Tafheem-ul-Quran - Al-Maaida : 41
یٰۤاَیُّهَا الرَّسُوْلُ لَا یَحْزُنْكَ الَّذِیْنَ یُسَارِعُوْنَ فِی الْكُفْرِ مِنَ الَّذِیْنَ قَالُوْۤا اٰمَنَّا بِاَفْوَاهِهِمْ وَ لَمْ تُؤْمِنْ قُلُوْبُهُمْ١ۛۚ وَ مِنَ الَّذِیْنَ هَادُوْا١ۛۚ سَمّٰعُوْنَ لِلْكَذِبِ سَمّٰعُوْنَ لِقَوْمٍ اٰخَرِیْنَ١ۙ لَمْ یَاْتُوْكَ١ؕ یُحَرِّفُوْنَ الْكَلِمَ مِنْۢ بَعْدِ مَوَاضِعِهٖ١ۚ یَقُوْلُوْنَ اِنْ اُوْتِیْتُمْ هٰذَا فَخُذُوْهُ وَ اِنْ لَّمْ تُؤْتَوْهُ فَاحْذَرُوْا١ؕ وَ مَنْ یُّرِدِ اللّٰهُ فِتْنَتَهٗ فَلَنْ تَمْلِكَ لَهٗ مِنَ اللّٰهِ شَیْئًا١ؕ اُولٰٓئِكَ الَّذِیْنَ لَمْ یُرِدِ اللّٰهُ اَنْ یُّطَهِّرَ قُلُوْبَهُمْ١ؕ لَهُمْ فِی الدُّنْیَا خِزْیٌ١ۖۚ وَّ لَهُمْ فِی الْاٰخِرَةِ عَذَابٌ عَظِیْمٌ
يٰٓاَيُّھَا : اے الرَّسُوْلُ : رسول لَا يَحْزُنْكَ : آپ کو غمگین نہ کریں الَّذِيْنَ : جو لوگ يُسَارِعُوْنَ : جلدی کرتے ہیں فِي : میں الْكُفْرِ : کفر مِنَ : سے الَّذِيْنَ : جو لوگ قَالُوْٓا : انہوں نے کہا اٰمَنَّا : ہم ایمان لائے بِاَفْوَاهِهِمْ : اپنے منہ سے (جمع) وَ : اور لَمْ تُؤْمِنْ : مومن نہیں قُلُوْبُهُمْ : ان کے دل وَمِنَ : اور سے الَّذِيْنَ هَادُوْا : وہ لوگ جو یہودی ہوئے سَمّٰعُوْنَ : جاسوسی کرتے ہیں لِلْكَذِبِ : جھوٹ کے لیے سَمّٰعُوْنَ : وہ جاسوس ہیں لِقَوْمٍ : جماعت کے لیے اٰخَرِيْنَ : دوسری لَمْ يَاْتُوْكَ : وہ آپ تک نہیں آئے يُحَرِّفُوْنَ : وہ پھیر دیتے ہیں الْكَلِمَ : کلام مِنْۢ بَعْدِ : بعد مَوَاضِعِهٖ : اس کے ٹھکانے يَقُوْلُوْنَ : کہتے ہیں اِنْ اُوْتِيْتُمْ : اگر تمہیں دیا جائے هٰذَا : یہ فَخُذُوْهُ : اس کو قبول کرلو وَاِنْ : اور اگر لَّمْ تُؤْتَوْهُ : یہ تمہیں نہ دیا جائے فَاحْذَرُوْا : تو اس سے بچو وَمَنْ : اور جو۔ جس يُّرِدِ اللّٰهُ : اللہ چاہے فِتْنَتَهٗ : گمراہ کرنا فَلَنْ تَمْلِكَ : تو ہرگز نہ آسکے گا لَهٗ : اس کے لیے مِنَ : سے اللّٰهِ : اللہ شَيْئًا : کچھ اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو لَمْ يُرِدِ : نہیں چاہا اللّٰهُ : اللہ اَنْ : کہ يُّطَهِّرَ : پاک کرے قُلُوْبَهُمْ : ان کے دل لَهُمْ : ان کے لیے فِي الدُّنْيَا : دنیا میں خِزْيٌ : رسوائی وَّلَهُمْ : اور ان کے لیے فِي : میں الْاٰخِرَةِ : آخرت عَذَابٌ : عذاب عَظِيْمٌ : بڑا
اے پیغمبرؐ ! تمہارے لیے باعث رنج نہ ہوں وہ لوگ جو کفر کی راہ میں بڑی تیزگامی دکھا رہے ہیں۔62 خواہ وہ اُن میں سے ہوں جو منّہ سے کہتے ہیں، ہم ایمان لائے مگر دل اُن کے ایمان نہیں لائے، یا اُن میں سے ہوں جو یہودی بن گئے ہیں، جن کا حال یہ ہے کہ جُھوٹ کے لیے کان لگاتے ہیں،63 اور دُوسرے لوگوں کی خاطر، جو تمہارے پاس کبھی نہیں آئے، سُن گُن لیتے پھرتے ہیں،64 کتاب اللہ کے الفاظ کو اُن کا صحیح محل متعیّن ہونے کے باوجود اصل معنی سے پھیرتے ہیں،65 اور لوگوں سے کہتے ہیں کہ اگر تمہیں یہ حکم دیا جائے تو مانو، نہیں تو نہ مانو۔66 جسے اللہ ہی نے فتنہ میں ڈالنے کا ارادہ کرلیاہو اس کو اللہ کی گرفت سے بچانے کے لیے تم کچھ نہیں کرسکتے،67یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں کو اللہ نے پاک کرنا نہ چاہا،68 ان کے لیے دُنیا میں رُسوائی ہے اور آخرت میں سخت سزا
سورة الْمَآىِٕدَة 62 یعنی جن کی ذہانتیں اور سرگرمیاں ساری کی ساری اس کوشش میں صرف ہو رہی ہیں کہ جاہلیت کی جو حالت پہلے سے چلی آرہی ہے وہی برقرار رہے اور اسلام کی یہ اصلاحی دعوت اس بگاڑ کو درست کرنے میں کامیاب نہ ہونے پائے۔ یہ لوگ تمام اخلاقی بندشوں سے آزاد ہو کر نبی ﷺ کے خلاف ہر قسم کی رکیک سے رکیک چالیں چل رہے تھے۔ جان بوجھ کر حق نگل رہے تھے۔ نہایت بےباکی و جسارت کے ساتھ جھوٹ، فریب، دغا اور مکر کے ہتھیاروں سے اس پاک انسان کے کام کو شکست دینے کی کوشش کر رہے تھے جو کام بےغرضی کے ساتھ سراسر خیر خواہی کی بنا پر عام انسانوں کی اور خود ان کی فلاح و بہبود کے لیے شب و روز محنت کر رہا تھا۔ ان کی ان حرکات کو دیکھ دیکھ کر نبی ﷺ کا دل کڑھتا تھا، اور یہ کڑھنا بالکل فطری امر تھا۔ جب کسی پاکیزہ انسان کو پست اخلاق لوگوں سے سابقہ پیش آتا ہے اور وہ محض اپنی جہالت اور خود غرضی و تنگ نظری کی بنا پر اس کی خیر خواہانہ مساعی کو روکنے کے لیے گھٹیا درجہ کی چال بازیوں سے کام لیتے ہیں تو فطرۃً اس کا دل دکھتا ہی ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کے ارشاد کا منشا یہ نہیں ہے کہ ان حرکات پر جو فطری رنج آپ کو ہوتا ہے وہ نہ ہونا چاہیے۔ بلکہ منشاء دراصل یہ ہے کہ اس سے آپ دل شکستہ نہ ہوں، ہمت نہ ہاریں، صبر کے ساتھ بندگان خدا کی اصلاح کے لیے کام کیے چلے جائیں۔ رہے یہ لوگ، تو جس قسم کے ذلیل اخلاق انہوں نے اپنے اندر پرورش کیے ہیں ان کی بنا پر یہ روش ان سے عین متوقع ہے، کوئی چیز ان کی اس روش میں خلاف توقع نہیں ہے۔ سورة الْمَآىِٕدَة 63 اس کے دو مطلب ہیں ایک یہ کہ یہ لوگ چونکہ خواہشات کے بندے بن گئے ہیں اس لیے سچائی سے انہیں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ جھوٹ ہی انہیں پسند آتا ہے اور اسی کو یہ جی لگا کر سنتے ہیں، کیونکہ ان کے نفس کی پیاس اسی سے بجھتی ہے۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ نبی ﷺ اور مسلمانوں کی مجلسوں میں یہ جھوٹ کی غرض سے آکر بیٹھتے ہیں تاکہ یہاں جو کچھ دیکھیں اور جو باتیں سنیں ان کو الٹے معنی پہنا کر یا ان کے ساتھ اپنی طرف سے غلط باتوں کی آمیزش کر کے آنحضرت ﷺ اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کے لیے لوگوں میں پھیلائیں۔ سورة الْمَآىِٕدَة 64 اس کے بھی دو مطلب ہیں۔ ایک یہ کہ جاسوس بن کر آتے ہیں اور نبی ﷺ اور مسلمانوں کی مجلسوں میں اس لیے گشت لگاتے پھرتے ہیں کہ کوئی راز کی بات کان میں پڑے تو اسے آپ کے دشمنوں تک پہنچائیں۔ دوسرے یہ کہ جھوٹے الزامات عائد کرنے اور افترا پردازیاں کرنے کے لیے مواد فراہم کرتے پھرتے ہیں تاکہ ان لوگوں میں بدگمانیاں اور غلط فہمیاں پھیلائیں جن کو نبی ﷺ اور مسلمانوں سے براہ راست تعلقات پیدا کرنے کا موقع نہیں ملا ہے۔ سورة الْمَآىِٕدَة 65 یعنی توراۃ کے جو احکام ان کی خواہشات کے مطابق نہیں ہیں۔ ان کے اندر جان بوجھ کر رد و بدل کرتے ہیں اور الفاظ کے معنی بدل کر من مانے احکام ان سے نکالتے ہیں۔ سورة الْمَآىِٕدَة 66 یعنی جاہل عوام سے کہتے ہیں کہ جو حکم ہم بتا رہے ہیں، اگر محمد ﷺ بھی یہی حکم تمہیں بتائیں تو اسے قبول کرنا ورنہ رد کردینا۔ سورة الْمَآىِٕدَة 67 “ اللہ کی طرف سے کسی کے فتنہ میں ڈالے جانے کا مطلب یہ ہے کہ جس شخص کے اندر اللہ تعالیٰ کسی قسم کے برے میلانات پرورش پاتے دیکھتا ہے اس کے سامنے پے در پے ایسے مواقع لاتا ہے جن میں اس کی سخت آزمائش ہوتی ہے۔ اگر وہ شخص ابھی برائی کی طرف پوری طرح نہیں جھکا ہے تو ان آزمائشوں سے سنبھل جاتا ہے اور اس کے اندر بدی کا مقابلہ کرنے کے لیے نیکی کی جو قوتیں موجود ہوتی ہیں وہ ابھر آتی ہیں۔ لیکن اگر وہ برائی کی طرف پوری طرح جھک چکا ہوتا ہے اور اس کی نیکی اس کی بدی سے اندر ہی شکست کھا چکی ہوتی ہے تو ہر ایسی آزمائش کے موقع پر وہ اور زیادہ بدی کے پھندے میں پھنستا چلا جاتا ہے۔ یہی اللہ تعالیٰ کا وہ فتنہ ہے جس سے کسی بگڑتے ہوئے انسان کو بچا لینا اس کے کسی خیر خواہ کے بس میں نہیں ہوتا۔ اور اس فتنہ میں صرف افراد ہی نہیں ڈالے جاتے بلکہ قومیں بھی ڈالی جاتی ہیں۔ سورة الْمَآىِٕدَة 68 اس لیے کہ انہوں نے خود پاک ہونا نہ چاہا۔ جو خود پاکیزگی کا خواہش مند ہوتا ہے اور اس کے لیے کوشش کرتا ہے اسے پاکیزگی سے محروم کرنا اللہ کا دستور نہیں ہے۔ اللہ پاک کرنا اسی کو نہیں چاہتا جو خود پاک ہونا نہ چاہے۔
Top