Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Maarif-ul-Quran - Al-Maaida : 41
یٰۤاَیُّهَا الرَّسُوْلُ لَا یَحْزُنْكَ الَّذِیْنَ یُسَارِعُوْنَ فِی الْكُفْرِ مِنَ الَّذِیْنَ قَالُوْۤا اٰمَنَّا بِاَفْوَاهِهِمْ وَ لَمْ تُؤْمِنْ قُلُوْبُهُمْ١ۛۚ وَ مِنَ الَّذِیْنَ هَادُوْا١ۛۚ سَمّٰعُوْنَ لِلْكَذِبِ سَمّٰعُوْنَ لِقَوْمٍ اٰخَرِیْنَ١ۙ لَمْ یَاْتُوْكَ١ؕ یُحَرِّفُوْنَ الْكَلِمَ مِنْۢ بَعْدِ مَوَاضِعِهٖ١ۚ یَقُوْلُوْنَ اِنْ اُوْتِیْتُمْ هٰذَا فَخُذُوْهُ وَ اِنْ لَّمْ تُؤْتَوْهُ فَاحْذَرُوْا١ؕ وَ مَنْ یُّرِدِ اللّٰهُ فِتْنَتَهٗ فَلَنْ تَمْلِكَ لَهٗ مِنَ اللّٰهِ شَیْئًا١ؕ اُولٰٓئِكَ الَّذِیْنَ لَمْ یُرِدِ اللّٰهُ اَنْ یُّطَهِّرَ قُلُوْبَهُمْ١ؕ لَهُمْ فِی الدُّنْیَا خِزْیٌ١ۖۚ وَّ لَهُمْ فِی الْاٰخِرَةِ عَذَابٌ عَظِیْمٌ
يٰٓاَيُّھَا
: اے
الرَّسُوْلُ
: رسول
لَا يَحْزُنْكَ
: آپ کو غمگین نہ کریں
الَّذِيْنَ
: جو لوگ
يُسَارِعُوْنَ
: جلدی کرتے ہیں
فِي
: میں
الْكُفْرِ
: کفر
مِنَ
: سے
الَّذِيْنَ
: جو لوگ
قَالُوْٓا
: انہوں نے کہا
اٰمَنَّا
: ہم ایمان لائے
بِاَفْوَاهِهِمْ
: اپنے منہ سے (جمع)
وَ
: اور
لَمْ تُؤْمِنْ
: مومن نہیں
قُلُوْبُهُمْ
: ان کے دل
وَمِنَ
: اور سے
الَّذِيْنَ هَادُوْا
: وہ لوگ جو یہودی ہوئے
سَمّٰعُوْنَ
: جاسوسی کرتے ہیں
لِلْكَذِبِ
: جھوٹ کے لیے
سَمّٰعُوْنَ
: وہ جاسوس ہیں
لِقَوْمٍ
: جماعت کے لیے
اٰخَرِيْنَ
: دوسری
لَمْ يَاْتُوْكَ
: وہ آپ تک نہیں آئے
يُحَرِّفُوْنَ
: وہ پھیر دیتے ہیں
الْكَلِمَ
: کلام
مِنْۢ بَعْدِ
: بعد
مَوَاضِعِهٖ
: اس کے ٹھکانے
يَقُوْلُوْنَ
: کہتے ہیں
اِنْ اُوْتِيْتُمْ
: اگر تمہیں دیا جائے
هٰذَا
: یہ
فَخُذُوْهُ
: اس کو قبول کرلو
وَاِنْ
: اور اگر
لَّمْ تُؤْتَوْهُ
: یہ تمہیں نہ دیا جائے
فَاحْذَرُوْا
: تو اس سے بچو
وَمَنْ
: اور جو۔ جس
يُّرِدِ اللّٰهُ
: اللہ چاہے
فِتْنَتَهٗ
: گمراہ کرنا
فَلَنْ تَمْلِكَ
: تو ہرگز نہ آسکے گا
لَهٗ
: اس کے لیے
مِنَ
: سے
اللّٰهِ
: اللہ
شَيْئًا
: کچھ
اُولٰٓئِكَ
: یہی لوگ
الَّذِيْنَ
: وہ لوگ جو
لَمْ يُرِدِ
: نہیں چاہا
اللّٰهُ
: اللہ
اَنْ
: کہ
يُّطَهِّرَ
: پاک کرے
قُلُوْبَهُمْ
: ان کے دل
لَهُمْ
: ان کے لیے
فِي الدُّنْيَا
: دنیا میں
خِزْيٌ
: رسوائی
وَّلَهُمْ
: اور ان کے لیے
فِي
: میں
الْاٰخِرَةِ
: آخرت
عَذَابٌ
: عذاب
عَظِيْمٌ
: بڑا
اے رسول غم نہ کر ان کا جو دوڑ کر گرتے ہیں کفر میں وہ لوگ جو کہتے ہیں ہم مسلمان ہیں اپنے منہ سے اور ان کے دل مسلمان نہیں اور وہ جو یہودی ہیں جاسوسی کرتے ہیں جھوٹ بولنے کے لئے وہ جاسوس ہیں دوسری جماعت کے جو تجھ تک نہیں آئی بدل ڈالتے ہیں بات کو اس کا ٹھکانا چھوڑ کر کہتے ہیں اگر تم کو یہ حکم ملے تو قبول کرلینا، اور اگر یہ حکم نہ ملے تو بچتے رہنا اور جسکو اللہ نے گمراہ کرنا چاہا سو تو اس کے لئے کچھ نہیں کرسکتا اللہ کے ہاں یہ وہی لوگ ہیں جن کو اللہ نے نہ چاہا کہ دل پاک کرے ان کے، ان کو دنیا میں ذلت ہے اور آخرت میں بڑا عذاب ہے
ربط آیات
سورة مائدہ کے تیسرے رکوع میں اہل کتاب کا ذکر چلا آرہا تھا، درمیان میں قدر قلیل اور بعض مضامین خاص خاص مناسبات سے آگئے تھے۔ اب آگے پھر اہل کتاب ہی کا ذکر دور تک چلا گیا ہے۔ اہل کتاب میں یہود و نصاریٰ کے دو فرقے تو تھے ہی، ایک تیسرا فرقہ اور شامل ہوگیا تھا، جو حقیقت میں یہودی تھے، مگر منافقانہ طور پر مسلمان ہوگئے تھے۔ مسلمانوں کے سامنے اپنا اسلام ظاہر کرتے تھے اور اپنے ہم مذہب یہودیوں میں بیٹھتے تو اسلام اور مسلمانوں کا استہزاء کرتے تھے، مذکورہ تین آیتیں انہی تینوں فرقوں کے ایسے اعمال سے اور حالات سے متعلق ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے احکام اور ہدایات کے مقابلہ میں اپنی خواہشات اور رائیوں کو مقدم رکھتے ہیں اور احکام و ہدایات کے مقابلہ میں اپنی خواہشات اور رائیوں کو مقدم رکھتے ہیں اور احکام و ہدایات میں تاویلیں کرکے اپنی خواہشات کے مطابق بنانے کی فکر میں رہتے ہیں۔ آیات مذکورہ میں ایسے لوگوں کی دنیا و آخرت میں رسوائی اور انجام بد کا بیان ہے۔ اس کے ضمن میں مسلمانوں کے لئے چند اصول ہدایات اور احکام شرعیہ کا بیان ہے۔
شان نزول
آیات مذکورہ کے نزول کا سبب دو واقعات ہیں جو رسول کریم ﷺ کے عہد مبارک میں مدینہ کے قرب و جوار میں رہنے والے یہودی قبائل میں پیش آئے۔ ایک واقعہ قتل و قصاص کا اور دوسرا واقعہ زنا اور اس کی سزا کا ہے۔
یہ بات تو کسی تاریخ عالم کے جاننے والے پر مخفی نہیں کہ اسلام سے پہلے ہر جگہ، ہر خطہ اور ہر طبقہ میں ظلم و جور کی حکومت تھی، قوی ضعیف کو، عزت والا بےعزت کو غلام بنائے رکھتا تھا۔ قوی اور عزت والے کے لئے قانون اور تھا اور کمزور و بےعزت کے لئے قانون دوسرا تھا۔ جیسے آج بھی اپنے آپ کو مہذب اور متمدّن کہنے والے بہت سے ممالک میں کالے اور گورے کا قانون الگ الگ ہے۔ محسن انسانیت رسول عربی ﷺ نے ہی آکر ان امتیازات کو مٹایا۔ اولاد آدم کے حقوق کی مساوات کا اعلان کیا اور انسان کو انسانیت اور آدمیت کا سبق دیا۔ رسول کریم ﷺ کے مدینہ طیبہ تشریف لانے سے پہلے حوالی مدینہ میں یہود کے دو قبیلے بنو قریظہ اور بنو نضیر آباد تھے۔ ان میں سے بنو نضیر قوت و شوکت اور دولت و عزت میں بنو قریظہ سے زیادہ تھے۔ یہ لوگ آئے دن بنو قریظہ پر ظلم کرتے رہتے تھے اور وہ چار ونا چار اس کو سہتے تھے۔ یہاں تک کہ بنو نضیر نے بنو قریظہ کو اس ذلت آمیز معاہدہ پر مجبور کیا کہ اگر بنو نضیر کا کوئی آدمی بنو قریظہ کے کسی شخص کو قتل کر دے تو اس کا قصاص یعنی جان کے بدلے میں جان لینے کا ان کو حق نہ ہوگا۔ بلکہ صرف ستر وسق کھجوریں اس کے خون بہا کے طور پر ادا کی جائیں گی۔ (وسق عربی اوزان کا ایک پیمانہ ہے جو ہمارے وزن کے اعتبار سے تقریباً پانچ من دس سیر کا ہوتا ہے) اور اگر معاملہ برعکس ہو کہ بنو قریظہ کا کوئی آدمی بنو نضیر کے کسی شخص کو قتل کر دے تو قانون یہ ہوگا کہ اس کے قاتل کو قتل بھی کیا جائے گا اور ان سے خون بہا بھی لیا جائے گا۔ اور وہ بھی بنو نضیر کے خون بہا سے دوگنا یعنی ایک سو چالیس وسق کھجوریں اور صرف یہی نہیں بلکہ اس کے ساتھ یہ بھی کہ ان کا مقتول اگر عورت ہوگی تو اس کے بدلہ میں بنو قریظہ کے ایک مرد کو قتل کیا جائے گا۔ اور اگر مقتول مرد ہے تو اس کے معاوضہ میں بنو قریظہ کے آزاد کو قتل کیا جائے گا۔ اور اگر بنو نضیر کے آدمی کا کسی نے ایک ہاتھ کاٹا ہے تو بنو قریظہ کے آدمی کے دو ہاتھ کاٹے جائیں گے۔ ایک کان کاٹا ہے تو ان کے دو کان کاٹے جائیں گے۔ یہ قانون تھا جو اسلام سے پہلے ان دونوں قبیلوں کے درمیان رائج تھا اور بنو قریظہ اپنی کمزوری کی بناء پر اس کے ماننے پر مجبور تھے۔
جب رسول کریم ﷺ ہجرت کرکے مدینہ تشریف لائے اور مدینہ ایک دار السلام بن گیا یہ دونوں قبائل ہنوز نہ اسلام میں داخل ہوئے تھے نہ کسی معاہدہ کی رو سے اسلامی احکام کے پابند تھے، مگر اسلامی قانون کی عدل گستری اور عام سہولتوں کو دور سے دیکھ رہے تھے، اس عرصہ میں یہ واقعہ پیش آیا کہ بنو قریظہ کے ایک آدمی نے بنو نضیر کے کسی آدمی کو مارڈالا، تو بنو نضیر نے معاہدہ مذکور کے مطابق بنو قریظہ سے دوگنی دیت یعنی خون بہا کا مطالبہ کیا۔ بنو قریضہ اگرچہ نہ اسلام میں داخل تھے، نہ نبی کریم ﷺ سے اس وقت ان کا کوئی معاہدہ تھا۔ لیکن یہ لوگ یہودی تھے۔ ان میں بہت سے لکھے پڑھے لوگ بھی تھے جو تورات کی پیشین گوئیوں کے مطابق جانتے تھے کہ آنحضرت ﷺ ہی نبی آخر الزماں ہیں۔ جن کے آنے کی خوشخبری توریت نے دی ہے۔ مگر تعصب مذہبی یا دنیوی لالچ کی وجہ سے ایمان نہ لائے تھے۔ اور یہ بھی دیکھ رہے تھے کہ آپ ﷺ کا مذہب مساوات انسانی اور عدل و انصاف کا علمبردار ہے۔ اس لئے بنو نضیر کے ظلم سے بچنے کے لیے ان کو ایک سہار ملا اور انہوں نے دوگنی دیت دینے سے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ ہم تم ایک ہی خاندان سے ہیں۔ ایک ہی وطن کے باشندے ہیں اور ہم دونوں کا مذہب بھی ایک یعنی یہودیت ہے۔ یہ غیر منصفانہ معاملہ جو آج تک تمہاری زبردستی اور ہماری کمزوری کے سبب ہوتا رہا اب ہم اس کو گوارا نہ کریں گے۔
اس جواب پر بنو نضیر میں اشتعال پیدا ہوا اور قریب تھا کہ جنگ چھڑ جائے، مگر پھر کچھ بڑے بوڑھوں کے مشورہ سے یہ طے پایا کہ اس معاملہ کا فیصلہ آنحضرت ﷺ سے کرایا جائے، بنو قریظہ کی تو یہ عین مراد تھی کیونکہ وہ جانتے تھے کہ آنحضرت ﷺ بنو نضیر کے ظلم کو برقرار نہ رکھیں گے۔ بنو نضیر بھی باہمی گفت و شنید اور صلح کی بناء پر اس کے لئے مجبور تو ہوگئے مگر اس میں یہ سازش کی کہ آپ ﷺ کے پاس مقدمہ کے جانے سے پہلے کچھ ایسے لوگوں کو آگے بھیجا جو اصل میں تو انہی کے ہم مذہب یہودی تھے، مگر منافقانہ طور پر اسلام کا اظہار کرکے رسول اللہ ﷺ کے پاس آتے جاتے تھے۔ اور مطلب ان کا یہ تھا کہ یہ لوگ کسی طرح مقدمہ اور اس کے فیصلہ سے پہلے اس معاملہ میں آنحضرت ﷺ کا عندیہ اور نظریہ معلوم کرلیں اور یہی تاکید ان لوگوں کو کردی کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمارے مطالبہ کے موافق فیصلہ فرما دیا تو اس کو قبول کرلینا اور اس کے خلاف کوئی حکم آیا تو ماننے کا وعدہ نہ کرنا۔
سبب نزول کا یہ واقعہ تفصیل کے ساتھ بغوی نے نقل کیا ہے اور مسند احمد و ابوداؤد میں حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے اس کا خلاصہ منقول ہے (مظہری)۔
اسی طرح ایک دوسرا واقعہ زنا کا ہے جس کی تفصیل بغوی رحمة اللہ علیہ نے اس طرح نقل کی ہے کہ خیبر کے یہودیوں میں یہ واقعہ پیش آیا اور تورات کی مقرر کردہ سزا کے موافق ان دونوں کو سنگسار کرنا لازم تھا۔ مگر یہ دونوں کسی بڑے خاندان کے آدمی تھے۔ یہودیوں نے اپنی قدیم عادت کے موافق یہ چاہا کہ ان کے لئے سزا میں نرمی کی جائے۔ اور ان کو یہ معلوم تھا کہ مذہب اسلام میں بڑی سہولتیں دی گئی ہیں۔ اس بناء پر اپنے نزدیک یہ سمجھا کہ اسلام میں اس سزا میں بھی تخفیف ہوگی، خیبر کے لوگوں نے اپنی برادری بنی قریظہ کے لوگوں کے پاس پیغام بھیجا کہ اس معاملہ کا فیصلہ محمد ﷺ سے کرا دیں اور دونوں مجرموں کو بھی ساتھ بھیج دیا۔ منشاء ان کا بھی یہ تھا کہ اگر آپ ﷺ کوئی ہلکی سزا جاری کردیں تو مان لیا جائے ورنہ انکار کردیا جائے۔ بنو قریظہ کو پہلے تو تردّد ہوا کہ معلوم نہیں آپ ﷺ کیسا فیصلہ کریں اور وہاں جانے کے بعد ہمیں ماننا پڑے، مگر کچھ دیر گفتگو کے بعد یہی فیصلہ رہا کہ ان کے چند سردار حضور ﷺ کی خدمت میں ان مجرموں کو لے جائیں اور آپ ﷺ ہی سے اس کا فیصلہ کرائیں۔
چناچہ کعب ابن اشرف وغیرہ کا ایک وفد ان کو ساتھ لے کر حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور سوال کیا کہ شادی شدہ مرد و عورت اگر بدکاری میں مبتلا ہوں تو ان کی کیا سزا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ کیا تم میرا فیصلہ مانو گے ؟ انہوں نے اقرار کیا، اس وقت جبریل امین اللہ تعالیٰ کا یہ حکم لے کر نازل ہوئے کہ ان کی سزا سنگسار کرکے قتل کردینا ہے۔ ان لوگوں نے جب یہ فیصلہ سنا تو بوکھلا گئے اور ماننے سے انکار کردیا۔
جبریل ؑ نے رسول اللہ ﷺ کو مشورہ دیا کہ آپ ان لوگوں سے یہ کہیں کہ میرے اس فیصلہ کو ماننے یا نہ ماننے کے لئے ابن صوریا کو حَکَم بنادو۔ اور ابن صوریا کے حالات وصفات رسول کریم ﷺ کو بتلا دئیے۔ آپ ﷺ نے آنے والے وفد سے کہا کہ کیا تم اس نوجوان کو پہچانتے ہو جو سفید رنگ مگر ایک آنکھ سے معذور ہے۔ فدک میں رہتا ہے جس کو ابن صوریا کہا جاتا ہے۔ سب نے اقرار کیا۔ آپ ﷺ نے دریافت کیا کہ آپ لوگ اس کو کیسا سمجھتے ہیں ؟ انہوں نے کہا کہ علماء یہود میں روئے زمین پر اس سے بڑا کوئی عالم نہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا، اس کو بلاؤ۔
چناچہ وہ آگیا، آپ ﷺ نے اس کو قسم دے کر پوچھا کہ اس صورت میں تورات کا حکم کیا ہے ؟ یہ بولا، کہ قسم ہے اس ذات کی جس کی قسم آپ ﷺ نے مجھ کو دی ہے۔ اگر آپ ﷺ قسم نہ دیتے اور مجھے یہ خطرہ نہ ہوتا کہ غلط بات کہنے کی صورت میں تورات مجھے جلا ڈالے گی تو میں یہ حقیقت ظاہر نہ کرتا، حقیقت یہ ہے کہ حکم اسلام کی طرح تورات میں بھی یہ ہی حکم ہے کہ ان دونوں کو سنگسار کرکے قتل کرایا جائے۔
آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ پھر تم پر کیا آفت آئی کہ تم تورات کے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہو، ابن صوریا نے بتلایا کہ اصل بات یہ ہے کہ زنا کی سزا، شرعی تو ہمارے مذہب میں یہ ہی ہے، مگر ہمارا ایک شہزادہ اس جرم میں مبتلا ہوگیا۔ ہم نے اس کی رعایت کرکے چھوڑ دیا، سنگسار نہیں کیا۔ پھر یہی جرم ایک معمولی آدمی سے سرزد ہوا، اور ذمہ داروں نے اس کو سنگسار کرنا چاہا تو مجرم کے جتھہ کے لوگوں نے احتجاج کیا کہ اگر شرعی سزا اس کو دینی ہے تو اس سے پہلے شہزادے کو دو ، ورنہ ہم اس پر یہ سزا جاری نہ ہونے دیں گے۔ یہ بات بڑھی تو سب نے مل کر صلح کرلی کہ سب کے لئے ایک ہی ہلکی سزا تجویز کردی جائے اور تورات کا حکم چھوڑ دیا جائے۔ چناچہ ہم نے کچھ مار پیٹ اور منہ کالا کر کے جلوس نکالنے کی سزا تجویز کردی اور اب یہی سب میں رواج ہوگیا۔
خلاصہ تفسیر
اے رسول ﷺ جو لوگ کفر (کی باتوں) میں دوڑ دوڑ گرتے ہیں (یعنی بےتکلف رغبت سے ان باتوں کو کرتے ہیں) آپ ﷺ کو وہ مغموم نہ کریں (یعنی آپ ﷺ ان کے کفریات سے مغموم و متاسف نہ ہوں) خواہ وہ ان لوگوں میں سے ہوں جو اپنے منہ سے تو (جھوٹ موٹ) کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے اور ان کے دل یقین (یعنی ایمان) لائے نہیں (مراد منافقین ہیں جو کہ ایک واقعہ میں حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے) اور خواہ وہ ان لوگوں میں سے ہوں جو کہ یہودی ہیں (جیسا دوسرے واقعہ میں یہ لوگ حاضر ہوئے تھے) یہ (دونوں قسم کے) لوگ (پہلے سے دین کے باب میں اپنے علمائے محرفین سے) غلط باتیں سننے کی خاطر سے کان دھر دھر سنتے ہیں، جس قوم کے یہ حالات ہیں کہ (ایک تو) وہ آپ کے پاس (فرط تکبر و عداوت سے خود) نہیں آئے (بلکہ دوسروں کو بھیجا، اور دوسروں کو بھیجا بھی تو طلب حق کے لئے نہیں بلکہ شاید اپنے احکام محرفہ کے موافق کوئی بات مل جائے، کیوں کہ پہلے سے) کلام (الہٰی) بعد اس کے کہ وہ (کلام) اپنے (صحیح) مواقع پر (قائم) ہوتا ہے (لفظاً یا معنیً یا دونوں طرح) بدلتے رہتے ہیں (چنانچہ اسی عادت کے موافق خون بہا اور رجم کے حکم کو بھی اپنے رسم مخترع سے بدل دیا، پھر اس احتمال سے کہ شاید شریعت محمدیہ ﷺ سے اس رسم کو سہارا لگ جائے یہاں اپنے جاسوسوں کو بھیجا۔ تیسرے صرف یہی نہیں کہ اپنی رسم محرّف کے موافق بات کی تلاشی ہی تک رہتے بلکہ مزید یہ ہے کہ جانے والوں سے) کہتے ہیں کہ اگر تم کو (وہاں جاکر) یہ حکم (محرف) ملے تب تو اس کو قبول کرلینا (یعنی اس کے موافق عملدرامد کرنے کا اقرار کرلینا) اور اگر تم کو یہ حکم (محرف) نہ ملے تو (اس کے قبول کرنے سے) احتیاط رکھنا (پس اس بھیجنے والی قوم میں جن کی جاسوسی کرنے یہ لوگ آئے ہیں چند خرابیاں ہوئیں۔ اول تکبر و عداوت جو سبب ہے خود حاضر نہ ہونے کا۔ دوسرے طلب حق نہ ہونا بلکہ حق کو محرف کرکے اس کی تائید کی فکر ہونا۔ تیسرے اوروں کو بھی قبول حق سے روکنا۔ یہاں تک آنے والوں اور بھیجنے والوں کی الگ الگ مذمت تھی۔ آگے ان سب کی مذمت ہے) اور (اصل یہ ہے کہ) جس کا خراب (اور گمراہ) ہونا خدا ہی کو منظور ہو (گو یہ تخلیقی منظوری اس گمراہ کے عزم گمراہی کے بعد ہوتی ہے) تو اس کے لئے اللہ سے (اے عام مخاطب) تیرا کچھ زور نہیں چل سکتا (کہ اس گمراہی کو نہ پیدا ہونے دے، یہ تو ایک عام قاعدہ ہوا اب یہ سمجھو کہ) یہ لوگ ایسے (ہی) ہیں خدا تعالیٰ کو ان کے دلوں کا (کفریات سے) پاک کرنا منظور نہیں ہوا (کیونکہ یہ عزم ہی نہیں کرتے، اس لئے اللہ تعالیٰ تطہیر تخلیقی نہیں فرماتے بلکہ ان کے عزم گمراہی کی وجہ سے تخلیقاً ان کا خراب ہی ہونا منظور ہے۔ پس قاعدہ مذکور کے موافق کوئی شخص ان کو ہدایت نہیں کرسکتا، مطلب یہ ہے کہ جب یہ خود خراب رہنے کا عزم رکھتے ہیں اور عزم کے بعد اس فعل کی تخلیق عادت الہیہ ہے، اور تخلیق الہٰی کو کوئی روک نہیں سکتا، پھر ان کے اوپر آنے کی توقع کیا کی جائے۔ اس سے رسول اللہ ﷺ کو زیادہ تسلی ہو سکتی ہے، جس سے کلام شروع بھی ہوا تھا۔ پس آغاز و انجام کلام کا مضمون تسلی سے ہوا۔ آگے ان اعمال کا ثمرہ فرماتے ہیں کہ) ان (سب) لوگوں کے لئے دنیا میں رسوائی ہے اور آخرت میں ان (سب) کے لئے سزائے عظیم ہے (یعنی دوزخ، چناچہ منافقین کی یہ رسوائی ہوئی کہ مسلمانوں کو ان کا نفاق معلوم ہوگیا۔ اور سب ذلت سے دیکھتے تھے اور یہود کے قتل و قید و جلاوطنی کا ذکر روایات میں مشہور ہے، اور عذاب ظاہر ہی ہے) یہ لوگ (دین کے باب میں) غلط باتوں کے سننے کے عادی ہیں (جیسا پہلے آچکا) بڑے حرام (مال) کے کھانے والے ہیں (اسی حرص نے ان کو احکام میں غلط بیانی کا جس کے عوض کچھ نذرانہ وغیرہ ملتا ہے خوگر کردیا۔ جب ان لوگوں کی یہ حالت ہے) تو اگر یہ لوگ (اپنا کوئی مقدمہ لے کر) آپ ﷺ کے پاس (فیصلہ کرانے) آویں تو (آپ ﷺ مختار ہیں) خواہ آپ ﷺ ان (کے معاملہ) میں فیصلہ کر دیجئے یا ان کو ٹال دیجئے اور اگر آپ ﷺ (کی یہی رائے قرار پائے کہ آپ ﷺ ان کو ٹال ہی دیں تو (یہ اندیشہ نہ کیجئے کہ شاید ناخوش ہو کر عداوت نکالیں کیونکہ) ان کی مجال نہیں کہ آپ ﷺ کو ذرا بھی ضرر پہنچا سکیں (کیونکہ اللہ تعالیٰ آپ ﷺ کے نگہبان ہیں) اور اگر (فیصلہ کرنے پر رائے قرار پائے اور) آپ ﷺ فیصلہ کریں تو ان میں عدل (یعنی قانون اسلام) کے موافق فیصلہ کیجئے، بیشک حق تعالیٰ عدل کرنے والوں سے محبت کرتے ہیں (اور اب وہ عدل منحصر ہوگیا ہے قانون اسلام میں۔ پس وہی لوگ محبوب ہوں گے جو اس قانون کے موافق فیصلہ کریں) اور (تعجب کی بات ہے کہ) وہ (دین کے معاملہ میں) آپ ﷺ سے کیسے فیصلہ کراتے ہیں، حالانکہ ان کے پاس تورات (موجود) ہے جس میں اللہ کا حکم (لکھا) ہے (جس کے ماننے کا ان کو دعویٰ ہے۔ اول تو یہی بات بعید ہے) پھر (یہ تعجب اس سے اور پختہ ہوگیا کہ) اس (فیصلہ لانے) کے بعد (جب آپ ﷺ کا فیصلہ سنتے ہیں تو اس فیصلہ سے بھی) ہٹ جاتے ہیں (یعنی اول تو اس حالت میں فیصلہ لانے ہی سے تعجب ہوتا تھا۔ لیکن اس احتمال سے رفع ہوسکتا تھا کہ شاید آپ ﷺ کا حق پر ہونا ان پر واضح ہوگیا ہو اس لئے آگئے ہوں۔ لیکن جب اس فیصلہ کو نہ مانا تو وہ تعجب پھر تازہ ہوگیا کہ اب تو وہ احتمال بھی نہ رہا۔ پھر کیا بات ہوگی جس کے واسطے یہ فیصلہ لائے ہیں) اور (اسی سے ہر عاقل کو اندازہ ہوگیا کہ) یہ لوگ ہرگز اعتقاد والے نہیں (یہاں اعتقاد سے نہیں آئے اپنے مطلب کے واسطے آئے تھے اور جب نہ ماننا عدم اعتقاد کی دلیل ہے تو اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جیسے حضرت محمد ﷺ کے ساتھ ان کو اعتقاد نہیں اسی طرح اپنی کتاب کے ساتھ بھی پورا اعتقاد نہیں ورنہ اس کو چھوڑ کر کیوں آتے۔ غرض دونوں طرف سے گئے کہ جس سے انکار ہے اس سے بھی اعتقاد نہیں اور جس سے دعویٰ اعتقاد ہے اس سے بھی نہیں۔
معارف و مسائل
یہ تین آیتیں اور ان کے بعد کی آیات جن اسباب و واقعات کے ماتحت نازل ہوئی ہیں ان کا تفصیلی بیان پہلے آچکا ہے۔ جن کا خلاصہ یہ ہے کہ یہودیوں کی یہ پرانی خصلت تھی کہ کبھی اقرباء پروری کے تحت، کبھی جاہ و مال کے لالچ میں لوگوں کی خواہش کے مطابق فتوی بنادیا کرتے تھے۔ خصوصاً سزاؤں کے معاملہ میں یہ عام رواج ہوگیا تھا کہ جب کسی بڑے آدمی سے جرم سرزد ہوتا تو تورات کی سخت سزا کو معمولی سزا میں تبدیل کردیتے تھے۔ ان کے اسی حال کو آیت مذکورہ میں ان الفاظ سے بیان فرمایا ہےی ۭيُحَرِّفُوْنَ الْكَلِمَ مِنْۢ بَعْدِ مَوَاضِعِهٖ۔
جب رسول کریم ﷺ مدینہ طیبہ تشریف لے گئے اور شریعت اسلام کا عجیب و غریب نظام ان کے سامنے آیا جس میں سہولت و آسانی کی بڑی رعایتیں بھی تھیں اور جرائم کے انسداد کے لئے سزاؤں کا ایک معقول انتظام بھی، اس وقت ان لوگوں کو جو تورات کی سخت سزاؤں کو بدل کر آسان کرلیا کرتے تھے یہ موقعہ بھی ہاتھ آیا کہ ایسے معاملات میں رسول کریم ﷺ کو حَکَم بنادیں، تاکہ آپ کی شریعت کے آسان اور نرم احکام سے فائدہ بھی اٹھالیں۔ اور تحریف تورات کے مجرم بھی نہ بنیں، مگر اس میں بھی یہ شرارت رہتی تھی کہ باقاعدہ حکم بنانے سے پہلے کسی ذریعہ سے اپنے معاملے کا حکم بطور فتویٰ کے معلوم کرلیں۔ پھر آپ ﷺ کا یہ حکم اگر اپنی خواہشات کے موافق ہو تو حکم بنا کر فیصلہ کرا لیں ورنہ چھوڑ دیں۔ اس سلسلہ کے جو واقعات ذکر کئے گئے ہیں ان میں چونکہ آنحضرت ﷺ کو اذیت پہنچی تھی اس لئے شروع آیت میں رسول اللہ ﷺ کو تسلی دی کہ اس پر آپ مغموم نہ ہوں یہ انجام کار آپ ﷺ کے لئے خیر ہے۔
پھر یہ اطلاع دی کہ یہ لوگ مخلصانہ طور پر آپ ﷺ کو حَکَم نہیں بنا رہے، بلکہ ان کی نیتوں میں فساد ہے، پھر بعد کی آیت میں آپ ﷺ کو اختیار دیا کہ آپ ﷺ چاہیں ان کے معاملہ کا فیصلہ فرمادیں یا ٹال دیں، آپ ﷺ کو اختیار ہے۔ اور یہ بھی اطلاع دے دی کہ اگر آپ ﷺ ٹالنا چاہیں تو یہ آپ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکیں گے،۔
(آیت) فاحکم بینھم اواعرض عنھم الآیة کا یہی مضمون ہے۔ اور اس کے بعد کی آیت میں ارشاد ہے کہ اگر آپ ﷺ فیصلہ دینا ہی پسند کریں تو اس میں آپ کو یہ ہدایت دی گئی کہ فیصلہ عدل و انصاف کے مطابق ہونا چاہیے۔ جس کا مطلب یہ تھا کہ فیصلہ اپنی شریعت کے مطابق فرما دیں۔ کیونکہ رسول کریم ﷺ کی بعثت کے بعد تمام پہلی شریعتیں اور ان کے قوانین منسوخ ہوچکی ہیں۔ بجُز ان کے جن کو قرآن کریم اور شریعت مصطفوی ﷺ میں باقی رکھا گیا ہے۔ اسی لئے بعد کی آیات میں قانون الہٰی کے خلاف کسی دوسرے قانون یا رسم و رواج پر فیصلہ صادر کرنے کو ظلم اور فسق و کفر قرار دیا گیا ہے۔
اسلامی حکومت میں غیر مسلموں کے مقدمات کا ضابطہ
یہاں یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ یہودی جنہوں نے اپنے مقدمات کو رسول کریم ﷺ کی عدالت میں بھیجا نہ ان کا رسول کریم ﷺ اور آپ کی شریعت پر ایمان تھا۔ نہ یہ کہ مسلمانوں کے زیر حکم ذمی تھے۔ البتہ رسول کریم ﷺ سے ان کا معاہدہ ترک جنگ کا ہوگیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کو اختیار دیا گیا کہ چاہیں ٹال دیں اور چاہیں فیصلہ اپنی شریعت کے مطابق فرما دیں۔ کیونکہ ان لوگوں کی کوئی ذمہ داری اسلامی حکومت پر نہیں ہے اور اگر یہ ذمی ہوتے اور اسلامی حکومت کی طرف رجوع کرتے تو حاکم مسلم پر فیصلہ کرنا فرض ہوتا، ٹال دینا جائز نہ ہوتا۔ کیونکہ ان کے حقوق کی نگرانی اور ان سے ظلم کا رفع کرنا حکومت اسلامیہ کا فرض ہے۔ اسی لئے آئندہ آنے والی ایک آیت میں یہ بھی ارشاد ہے(آیت) وان احکم بینھم۔ یعنی اگر یہ لوگ اپنا معاملہ آپ ﷺ کے پاس لائیں تو آپ ﷺ اس کا فیصلہ اپنی شریعت کے مطابق فرما دیں۔
اور دوسری آیت ان غیر مسلموں کے متعلق ہے جو مسلمانوں کے ذمی اسلامی ملک کے شہری اور زیر حکومت رہتے ہیں۔
اب یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ پہلی آیت اختیار اور دوسری آیت دونوں میں آنحضرت ﷺ کو ہدایت یہ ہے کہ جب ان غیر مسلموں کے معاملہ میں فیصلہ کریں تو اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ حکم یعنی اپنی شریعت کے مطابق کریں۔ ان غیر مسلموں کی خواہشات یا ان کے مذہب کے مطابق فیصلہ نہ دیں۔
اس کی توضیح یہ ہے کہ یہ حکم ان معاملات کے متعلق ہے جن کا ذکر ان آیات کے شان نزول میں آپ سن چکے ہیں کہ ایک معاملہ سزائے قتل اور خوں بہا کا تھا، دوسرا زنا اور اس کی سزا کا۔ ان جیسے معاملات یعنی جرائم کی سزاؤں میں ساری دنیا کا یہی دستور ہے کہ پورے ملک کا ایک ہی قانون ہوتا ہے۔ جس کو جنرل قانون کہتے ہیں، اس جنرل قانون میں طبقات یا مذاہب کی وجہ سے کوئی فرق نہیں کیا جاتا۔ مثلاً چور کی سزا ہاتھ کاٹنا ہے تو یہ صرف مسلمانوں کے لئے مخصوص نہیں بلکہ ہر باشندہ ملک کے لئے یہی سزا ہوگی۔ اسی طرح قتل و زنا کی سزائیں بھی سب کے لئے عام ہوں گی۔ لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ غیر مسلموں کے شخصی اور خالص مذہبی معاملات کا فیصلہ بھی شریعت اسلام کے مطابق کرنا ضروری ہو۔
خود نبی کریم ﷺ نے شراب اور خنزیر کو مسلمانوں کے لئے تو حرام قرار دیا اور اس پر سزا مقرر فرمائی، مگر غیر مسلموں کو اس میں آزاد رکھا۔ غیر مسلموں کے نکاح، شادی وغیرہ شخصی معاملات میں کبھی مداخلت نہیں فرمائی۔ ان کے مذہب کے مطابق جو نکاح صحیح ہیں ان کو قائم رکھا۔
مقام ہجر کے مجوسی اور نجران اور وادی قرای کے یہودی و نصاریٰ اسلامی حکومت کے ذمی بنے اور آنحضرت ﷺ کو یہ معلوم تھا کہ مجوسیوں کے نزدیک اپنی ماں بہن سے بھی نکاح حلال ہے، اسی طرح یہود و نصاریٰ میں بغیر عدت گزراے یا بغیر گواہوں کے نکاح معتبر ہے۔ مگر آپ ﷺ نے ان کے شخصی معاملات میں کوئی مداخلت نہیں فرمائی اور ان کے نکاحوں کو برقرار تسلیم کیا۔
خلاصہ یہ ہے کہ غیر مسلم جو اسلامی حکومت کے باشندے ہیں ان کے شخصی اور ذاتی اور مذہبی معاملات کا فیصلہ انہی کے مذہب و خیال پر چھوڑا جائے گا اور اگر فصل مقدمات کی ضرورت پیش آئے گی تو انہی کے مذہب کا حاکم مقرر کرکے فیصلہ کرایا جائے گا۔
البتہ اگر یہ حاکم مسلم کے پاس رجوع ہوں اور اس کے فیصلہ پر فریقین رضامند ہوں تو پھر مسلم حاکم فیصلہ اپنی شریعت کے مطابق ہی کرے گا، کیونکہ اب وہ فریقین کی طرف سے بنائے ہوئے ثالث کا حکم رکھتا ہے۔ آیت کریمہ (آیت) وان احکم بینھم بما انزل اللّٰہ۔ جو آگے آنے والی ہے، اس میں شریعت اسلام کے مطابق فیصلہ دینے کا حکم جو نبی کریم ﷺ کو دیا گیا ہے تو اس بناء پر کہ معاملہ قانون عام یعنی جنرل قانون کا ہے جس میں کسی فرقہ کو مستثنیٰ نہیں کیا جاسکتا۔ اور یا اس بناء پر کہ یہ لوگ خود رسول کریم ﷺ کو حَکَم تسلیم کرکے آپ ﷺ ہی سے فیصلہ کرنے کے لئے آئے تو ظاہر ہے کہ آپ ﷺ کا فیصلہ نہ ہی ہونا چاہیے جس پر آپ ﷺ کا ایمان ہے اور آپ کی شریعت کا حکم ہے۔
بہرحال آیات مذکور میں سے پہلی آیت میں اول آنحضرت ﷺ کو تسلی دی گئی۔ اس کے بعد یہودیوں کی سازش سے آپ ﷺ کو باخبر کیا گیايٰٓاَيُّھَا الرَّسُوْلُ لَا يَحْزُنْكَ الَّذِيْنَ سے آخر تک۔ اسی کا بیان ہے جس سے یہ انکشاف کرایا گیا کہ آپ ﷺ کی خدمت میں آنے والا وفد منافقین کا ہے۔ جن کا خفیہ گٹھ جوڑ یہودیوں کے ساتھ ہے اور انہی کا بھیجا ہوا آ رہا ہے۔ اس کے بعد آنے والے وفد کی چند بری خصلتوں کا بیان فرما کر مسلمانوں کو اس کی برائی پر متنبہ فرمایا اور ضمنی طور پر یہ ہدایت فرما دی کہ یہ خصلتیں کافرانہ ہیں۔ ان سے بچنے اور دور رہنے کا اہتمام کیا جائے۔
Top