کے دلوں کو عقائد کفر یہ سے پاک کرنا اسے منظور نہیں ہوا۔ ان لوگوں کے لئے دنیا میں بڑی رسوائی ہے اور آخرت میں ان کے لئے بڑا عذاب ہے۔ (تیسیر) فتنے سے مردا گمراہی ہے اور ہوسکتا ہے کہ ہلاک کرنا یا عذاب کرنا مراد ہ۔ اللہ تعالیٰ کے ارادے کا مطلب وہی ہے جو ہم کئی بار عرض کرچکے ہیں یعنی جب بندہ گمراہی کا عزم کرلیتا ہے تو وہ گمراہی کی تخلیق فرما دیتا ہے اسی تخلیق کو حضرت حق نے یہاں ان الفاظ سے ذکر کیا ہے فلن تملک میں خطاب نبی کریم ﷺ سے ہے یا ہوسکتا ہے کہ عام مخاطب کو خطاب ہو اولئک الذین لم یرد اللہ کا مطلب بھی یہی ہے کہ چونکہ اپنے قلوب کو پاک کرنے کا عزم نہیں کرتے اس لئے تطہیر کو خلق نہیں فرماتا اور یہ کسی انسان کی انتہائی بدنصیبی اور محرومی ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اس بدبخت کا گمراہی میں مبتلا کرنا منظور ہو اور اس کے دل کی تطہیر منظور نہ ہو اور یہ وہ حالت ہے جو مسلسل جرائم اور مسلسل بد پر ہیزیوں کی وجہ سے پیدا ہوجاتی ہے۔ العباذ بااللہ حضرت شاہ صاحب فرمایت ہیں بعضے منافق تھے کہ دل میں یہود سے ملتے تھے اور بعضے یہود تھے کہ حضرت کے پاس آمد و رفت کرتے تھے اللہ نے فرمایا کہ یہ لوگ جاسوسی کو آتے ہیں کہ تمہارے دین میں کچھ عیب چن کرلے جاویں اپنے سرداروں پاس جو یہاں نہیں آتے اور فی الحقیقت عیب کہاں ہے لیکن بات کو غلط تقریر کر کے ہز کو عیب کرتے ہیں ۔ (موضح القرآن) فائدہ۔ یہود میں کئی قصے ہوئے کہ اپنے قضا یا حضرت پاس لاتے فیصلے کو وہ سردار یہود آپ نہ آتے بیچ والوں کے ہاتھ بھیجتے اور کہہ دیتے کہ ہمارے معمول کے موافق حکم کریں تو قبول رکھو نہیں تو نہ رکھو۔ غرض ! یہ تھی کہ حکم توریت کے خلاف معمول باندھے تھے ایک نبی اگر اس کے موافق حکم کر دے تو ہم کو اللہ کے ہاں سند ہوجائے اور جانتے تھے کہ ان کو توریت کی خبر نہیں جو ہمارا معمول سنیں گے سو حکم کریں گے اللہ تعالیٰ حضرت کو خبردار کیا موافق توریت ہی کے حکم فرمایا اور توریت میں سے ثابت کر کے ان کو قائل کیا۔ ایک قصہ رجم کا تھا کہ وہ منکر ہوئے تھے پھر توریت سے قائل کیا اور ایک قصاص کا تھا کہ وہ اشراف اور کم ذات کا فرق کرتے تھے اور توریت میں فرق نہیں رکا۔ (موضح القرآن) حضرت شاہ صاحب نے پہلا فائدہ لم یاتوک پر لکھا اور دوسرا عظیم پر ارشاد فرمایا ہے ہم تسہیل میں عرض کرچکے ہیں کہ شان نزول میں کئی روایتیں ہیں ہوسکتا ہے کہ آیت کے پہلے حصہ میں جاسوسوں کی اطلاع دی ہو اور دوسرے حصے میں فتویٰ دریافت کرنے والوں کا ذکر ہو ہم نے پوری آیت کا جو خلاصہ عرض کیا ہے وہ کسی دوسرے مطلب کے منافی نہیں ہے ہمارا مطلب صرف اس قدر ہے کہ اس آیت میں ان لوگوں کا ذکر ہے جو اس مقصد کے لئے بھیجے جاتے تھے کہ یہ معلوم کر آئو کہ ہم نے جو کلام الٰہی میں تحریف کی ہے اور اس کے موافق جو فیصلے کرنے چاہتے ہیں جیسے اشراف اور کمینے میں فرق یا بنی نضیر اور بنی قریظہ کی دیت کا فرق ہمارے اس فیصلے اور ہماری اس تحریف کے متعلق یہ شخص کیا رائے رکھتا ہے اور ہمارے مسئلے سے موافقت رکھتا ہے یا مخالفت۔ اسی بنا پر ہم نے تیسیر اور تسہیل میں اس کو واضح کیا ہے البتہ ابن عمر سے ایک روایت ہے کہ یہود نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے ایک زانی اور زانیہ کا واقعہ آپ کی خدمت میں پیش کیا آپ نے فرمایا کہ توریت میں اس کے متعلق تم کیا حکم پاتے ہو انہوں نے کہا ہمارے یہاں تو یہی حکم ہے کہ ہم ان کو رسوا کریں اور کوڑے مار دیں اس پر کچھ بحث مباحثہ شروع ہوگیا۔ اس وقت عبداللہ بن سلام بھی مجلس میں تشریف رکھتے تھے۔ انہوں نے فرمایا یہ یہود جھوٹ بولتے ہیں توریت میں تو رجم کا حکم ہے چناچہ نبی کریم ﷺ نے حکم دیا اور دونوں کو رجم کردیا گیا۔ حضرت جابر بن عبداللہ سے ایک رویات مسند احمد میں مقنول ہے کہ اہل فدک کے یہود میں سے کسی شخص نے زنا کا ارتکاب کیا تھا اس پر فدک کے یہود نے مدینہ کے یہود کو لکھا کہ محمد ﷺ سے دریافت کرو اگر وہ کوڑے مارنے کا حکم کریں تو مان لینا اگر سنگسار کرنے کا حکم کریں تو نہ ماننا روایت کا باقی حصہ وہی ہے جو اوپر کی روایت میں بیان ہوا اس روایت کی بنا پر بعض حضرات نے ان اوتیتم فخذوہ کا ترجمہ وہ کیا ہے کہ اگر یہ یثرب کا نبی وہی فیصلہ کرے جو ہم بتاتے ہیں تو اس پر عمل کرلینا اور اس کی تعمیل کرنا۔ (واللہ اعلم) بہرحال ! ہم عرض کرچکے ہیں کہ شان نزول کی مختلف روایات کی بنا پر مفسرین کے مطلب میں فرق ہوگیا ہے۔ پھر بھی ہم نے ترجمہ میں ایسے الفاظ رکھے ہیں جو کسی قول کے منافی نہیں ہیں اب آگے فیصلے کا ایک ضابطہ بیان ہوتا ہے اور چونکہ اوپر دو قسم کے لوگوں کا ذکر ہوا تھا ایک عوام جو جاسوسی کی خدمت انجام دیتے تھے اور دوسرے خواص جو خود نہیں آتے تھے اور گھر بیٹھے بیٹھے مسائل محرفہ کا پتہ لگاتے تھے اور چاہتے تھے کہ ہمارے تحریف شدہ کلام کی تائید ہوجائے تو ہم کو کہنے کی گنجائش ہو اس لئے ان دونوں عوام اور خواص کے ذکر کو مکرر لوٹا گیا ہے مگر اسی طرح کہ عوام کو تو بعینہ اس صفت کا اظہار کیا ہے جو اوپر مذکور ہوچکی ہے مگر خواص یعنی علماء یہود کا ایک دوسرا وصف بیان فرمایا ہے جو تحریف کی علت اور سبب کے قائمقام بھی ہے چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔ (تسہیل)
Top