Mualim-ul-Irfan - Al-Maaida : 41
یٰۤاَیُّهَا الرَّسُوْلُ لَا یَحْزُنْكَ الَّذِیْنَ یُسَارِعُوْنَ فِی الْكُفْرِ مِنَ الَّذِیْنَ قَالُوْۤا اٰمَنَّا بِاَفْوَاهِهِمْ وَ لَمْ تُؤْمِنْ قُلُوْبُهُمْ١ۛۚ وَ مِنَ الَّذِیْنَ هَادُوْا١ۛۚ سَمّٰعُوْنَ لِلْكَذِبِ سَمّٰعُوْنَ لِقَوْمٍ اٰخَرِیْنَ١ۙ لَمْ یَاْتُوْكَ١ؕ یُحَرِّفُوْنَ الْكَلِمَ مِنْۢ بَعْدِ مَوَاضِعِهٖ١ۚ یَقُوْلُوْنَ اِنْ اُوْتِیْتُمْ هٰذَا فَخُذُوْهُ وَ اِنْ لَّمْ تُؤْتَوْهُ فَاحْذَرُوْا١ؕ وَ مَنْ یُّرِدِ اللّٰهُ فِتْنَتَهٗ فَلَنْ تَمْلِكَ لَهٗ مِنَ اللّٰهِ شَیْئًا١ؕ اُولٰٓئِكَ الَّذِیْنَ لَمْ یُرِدِ اللّٰهُ اَنْ یُّطَهِّرَ قُلُوْبَهُمْ١ؕ لَهُمْ فِی الدُّنْیَا خِزْیٌ١ۖۚ وَّ لَهُمْ فِی الْاٰخِرَةِ عَذَابٌ عَظِیْمٌ
يٰٓاَيُّھَا : اے الرَّسُوْلُ : رسول لَا يَحْزُنْكَ : آپ کو غمگین نہ کریں الَّذِيْنَ : جو لوگ يُسَارِعُوْنَ : جلدی کرتے ہیں فِي : میں الْكُفْرِ : کفر مِنَ : سے الَّذِيْنَ : جو لوگ قَالُوْٓا : انہوں نے کہا اٰمَنَّا : ہم ایمان لائے بِاَفْوَاهِهِمْ : اپنے منہ سے (جمع) وَ : اور لَمْ تُؤْمِنْ : مومن نہیں قُلُوْبُهُمْ : ان کے دل وَمِنَ : اور سے الَّذِيْنَ هَادُوْا : وہ لوگ جو یہودی ہوئے سَمّٰعُوْنَ : جاسوسی کرتے ہیں لِلْكَذِبِ : جھوٹ کے لیے سَمّٰعُوْنَ : وہ جاسوس ہیں لِقَوْمٍ : جماعت کے لیے اٰخَرِيْنَ : دوسری لَمْ يَاْتُوْكَ : وہ آپ تک نہیں آئے يُحَرِّفُوْنَ : وہ پھیر دیتے ہیں الْكَلِمَ : کلام مِنْۢ بَعْدِ : بعد مَوَاضِعِهٖ : اس کے ٹھکانے يَقُوْلُوْنَ : کہتے ہیں اِنْ اُوْتِيْتُمْ : اگر تمہیں دیا جائے هٰذَا : یہ فَخُذُوْهُ : اس کو قبول کرلو وَاِنْ : اور اگر لَّمْ تُؤْتَوْهُ : یہ تمہیں نہ دیا جائے فَاحْذَرُوْا : تو اس سے بچو وَمَنْ : اور جو۔ جس يُّرِدِ اللّٰهُ : اللہ چاہے فِتْنَتَهٗ : گمراہ کرنا فَلَنْ تَمْلِكَ : تو ہرگز نہ آسکے گا لَهٗ : اس کے لیے مِنَ : سے اللّٰهِ : اللہ شَيْئًا : کچھ اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو لَمْ يُرِدِ : نہیں چاہا اللّٰهُ : اللہ اَنْ : کہ يُّطَهِّرَ : پاک کرے قُلُوْبَهُمْ : ان کے دل لَهُمْ : ان کے لیے فِي الدُّنْيَا : دنیا میں خِزْيٌ : رسوائی وَّلَهُمْ : اور ان کے لیے فِي : میں الْاٰخِرَةِ : آخرت عَذَابٌ : عذاب عَظِيْمٌ : بڑا
اے رسول ! نہ غم میں ڈالیں آپ کو وہ لوگ جو دوڑتے ہیں کفر کی طرف۔ ان لوگوں میں سے جنہوں نے کہا ہے کہ ہم ایمان لائے ہیں اپنے منہ سے صرف ‘ اور ان کے دل ایمان نہیں لائے اور ان لوگوں میں سے جو یہودی ہیں۔ بہت سنتے ہیں وہ جھوٹ کو۔ وہ سنتے ہیں دوسری قوم کے لیے جو آپ کے پاس نہیں آئے وہ تحریف کرتے ہیں کلام کو اس کی جگہ سے اور کہتے ہیں کہ اگر دیے جائو تم وہ بات جو تمہاری مرضی کے مطابق ہے پس لے لو اس کو۔ اور اگر تم کو نہ دی جائے وہ بات تو بچتے رہو۔ اور جس شخص کے بارے میں اللہ چاہے فتنے میں ڈالنا پس ہرگز نہیں ‘ ۔۔ ہوں گے آپ اس کے لیے اللہ کے سامنے کسی چیز کے ۔ یہی لوگ ہیں کہ نہیں ارادہ کیا اللہ تعالیٰ نے کہ ’ ان کے دلوں کو پاک کرے۔ ان کے لیے دنیا میں رسوائی ہے اور آخرت میں عذاب عظیم
ربط آیات گذشتہ رکوعات میں پہلے اہل کتاب کی طرف سے نقض عہد کا ذکر ہوا۔ درمیان میں اللہ تعالیٰ نے فساد فی الارض کی قباحت بیان فرمائی آدم (علیہ السلام) کے دو بیٹوں کا تذکرہ ہوا ‘ ا ن میں سے ایک نے فساد فی الارض کا ارتکاب کرتے ہوئے دوسرے کو قتل کردیا ‘ پھر بھائی کی لاش کو ٹھکانے لگانے کے سلسلے میں قاتل بھائی کی بیوقوفی کا ذکر بھی ہوا اور پھر اس کے آخرت کے انجام کی نشاندھی کی گئی۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو قتل نفس کی برائی سے آگاہ کیا اور تورات میں موجود انسانی جان کے تحفظ کا قانون ان کو یاد کرایا پھر ڈاکے اور چوری کے جرائم کا تذکرہ ہوا اور اللہ تعالیٰ نے ان کی سزائیں بھی بیان فرمائیں۔ اہل کتاب میں سے خصوصاً یہود کی خباثتوں کا زیادہ ذکر ہے ‘ اور اب کچھ ذکر منافقین کی قباحتوں کا بھی آرہا ہے ۔ اور اس کے ساتھ ساتھ پیغمبر اسلام کو تسلی بھی دی جارہی ہے۔ منافقوں کی دورخی ارشاد ہوتا ہے ۔ یایھا الرسول اے ۔ رسول مقبول ! لایحزنک الذین یسارعون فی الکفر آپ کو وہ لوگ غم زدہ نہ کردیں جو دوڑ دوڑ کر کفر میں جا رہے ہیں۔ من الذین قالوآ امنا بافوا ھھم اور وہ ان لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے محض زبانی طور پر کہا کہ ہم ایمان لائے ہیں ولم تئو من قلوبھم مگر ان کے دل مومن نہیں ہوئے۔ یہ ان منافقین کا ذکر ہے۔ جن کی اکثریت مدینے کے یہودیوں میں سے تھی۔ کفار کے ساتھ ان کا میل جول نبی (علیہ السلام) پر ساق گزرتا تھا ‘ اس لیے اللہ تعالیٰ نے آپ کو تسلی دی کہ منافقین کی مذموم حرکات سے آپ رنجیدہ نہ ہوں ‘ بلکہ اہل حق کے مطابق اپنا فریضہ احسن طریقے سے انجام دیتے رہیں۔ اس کے باوجود اگر کوئی شخص برائی کی طرف رخ کرتا ہے تو اس کا معاملہ اللہ پر چھوڑ دیں ‘ وہ خود ان سے نبٹ لے گا۔ بہر حال آیت کے اس حصہ میں اللہ جل شانہ نے ایک طرف یہود اور منافقین کی مذمت بیان فرمائی ہے تو دوسری طرف اپنے پیغمبر کی حوصلہ افزائی بھی کی ہے۔ دراصل منافقین نے دو رخی پالیسی اختیار کر رکھی تھی ذا الوجھین الذی یالی ھئو لآء بوجہ وھئو لآء بوجہ جب مسلمانوں کی مجالس میں آتے تو ان کی طرف داری کرتے اور جب یہود و کفار کے پاس جاتے تو ان سے وفاداری اور مسلمانوں سے غداری کا اظہار کرتے۔ ان کے ذہنوں میں استقرار نہیں تھا مگر وہ کفار کے قریب تر تھے ‘ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ان کی مذمت بیان فرمائی ہے جاسوس یہودی منافقوں کے تذکرے کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے ان یہودیوں کی نشاندہی بھی کی ہے جو اہل ایمان کے خلاف ریشہ دوانیوں میں مصروف تھے ‘ اور اسلام کو زک پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تھے۔ فرمایا ومن الذین ھادوا اور یہودیوں میں سے بھی کچھ لوگ ایسے ہیں سمعون للکذب جو بہت زیادہ سننے والے ہیں جھوٹ کو ۔ مطلب یہ کہ اسلام کے خلاف جھوٹی باتوں میں بہت دلچسپی لیتے ہیں۔ سمعون لقوم اخرین دوسری قوم کے لیے بہت زیادہ سننے والے ہیں۔ سمعون کا عام فہم معنی تو سننے والے ہی ہیں۔ اللہ نے یہودیوں کی یہ خصلت بیان فرمائی ہے۔ کہ جو کوئی اسلام کی مخالفت میں جھوٹی موٹی بات کرتا تھا اسے بڑے غور سے سنتے تھے اور پھر ان کے ساتھ اسلام دشمن پر اپگنڈے میں شریک ہوجاتے تھے۔ سمعون کا دوسرا معنی جاسوسی کرنا ہے۔ یہ لوگ اغیار کے لیے اسلام کے خلاف جاسوسی کرتے تھے۔ یہودیوں کا ایک طبقہ ایسا بھی تھا جو پیغمبر اسلام ﷺ کی مجالس میں حاضر ہو کر آپ کی باتیں بھی سنتا تھا۔ ان کا مقصد یہ ہوتا تھا۔ کہ یہاں سے کوئی کمزور بات ہاتھ آئے تو اس میں جھوٹ ملا کر اپنے بڑوں کے پاس جا کر کریں اور اس طرح ان سے داد وصول کریں۔ اس طریقے سے یہ لوگ اسلام کے خلاف پر اپگینڈا میں معاون بنتے تھے۔ بہر حال فرمایا کہ ایسے یہودیوں کا مسلمانوں کی مجالس میں آنا دین میں رغبت کی وجہ سے نہیں ہوتا تھا بلکہ اس قوم کے لیے جاسوسی کرنا ہوتا تھا لم یاتوک جو آپ کے پاس نہیں آتے۔ یعنی آپ کے پاس آنیوالے لوگ آپ کی باتیں ان تک پہنچاتے ہیں۔ جو آپ کے پاس نہیں پہنچتے۔ تحریف فی الکتاب فرمایا ‘ یہ یہودی لوگ اسلام دشمنی میں تو پیش پیش ہیں مگر ان کی اخلاقی پستی کا یہ حال ہے کہ یحرفون الکلم من بعد مواضعہ کلام الہٰی کو اپنے موقع محل سے تبدیل کردیتے ہیں۔ چناچہ تورات میں مذکور جرائم کی سزائوں میں ازخود کمی بیشی کرلیتے تھے۔ اگر کوئی ذی اثر آدمی جرم کا ارتکاب کرتا ‘ تو اسے معمولی سزادے کر چھوڑ دیتے اور اگر کوئی غریب آدمی کسی جرم میں ملوث ہوجاتا ‘ تو اسے پوری سزا دی جاتی۔ آہستہ آہستہ انہوں نے زنا کے جرم میں رجم کی سز ا کو بالکل ختم کردیا اور اس کی بجائے مرتکبین کی تذلیل و تحقیر کرکے معاملے کو ختم کردیتے۔ اس سلسلے میں مفسرین کرام یہودیوں میں پیش آنے والے ایک زنا کے کیس کا ذکر بھی کرتے ہیں۔ یہودیوں میں ایک شادی شدہ جوڑے نے زنا کا ارتکاب کیا۔ وہ خود تو رجم کی سزا کو ختم کرچکے تھے۔ لہٰذا انہوں نے منصوبہ یہ بنایا کہ اس معاملہ کو مسلمانوں کے پیغمبر کے پاس لے چلیں۔ اگر وہ ہماری مرضی کی سزادیں تو اسے قبول کرلیا جائے اور اگر وہ رجم کی سزا تجویز کریں تو پھر انکار کردیا جائے۔ چناچہ یہودی یہ مقدمہ لے کر حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے کہ اس معاملہ میں فیصلہ فرمادیجئے ‘ ان میں ایک یہودی عالم ابن صور یا بھی تھا۔ نبی (علیہ السلام) نے اس سے پوچھا کہ تورات میں زنا کی سزا کا کیا حکم ہے۔ آپ نے خاص طور پر دریافت کیا کہ کیا وہاں پر سنگساری کی سزا نہیں ہے۔ تو یہودی عالم نے انکار کردیا۔ اس پر آپ نے تورات کا نسخہ منگوا کر یہودی کو پڑھنے کے لیے کہا۔ جب وہ رجم کی آیت پر پہنچا تو اسے چھپانا چاہا۔ اس آیت پر انگلی رکھ کر اس کا اگلا پچھلا حصہ پڑھ دیا۔ وہاں پر حضرت عبد اللہ بن سلام ؓ بھی موجود تھے۔ جو تورات کے بہت بڑے عالم تھے ‘ انہیں اللہ نے ایمان کی دولت عطا کی تھی۔ انہوں نے رجم والی آیت کی نشاندہی کردی جس پر یہودی بہت نادم ہوئے اور ان کی خبائت کا راز کھل گیا۔ اسی واقعہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ یہودی خود تو تحریف کے مرتکب ہوتے ہیں اور اگر کوئی معاملہ حضور ختم المرسلین کے پاس لے آتے ہیں تو ان کی سازش یہ ہوتی ہے یقولون ان اوتیتم ھذا فخذوہ یعنی اگر تمہاری مرضی کا فیصلہ مل جائے تو اسے قبول کرلو ‘ وان لم تئو توہ فاحذروا اور اگر تمہیں مطلب کا فیصلہ نہ ملے تو اس سے بچ جائو یعنی قبول نہ کرو۔ اسی پالیسی کے تحت ابن صور یا نے بھی رجم کے حکم کا انکار کیا ‘ مگر حضور ﷺ نے فرمایا میں تجھے اللہ وحدہ لاشریک کی قسم دیتا ہوں جس نے موسیٰ (علیہ السلام) کو نجات دی اور فرعون کو غرق کیا اور جس نے تورات کو نازل فرمایا ‘ تم سچ سچ بتائو کیا تورات میں رجم کا حکم موجود نہیں ہے۔ بالاخر اس یہودی عالم کو اس بات کا اقرار کرنا پڑا۔ اس پر دوسرے یہودی اس کے خلاف ہوگئے اور اس سے الجھنے لگے۔ تاہم یہودیوں کی طرف سے تحریف فی الکتاب کا ثبوت مہیا ہوگیا ۔ قدرت میں تحریف کا ارتکاب یہودیوں کا پرانا مشغلہ ہے ہر نئے ایڈیشن میں کوئی نہ کوئی تبدیلی واقع ہوجاتی ہے ‘ مگر خدا کی قدرت وہ آیت آج بھی تورات میں موجود ہے۔ تورات کے اردو نسخوں میں یہ الفاظ موجود ہیں کہ جو شخص پڑوسی کی بیو ی کے ساتھ زنا کرے وہ جان سے مارا جائے گا گویا شادی شدہ زانی کے لیے سزائے موت ہے اور یہ وہی سزا ہے جو دین محمدی میں بھی بدستور قائم ہے۔ یہود کی طرف سے بائیبل میں تحریف لفظی کی کئی ایک مثالیں بھی موجود ہیں۔ جیسا کہ کسی گذشتہ درس میں بیان ہوچکا ہے ۔ کہ بائیبل میں فارقلیط کا لفظ موجود تھا جس کے معنی احمد میں اور یہ لفظ حضور خاتم الانبیاء کی بعثت پر دلالت کرتا ہے ‘ مگر انہوں نے فار قلبط کی بجائے مدد گار یا وکیل کا لفظ داخل کردیا ۔ بحر حال تحریف فی الکتاب کے مختلف طریقے استعمال کرتے تھے ‘ کبھی کسی حکم کو بالکل چھپا جاتے ‘ کبھی الفاظ تبدیل کرتے اور کبھی الفاظ کا مطلب غلط بیان کرتے ‘ یہ سب تحریف ہی کی مختلف اقسام ہیں ۔ حضور کی تسلی اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ‘ آپ ان کے بارے میں غم زدہ نہ ہوں ‘ ان کی ہدایت کے لیے زیادہ فکر مند نہ ہوں ‘ کیونکہ ومن یرد اللہ فتنہ فلن تملک لہ من اللہ شیئاط جس کو اللہ فتنے میں ڈالنا چاہے یعنی گمراہ کرنے کا ارادہ کرے ‘ اس کے لیے آپ کسی چیز کے مالک نہیں ہیں۔ یعنی آپ ان کو راہ راست پر لانے پر قادر نہیں ہیں۔ فرمایا اولئک الذین لم یرد اللہ ان یطھر قلوبھم یہی لوگ ہیں کہ جن کے دلوں کو پاک کرنے کا اللہ تعالیٰ ارادہ نہیں رکھتا۔ یہ لوگ کفر ونفاق میں اتنے آگے بڑھ چکے ہیں کہ ان کی واپسی کی کوئی امید باقی نہیں رہی اور ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ اسی شخص کے دل کو پاک کرتا ہے جسے خود طلب ہو۔ جو شخص اپنی غلطی کا احساس کرکے اپنی۔۔ اصلاح کا خواہشمند ہو ‘ اللہ تعالیٰ اس کی راہنمائی فرماتا ہے اور اس کے دل کو کفر ‘ شرک اور نفاق سے پاک صاف کردیتا ہے ‘ برخلاف اس کے جو لوگ عنادی اور باطل پرست ہوتے ہیں۔ ان کے متعلق اللہ نے فرمایا ختم اللہ علی قلوبھم ان کے دلوں پر مہریں لگ چکی ہیں کلا بل سکتہ ران علی قلوبھم ماکانوا یکسبون “ اپنی بدکرداری کی وجہ سے ان کے دل زنگ آلوہو چکے ہیں ‘ لہذا اب وہ حق کی طرف نہیں آسکتے۔ ہاں ! اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ اب بھی موجود ہے والذین جاھدوا فینا لنھدینھم سبلنا “ جو ہماری طرف آنا چاہتے ہیں ہم ضرور ان کی سیدھے راستے کی طرف راہنمائی کرتے ہیں۔ جو لوگ اللہ تعالیٰ کی طرآجاتے ہیں پھر اللہ ان کے دل پاک کردیتا ہے۔ بہرحال فرمایا کہ اللہ تعالیٰ باطل پرست لوگوں کے دل پاک نہیں کرتا لھم فی الدنیا خزی ان کے لیے دنیا میں رسوائی ہے ولھم فی الاخرۃ عذاب عظیم اور ان کے لیے آخرت میں بھی عذاب عظیم تیا ر کیا گیا ہے۔ اگر بغیر توبہ کیے ان کا خاتمہ یہودیت پر ہی ہوگیا تو بہت بڑی سزا کے مستحق ہوں گے۔ حرام خوری فرمایا سمعون للکذب یہ لوگ جھوٹی باتیں سننے کے بڑے عادی ہیں یا یہ کہ جھوٹوں کے لیے جاسوسی کرتے ہیں تاکہ لوگ اسلام سے متنفر ہوجائیں۔ اس کے علاوہ یہ لوگ اکلون للسحت حرام خور بھی ہیں۔ اور وہ اس طرح کہ احکام میں غلط فتویٰ دیکر لوگوں کا مال کھاتے ہیں ‘ مقدمات میں غلط فیصلے کر کے رشوت لیتے ہیں۔ سود کے موجد یہی لوگ ہیں اور اس کے ذریعے بھی حرام خوری کے مرتکب ہوتے ہیں۔ سورة آل عمران میں گزر چکا ہے۔ کہ یہودی عربوں کا مال ناجائز طریقے سے کھاتے تھے اور ان کا فتویٰ تھا کہ امی لوگوں کا مال ا ن کے لیے حلال ہے۔ یہ سب ان کی حرام خوری کے ذرائع تھے۔ اس کے علاوہ سحت غیر اللہ کی نذر دنیاز پر بھی صادق آتا ہے۔ قرآن پاک میں موجود ہے۔ ” ان کثیرا من الاحبار والرھبان لیا کلون اموال الناس بالباطل “ یہودیوں کے اکثر علماء اور مشائخ لوگوں کا مال باطل طریقے سے کھاتے تھے غیر اللہ کی نذر ونیاز اسی قبیل سے ہے جو یہودی علماء بغیر ڈکار لیے کھا جاتے تھے۔ مگر حضور ﷺ کی پیشین گوئی کے مطابق یہ خصلت اب مسلمان مولویوں اور پیروں میں بھی پیدا ہوچکی ہیں۔ حلال و حرام کی تخصیص کیے بغیر ان کو بھی کھانے سے غرض ہے۔ خواہ کسی راستے سے آئے۔ آج گنڈے تعویز کا سلسلہ بھی بڑی ترقی کر گیا ہے۔ جاہل عورتیں خود ساختہ پیروں کے دام فریب میں گرفتار ہیں۔ ہر جائز و ناجائز مقصد کے لیے تعویزوں پر رق میں خرچ کرتی ہیں اور کھانے والے یہ حرام کمائی کو کھا رہے ہیں۔ یہ سب چیزیں سحت کا حصہ ہیں۔ یہودیوں کے مقدمات فرمایا یہ یہودی اپنے مقدمات کا فیصلہ آپ سے کرانا چاہتے ہیں فان جآءوک فاحکم بینھم اگر وہ آپ کے پاس تنازعہ لے کر آجائیں تو آپ ان کے درمیان فیصلہ کردیں او اعرض عنھم یا ان سے اعراض کریں یہ آپ کی صوابدید پر ہے فیصلہ کرنا پسند کریں تو کردیں ورنہ جواب دے دیں۔ وان تعرض عنھم اگر آپ ان سے اعراض کا فیصلہ کریں یعنی ان کے مقدمات کی سماعت کو پسند نہ کریں تو پھر تشویش کی کوئی بات نہیں ہے فلن یضرو کا شیئا یہ لوگ آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ وان حکمت اور اگر ان کے مقدمات نمٹانا چاہیں فاحکم بینھم بالقسط تو آپ ان کے درمیان حق و انصاف کی بنیاد پر فیصلہ کریں اپنے دین اور شریعت کے احکام کی روشنی میں ان کی حق رسی کریں کیونکہ ان اللہ یحب المقسطین اللہ تعالیٰ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ آپ مکمل انصاف کے مطابق فیصلہ کریں۔ آگے اللہ تعالیٰ نے خود ہی استفسارانہ لہجے میں فرمایا وکیف یحکمونک وعندھم التورۃ وہ لوگ آپ کو کیسے منصف بنائیں گے جبکہ ان کے اپنے پاس تو رات موجود ہے۔ فیھا حکم اللہ جس میں اللہ تعالیٰ کے احکام موجود ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ اگر حق کا فیصلہ مطلوب ہو تو ان کے پاس تورات موجود ہے اس کے احکام کے مطابق فیصلہ خود کرسکتے ہیں مگر چونکہ یہ حیلے بہانے سے احکام الہٰی سے گریز کرتے ہیں لہذا آپ کے پاس آتے ہیں کہ شاید آپ ان کی مرضی کے مطابق فیصلہ کردیں مگر آپ کے لیے حکم یہی ہے کہ آپ حق و انصاف کے دامن کو مضبوطی سے تھامے رہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کے پسند یدہ وہی لوگ ہیں جو انصاف پر قائم رہتے ہیں۔ فرمایا تورات میں واضح احکام کی موجود گی کے باوجود ثم یتولون من م بعد ذلک یہ لوگ ان احکام کو ٹال جاتے ہیں ‘ ان سے رو گردانی کرتے ہیں۔ تورات میں خود تحریف کی ہے ‘ اور اب اپنی پسند کے فیصلے کے لیے دوسروں کا سہارا ڈھونڈتے ہیں۔ چونکہ زنا کا کیس حضور ﷺ کی عدالت میں پیش ہوچکا تھا لہذا آپ نے تورات اور قرآن پاک کے حکم کے مطابق مرد و زن کے لیے سزائے موت کا حکم دیا صحیح احادیث میں موجود ہے کہ فیصلہ سنانے کے بعد حضور ﷺ نے فرمایا الحمد اللہ اللہ تعالیٰ نے میری وجہ سے اس حکم کو زندہ کردیا جسے یہودیوں نے چھپارکھا تھا۔ فرمایا ومآ اولئک بالمئومنین ان لوگوں میں ایمان کی کوئی رمق باقی نہیں۔ اگر ان میں کچھ بھی خوف خدا ہوتا تو خدا کی کتاب پر ایمان لاتے۔ اس کے احکام کو دوبارہ زندگی بخشتے اور دائرہ اسلام میں داخل ہوجاتے ‘ مگر یہ باطل پرست فرقہ کفر ‘ شرک اور معاصی میں غرق ہوچکا ہے۔
Top