Tadabbur-e-Quran - Al-Maaida : 41
یٰۤاَیُّهَا الرَّسُوْلُ لَا یَحْزُنْكَ الَّذِیْنَ یُسَارِعُوْنَ فِی الْكُفْرِ مِنَ الَّذِیْنَ قَالُوْۤا اٰمَنَّا بِاَفْوَاهِهِمْ وَ لَمْ تُؤْمِنْ قُلُوْبُهُمْ١ۛۚ وَ مِنَ الَّذِیْنَ هَادُوْا١ۛۚ سَمّٰعُوْنَ لِلْكَذِبِ سَمّٰعُوْنَ لِقَوْمٍ اٰخَرِیْنَ١ۙ لَمْ یَاْتُوْكَ١ؕ یُحَرِّفُوْنَ الْكَلِمَ مِنْۢ بَعْدِ مَوَاضِعِهٖ١ۚ یَقُوْلُوْنَ اِنْ اُوْتِیْتُمْ هٰذَا فَخُذُوْهُ وَ اِنْ لَّمْ تُؤْتَوْهُ فَاحْذَرُوْا١ؕ وَ مَنْ یُّرِدِ اللّٰهُ فِتْنَتَهٗ فَلَنْ تَمْلِكَ لَهٗ مِنَ اللّٰهِ شَیْئًا١ؕ اُولٰٓئِكَ الَّذِیْنَ لَمْ یُرِدِ اللّٰهُ اَنْ یُّطَهِّرَ قُلُوْبَهُمْ١ؕ لَهُمْ فِی الدُّنْیَا خِزْیٌ١ۖۚ وَّ لَهُمْ فِی الْاٰخِرَةِ عَذَابٌ عَظِیْمٌ
يٰٓاَيُّھَا : اے الرَّسُوْلُ : رسول لَا يَحْزُنْكَ : آپ کو غمگین نہ کریں الَّذِيْنَ : جو لوگ يُسَارِعُوْنَ : جلدی کرتے ہیں فِي : میں الْكُفْرِ : کفر مِنَ : سے الَّذِيْنَ : جو لوگ قَالُوْٓا : انہوں نے کہا اٰمَنَّا : ہم ایمان لائے بِاَفْوَاهِهِمْ : اپنے منہ سے (جمع) وَ : اور لَمْ تُؤْمِنْ : مومن نہیں قُلُوْبُهُمْ : ان کے دل وَمِنَ : اور سے الَّذِيْنَ هَادُوْا : وہ لوگ جو یہودی ہوئے سَمّٰعُوْنَ : جاسوسی کرتے ہیں لِلْكَذِبِ : جھوٹ کے لیے سَمّٰعُوْنَ : وہ جاسوس ہیں لِقَوْمٍ : جماعت کے لیے اٰخَرِيْنَ : دوسری لَمْ يَاْتُوْكَ : وہ آپ تک نہیں آئے يُحَرِّفُوْنَ : وہ پھیر دیتے ہیں الْكَلِمَ : کلام مِنْۢ بَعْدِ : بعد مَوَاضِعِهٖ : اس کے ٹھکانے يَقُوْلُوْنَ : کہتے ہیں اِنْ اُوْتِيْتُمْ : اگر تمہیں دیا جائے هٰذَا : یہ فَخُذُوْهُ : اس کو قبول کرلو وَاِنْ : اور اگر لَّمْ تُؤْتَوْهُ : یہ تمہیں نہ دیا جائے فَاحْذَرُوْا : تو اس سے بچو وَمَنْ : اور جو۔ جس يُّرِدِ اللّٰهُ : اللہ چاہے فِتْنَتَهٗ : گمراہ کرنا فَلَنْ تَمْلِكَ : تو ہرگز نہ آسکے گا لَهٗ : اس کے لیے مِنَ : سے اللّٰهِ : اللہ شَيْئًا : کچھ اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو لَمْ يُرِدِ : نہیں چاہا اللّٰهُ : اللہ اَنْ : کہ يُّطَهِّرَ : پاک کرے قُلُوْبَهُمْ : ان کے دل لَهُمْ : ان کے لیے فِي الدُّنْيَا : دنیا میں خِزْيٌ : رسوائی وَّلَهُمْ : اور ان کے لیے فِي : میں الْاٰخِرَةِ : آخرت عَذَابٌ : عذاب عَظِيْمٌ : بڑا
اے پیغمبر، ان لوگوں کی روش تمہیں غم میں نہ ڈالے جو کفر کی راہ میں سبقت کر رہے ہیں، ان لوگوں میں سے جو زبان سے تو دعوی کرتے ہیں کہ ہم ایمان ہیں حالانکہ ان کے دلوں نے ایمان قبول نہیں کیا ہے اور ان لوگوں میں سے جنہوں نے یہودیت اختیار کی ہے۔ یہ جھوٹ کے رسیا اور دوسروں کی باتیں ماننے والے ہیں، جو خود تمہارے پاس نہیں آتے۔ وہ کلام کو اس کا موقع و محل معین ہونے کے باوجود اس کے محل سے ہٹا دیتے ہیں، کہتے ہیں اگر تمہارے معاملے کا فیصلہ یہ ہو تب تو قبول کرلینا اور اگر یہ نہ ہو تو اس سے بچ کے رہنا۔ اور جس کو اللہ فتنہ میں ڈالنا چاہے تو تم اللہ کے مقابل اس کے معاملے میں کچھ نہیں کرسکتے۔ یہی لوگ ہیں جن کے دلوں کو اللہ نے پاک کرنا چاہا، ان کے لیے دنیا میں بھی رسوائی ہے اور آخرت میں بھی ان کے لیے بہت بڑا عذاب ہے
آگے کا مضمون۔ آیات 41 تا 50:۔ آگے چند آیات میں پہلے منافقین اور یہود کی اس ملی بھگت کی طرف اشارہ فرمایا ہے جو انہوں نے شرعی احکام و قوانین، بالخصوص تعزیرات و حدود کی گرفت سے بچنے اور ایک دوسرے کو ان سے بچانے کے لیے باہم کر رکھی تھی۔ ان آیات کے زمانہ نزول تک مدینہ اور اس کے اطراف میں اگرچہ اسلام کو سیاسی اقتدار حاصل ہوگیا تھا لیکن ابھی یہ اقتدار مکمل نہیں تھا، آس پاس یہود کی جو بستیاں تھیں وہ اپنے حدود میں قبائلی نوعیت کا اقتدار رکھتی تھیں اور ان کے حکام ان لوگوں کے معاملات و نزاعات کا فیصلہ کرتے تھے جو ان کے دائرہ اثر میں تھے یا ان کی طرف رجوع کرتے۔ لیکن یہ عدالتیں قیام عدل و انصاف کے نقطہ نظر سے بالکل بےجان اور بےمصرف ہوچکی تھیں۔ اول تو یہود نے نے خود قانون ہی کو اپنے اغراض کے تحت مسخ کر کے بالکل بےاثر کردیا تھا، دوسرے جھوٹ اور رشوت کا ان کے ہاں اتنا زور تھا کہ کسی معاملے میں نہ گواہوں کی گواہی کو کا کوئی وزن باقی رہ گیا تھا نہ عدالتوں کے انصاف کا۔ بڑی آسانی سے گواہوں اور حکام دونوں کو رشوت کے ذریعے سے خریدا اور ان کو اپنے مقصد کے لیے استعمال کیا جاسکتا تھا۔ اقتدار کی یہ دو عملی اور یہودی عدالتوں کی یہ انصاف فروشی ان لوگوں کے لیے ایک چور دروازہ فراہم کرتی تھی جو قانون کے تقاضوں سے فرار اختیار کرنا چاہتے۔ چناچہ منافقین اور یہود اس صورت حال سے فائدہ اٹھانے کے لیے یہ شرارت کرتے کہ جن معاملات میں ان کو توقع ہوتی کہ آنحضرت ﷺ کی عدالت سے فیصلہ ان کے حسب منشا ہوجائے گا ان کے لیے آنحضرت ﷺ کی عدالت سے فیصلہ ان کے حسب منشا ہوجائے گا ان کے لیے آنحضرت ﷺ سے رجوع کرتے لیکن جن میں اپنے حسب منشا فیصلہ ہونے کی توقع نہ ہوتی ان کے لیے یہودی عدالتوں کی طرف رجوع کرتے تاکہ جھوٹے گواہوں اور رشوت کے ذریعے سے اپنے حسب منشا فیصلے حاصل کرسکیں۔ قرآن نے ان کی اس بدبختانہ روش پر افسوس کیا ہے اور آنحضرت ﷺ کو اختیار ہے کہ آپ ان کے مقدمے لیں یا نہ لیں۔ البتہ اگر لیں تو فیصلہ اسی قانون عدل کے مطابق کریں جو اللہ نے اتارا ہے اس کے بعد یہود کی حالت پر تعجب کا اظہار کیا ہے کہ وہ یہ جانتے ہوئے کہ فلاں معاملے میں تورات کا حکم کیا ہے تمہیں حکم بناتے ہیں پھر تم جو فیصلہ کرتے ہو اس سے مکر جاتے ہیں۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ان کا ایمان کسی چیز پر بھی نہیں ہے۔ وہ صرف اپنی خواہشوں کی پیروی کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے بعد پہلے تورات و انجیل کا حوالہ دیا ہے کہ اللہ نے یہ صحیفے ہدایت اور روشنی بنا کر اتارے، ان کے ذریعے سے لوگوں کو اپنے احکام و قوانین سے آگاہ کیا، ان کے حاملوں کو ان کا گواہ اور امین بنایا اور ساتھ ہی انہیں اس امر سے آگاہ فرمایا کہ جو لوگ معاملات کے فیصلے ان کتابوں کے احکام کے خلاف کریں گے۔ وہ کافر، ظالم اور فاسق ٹھہریں گے۔ لیکن یہود و نصاری نے ان کتابوں کو بالائے طاق رکھ دیا اور اپنی خواہشات و بدعات کے پیرو بن گئے۔ پھر قرآن کا ذکر فرمایا کہ اب اللہ نے یہ کتاب اتاری ہے جو تمام اختلافات کے درمیان قول فیصل اور سابق صحیفوں کے لیے معیار اور کسوٹی کی حیثیت رکھتی ہے تو اب تم ہر معاملے کا فیصلہ اسی کی روشنی میں کرو، یہود و نصاری کی بدعات کی پروا نہ کرو۔ یہ یہود و نصاری حق کے طالب نہیں ہیں اس وجہ سے یہ وہی لکیر پیٹتے رہیں گے جس کو پیٹتے رہے ہیں۔ ان کو ان کے حال پر چھوڑو۔ حق کی راہ حق کے طالبوں کو ملتی ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ چاہتا سب کو ایک ہی راہ پر کردیتا لیکن اس نے لوگوں کو اختیار کی نعمت بخشی کہ ان کا امتحان کرے کہ کون حق کی راہ اختیار کرتا ہے، کون باطل کی، تو ان کے پیچھے اپنی راہ کھوٹی کرنے کے بجائے تم فلاح وسعادت کی راہ میں سبقت کرو۔ کل سب کا معاملہ خدا کی عدالت میں پیش ہوگا، وہاں سارے اختلافات کا فیصلہ ہوجائے۔ آخر میں آنحضرت ﷺ کو مزید تاکید فرمائی کہ خواہ یہود و نصاری کتنا ہی زور صرف کریں تم کسی حال میں بھی کتاب الٰہی کے بالمقابل ان کی بدعات و خواہشات کی پروا نہ کرنا۔ اگر وہ کتاب الٰہی کے انحراف کی اسی روش پر اڑے رہے تو سمجھ لو کہ وقت آچکا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی بعض شرارتوں کی سزا ان کو اسی دنیا میں دے۔ اس روشنی میں آگے کی آیات کی تلاوت فرمائیے : يٰٓاَيُّھَا الرَّسُوْلُ لَا يَحْزُنْكَ الَّذِيْنَ يُسَارِعُوْنَ فِي الْكُفْرِ مِنَ الَّذِيْنَ قَالُوْٓا اٰمَنَّا بِاَفْوَاهِهِمْ وَلَمْ تُؤْمِنْ قُلُوْبُهُمْ ڔ وَمِنَ الَّذِيْنَ هَادُوْا ڔ سَمّٰعُوْنَ لِلْكَذِبِ سَمّٰعُوْنَ لِقَوْمٍ اٰخَرِيْنَ ۙ لَمْ يَاْتُوْكَ ۭيُحَرِّفُوْنَ الْكَلِمَ مِنْۢ بَعْدِ مَوَاضِعِهٖ ۚ يَقُوْلُوْنَ اِنْ اُوْتِيْتُمْ هٰذَا فَخُذُوْهُ وَاِنْ لَّمْ تُؤْتَوْهُ فَاحْذَرُوْا ۭ وَمَنْ يُّرِدِ اللّٰهُ فِتْنَتَهٗ فَلَنْ تَمْلِكَ لَهٗ مِنَ اللّٰهِ شَـيْـــــًٔـا ۭ اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ لَمْ يُرِدِ اللّٰهُ اَنْ يُّطَهِّرَ قُلُوْبَهُمْ ۭلَهُمْ فِي الدُّنْيَا خِزْيٌ ښ وَّلَهُمْ فِي الْاٰخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيْمٌ۔ رسول کی ذمہ داری : يٰٓاَيُّھَا الرَّسُوْلُ۔ لفظ رسول سے خطاب یہاں اس حقیقت کو ظاہر کررہا ہے کہ رسول کی اصل ذمہ داری صرف اللہ کے دین کی تبلیغ اور انذار وتبشیر کے فریضہ کی ادائیگی ہے۔ اس امر کی کوئی ذمہ داری اس پر نہیں ہے کہ لوگ اس کی دعوت کے معاملے میں رویہ کیا اختیار کرتے ہیں۔ اگر رسول نے اپنا فرض رسالت ادا کردیا ہے تو وہ عنداللہ اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہوگیا، لوگ اگر کفر کی راہ میں سبقت کرتے ہیں تو اس کی پرسش رسول سے نہیں ہونی ہے بلکہ خود لوگوں سے ہونی ہے، پھر جو بات دوسروں سے متعلق ہے اس کا غم رسول کیوں کرے ؟ یہاں چونکہ مقصود آنحضرت ﷺ کو منافقین اور یہود کی مخالفانہ اور سازشانہ روش پر تسلی دینا اور اس حقیقت کو واضح کرنا ہے کہ جن کا فتنہ میں پڑنا سنت الٰہی کے بموجب مقدر ہوچکا ہے وہ فتنہ میں پڑ کے رہیں گے اس وجہ سے " یایہا الرسول " کے خطاب سے آپ کو مخاطب کرنا موزوں ہوا تاکہ خطاب ہی سے آپ کی ذمہ داری کی حد آپ پر واضح ہوجائے۔ آگے خطاب کی یہی مضمر حقیقت الفاظ میں یوں واضح فرما دی گئی ہے۔ من یرد اللہ فتنتہ فلن تملک لہ من اللہ شیئا، اس پر مزید بحث آیت 67 کے تحت بھی آئے گی۔ منافیق کی یہود دوستی : يُسَارِعُوْنَ فِي الْكُفْرِ۔ کفر میں سبقت سے اشارہ یہاں منافقین کی یہود دوستی کی طرف ہے کہ یہ لوگ خدا اور اس کی شریعت سے فرار کے لیے یہود کو ملجا و ماوی سمجھتے ہیں۔ اگرچہ زبان سے دعوی ایمان کا کرتے ہیں لیکن جب کوئی معاملہ اور قضیہ پیش آتا ہے تو ان کی انتہائی کوشش یہ ہوتی ہے کہ اس کو آنحضرت ﷺ کی عدالت میں پیش کرنے کے بجائے یہود کی عدالت میں لے جائیں تاکہ وہاں سے حسب منشا فیصلہ حاصل کرسکیں۔ حالانکہ اللہ و رسول کی عدالت کے ہوتے ہوئے کسی اور کی عدالت کے طرف رجوع کرنا ایمان و اسلام کو چھوڑ کر کفر کی طرف رجوع کرنا ہے۔ منافقین کا من بھاتا کھاجا : سَمّٰعُوْنَ لِلْكَذِبِ ، سمع، کے معنی جس طرح سننے کے آتے ہیں اسی طرح قبول کرنے کے بھی آتے ہیں اور " ل " یہاں اضافت کے مفہوم کو ظاہر کر رہا ہے۔ یہ منافقین کی وہ صفت بیان ہوئی جس سے ان کی سبقت الی الکفر کی توجیہہ ہو رہی ہے کہ ان کا من بھاتا کھاجا جھوٹ ہے، یہ جھوٹ کے رسیا اور جھوٹ کے گاہک ہیں، انہیں جھوٹی گواہی، جھوٹی عدالت اور جھوٹا فیصلہ چاہیے۔ اس وجہ سے یہ پیغمبر کی عدالت سے گھبراتے ہیں اور یہود کی طرف بھاگتے ہیں۔ اس لیے کہ یہ جس جنس کے خریدار ہیں اس کی فراوانی اسی بازار میں ہے۔ منافقین یہود کے ہاتھوں میں کٹھ پتلی : سَمّٰعُوْنَ لِقَوْمٍ اٰخَرِيْنَ ۙ لَمْ يَاْتُوْكَ ، یہ ان منافقین کی دوسری صفت ہے اور چونکہ بعینہ پہلی صفت ہی کا پرتو ہے اس وجہ سے حرف عطف کے بغیر مذکور ہوئی۔ یعنی یہ منافقین اگر آپ کے پاس آتے ہیں تو اپنے ذوق و شوق سے اور حق و انصاف کے لیے نہیں آتے بلکہ دوسروں کے بھیجے ہوئے اور ان کے سکھائے پڑھائے ہوئے آتے ہیں۔ اشارہ یہود کے علما اور لیڈروں کی طرف ہے جن کا حال یہ بیان ہوا ہے کہ وہ خود سامنے نہیں آتے بلکہ پردے کے پیچھے بیٹھے ہوئے ان کٹھ پتلیوں کو نچاتے ہیں اور یہ ان کے اشاروں پر ناچتے ہیں، جو کچھ وہ کہتے ہیں یہ اسی کو مانتے ہیں اور جو کچھ ان کا ایما ہوتا ہے یہ اسی کی تعمیل کرتے ہیں۔ کلام کو اس کے واضح محمل سے ہٹانا تحریفِ دین ہے : يُحَرِّفُوْنَ الْكَلِمَ مِنْۢ بَعْدِ مَوَاضِعِهٖ ۚ يَقُوْلُوْنَ اِنْ اُوْتِيْتُمْ هٰذَا فَخُذُوْهُ وَاِنْ لَّمْ تُؤْتَوْهُ فَاحْذَرُوْا، یہ ان یہود کی پس پردہ سازشوں سے پردہ اٹھایا اور بتایا جا رہا ہے کہ یہ منافقین جن کے مرید ہیں اور جن سے یہ الہام حاصل کرتے ہیں ان کی کارستانیاں کیا ہیں اور وہ ان کو کیا سبق پڑھا کر آپ کے پاس بھیجتے ہیں۔ ان کی ایک کارستانی تو یہ بتائی کہ " یحرفون الکلم من بعد مواضعہ " اس کا ذکر آیت 13 کے تحت بھی گزر چکا ہے۔ بس یہ فرق یہ ہے کہ وہاں " یحرفون الکلم عن مواضعہ " ہے اور یہاں " من بعد مواضعہ " ہے۔ بات اگرچہ اصل حقیقت کے لحاظ سے دونوں جگہ ایک ہی ہے لیکن اس دوسرے اسلوب نے آیت کے مفہوم کو نسبتاً زیادہ واضح کردیا ہے۔ جملہ میں ایک مضاف عربیت کے عام قاعدے کے مطابق محذوف ہے۔ مطلب یہ ہے کہ وہ اللہ کے کلام اور اس کے احکام کا موقع و محل اور اس کا محمل و مصداق متعین ہوجانے کے باوجود اس کو اس کے موقع و محل سے ہٹا دیتے ہیں جس سے حکم کا مقصد بالکل فوت ہو کر رہ جاتا ہے۔ اگر کسی حکم کا موقع و محل و مصداق واضح نہ ہو جس کے سبب سے قاضی و مفتی تطبیق میں غلطی کرجائیں تو ان کو معذور ٹھہرایا جاسکتا ہے، لیکن محمل و مصداق کے تعین کے باوجود اس حکم کو اس کے موقع و محل سے ہٹانا صریح تحریف دین ہے اور ہم تفسیر سورة بقرہ میں واضح کرچکے ہیں کہ یہود اپنے صحیفوں میں جس طرح تحریف لفظی کے مرتکب ہوئے ہیں اسی طرح اس انطباقی تحریف کے بھی مرتکب ہوئے خاص طور پر تعزیرات و حدود کے باب میں تو انہوں نے اس خنجر تحریف کو اس بےدردی کے ساتھ استعمال کیا کہ شریعت کی کوئی حدود تعزیر بھی اس سے سلامت نہ رہ سکی۔ اور افسوس ہے کہ تحریف کی اس قسم کے ارتکاب میں یہ امت بھی یہود سے کچھ پیچھے نہیں رہی۔ ان کی دوسری کارستانی یہ بتائی کہ یہ ان منافقین کو یہ سکھا کر آپ کے پاس بھیجتے ہیں کہ اگر تمہارے قضیے کا فیصلہ یہ ہو تب تو قبول کرلینا اور اگر یہ فیصلہ نہ ہو تو اس کو قبول نہ کرتا۔ گویا اول تو وہ خود ہی تحریف کے چور دروازے سے مجرم کے لیے فرار کی راہ نکال دیتے ہیں اور اگر اس میں کچھ زحمت محسوس ہوتی ہے تو آنحضرت ﷺ کی عدالت میں معاملہ کو بھیج دیتے ہیں لیکن اس ہدایت کے ساتھ کہ فیصلہ حسب منشا ہو تب تو قبول کرلینا ورنہ اس سے کترا جانا۔ مطلب قرآن کا اس ساری پردہ دری سے یہ ہے کہ جو لوگ اس طرح کے فتنہ کاروں کے ہتھے چڑھے ہوئے ہیں اور خود بھی فتنہ پسند ہیں ان کو ان کی قسمت پر چھوڑو، ان کی اس حالت پر غم نہ کرو۔ ہدایت و ضلالت کے باب میں سنت الٰہی : وَمَنْ يُّرِدِ اللّٰهُ فِتْنَتَهٗ فَلَنْ تَمْلِكَ لَهٗ مِنَ اللّٰهِ شَـيْـــــًٔـا، یہ ہدایت و ضلالت کے باب میں اس سنت الٰہی کا بیان ہے جس کی تفصیل سورة بقرہ کے شروع اور دوسرے متعدد مقامات میں بیان ہوچکی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حق و باطل اور خیر و شر میں امتیاز کی صلاحیت اور انسان کو اختیار کی نعمت دے کر اس کو دونوں طرح کے حالات سے آزمایا، اس کے سامنے نفس اور شیطان کی طرف سے شر و باطل بھی آتا ہے اور فطرت اور خدائے رحمان کی طرف سے خیر اور حق بھی۔ اس طرح اس کے عقل و ارادے کا امتحان ہوتا ہے کہ وہ خیر اور حق کو اختیار کرتا ہے یا شر و باطل کو۔ سنت الٰہی یہ ہے کہ جو لوگ جانتے بوجھتے اور دیکھتے سنتے شر کو خیر پر اور باطل کو حق پر ترجیح دیتے ہیں، نہ خدا کی تنبیہات سے سبق حاصل کرتے نہ اہل حق کی نصیحتوں سے، وہ آہستہ آہستہ اپنے ضمیر اور اپنے عقل و ارادے کو اس درجہ کند اور بےحس بنا لیتے ہیں کہ ان کے اندر حق کی طرف بڑھنے کا کوئی عزم و حوصلہ سرے سے باقی رہ ہی نہیں جاتا۔ باطل ہی ان کا اوڑھنا بچھونا بن جاتا ہے۔ ان کو کتنا ہی جھجنجھوڑئیے اور جگائیے۔ لیکن وہ یہ بستر چھوڑنے کا نام ہی نہیں لیتے۔ یہ لوگ ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کو اس فتنہ ہی میں اوندھے منہ پڑے چھوڑ دیتا ہے جس میں وہ پڑچکے ہوتے ہیں۔ پیغمبر اپنی دل سوزی اور محبت حق کی وجہ سے اپنا پورا زور لگاتا ہے کہ ان کو جگائے اور جب یہ نہیں جاگتے تو بعض اوقات اس کو یہ غم ہوتا ہے کہ مبادا ان کا یہ نہ جاگنا خود اس کی کسی کوتاہی کا نتیجہ ہو۔ اسی طرح کا احساس رحمت عالم ﷺ کو بھی ہوتا تھا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے آپ کو تسلی دی کہ کفر کی راہ میں ان لوگوں کی بھاگ دوڑ اس بات کا نتیجہ ہے کہ یہ سنت الٰہی کی زد میں آئے ہوئے ہیں اور جب یہ سنت الٰہی کی زد میں آئے ہوئے ہیں تو بھلا کس کے امکان میں ہے کہ ان کو باطل سے موڑ کر حق کی راہ پر لا سکے۔ ختم قلوب کا مرحلہ : اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ لَمْ يُرِدِ اللّٰهُ اَنْ يُّطَهِّرَ قُلُوْبَهُمْ۔ یہ اشارہ ہے اس سنت الٰہی کی طرف جو قرآن میں ختم قلوب یا " رین " کے الفاظ سے تعبیر ہوئی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ دلوں کی تطہیر اور ان کے تزکیہ کے لیے اللہ کے ہاں ایک خاص ضابطہ ہے۔ جو لوگ نیکی اور تقوی کی راہ پر چلتے ہیں اگر اثنائے راہ میں ان کو کوئی ٹھوکر لگ جاتی ہے، وہ گر پڑتے ہیں، لیکن گرنے کے بعد پھر اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور توبہ و اصلاح کے ذریعے سے دان جھاڑ کے پھر چل کھڑے ہوتے ہیں تو خواہ ہزار بار گریں اور اٹھیں لیکن ان کے دامن دل پر میل جمنے نہیں پاتا، اللہ ان کی توبہ و اصلاح کو ان کے لیے کفارہ سیئات بناتا رہتا ہے۔ لیکن جو لوگ برائی اور نافرمانی ہی کو اپنا پیشہ بنا لیتے ہیں اور گناہوں کی کیچر ہی میں لت پت رہتے ہیں ان سے راحت محسوس کرتے ہیں، آہستہ آہستہ ان کے دلوں پر اتنی سیاہی جم جاتی ہے کہ ان پر کوئی صیقل بھی کارگر نہیں ہوتا، پھر خدا انہیں جہنم کی بھٹی ہی کے لیے چھوڑ دیتا ہے۔ اجزائے کلام کو سمجھ لینے کے بعد نظم کے پہلو سے پھر ایک بار یہ بات ذہن میں تازہ کرلیجیے کہ میثاق الٰہی کی ان دفعات کو بیان کرنے کے بعد جو دوسری ملتوں کے لیے مزلہ قدم ہوئیں، اب یہ ان چور دروازوں کی نشان دہی کی جا رہی ہے جن سے انہوں نے پہلے بھی فرار کی راہیں اختیار کیں اور اب بھی ان کو استعمال کرنا چاہتی ہیں۔ ان چور دروازوں کی نشان دہی سے مقصود، جیسا کہ فحوائے کلام سے واضح ہے، اس امت کو یہ آگاہی دینا ہے کہ تم بھی پچھلی امتوں کی طرح خدا کے میثاق سے فرار اختیار کرنے والے نہ بن جانا بلکہ ہر حالت میں اس پر قائم و استوار رہنا۔ ورنہ جس طرح ان کے لیے دنیا کی رسوائی اور آخرت کا عذاب عظیم ہے اسی طرح تم بھی اس کے مستحق ٹھہروگے۔ خدا کا قانون سب کے لیے یکساں اور بےلاگ ہے۔
Top