Urwatul-Wusqaa - Aal-i-Imraan : 127
لِیَقْطَعَ طَرَفًا مِّنَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اَوْ یَكْبِتَهُمْ فَیَنْقَلِبُوْا خَآئِبِیْنَ
لِيَقْطَعَ : تاکہ کاٹ ڈالے طَرَفًا : گروہ مِّنَ : سے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو كَفَرُوْٓا : انہوں نے کفر کیا اَوْ : یا يَكْبِتَھُمْ : انہیں ذلیل کرے فَيَنْقَلِبُوْا : تو وہ لوٹ جائیں خَآئِبِيْنَ : نامراد
تاکہ منکرین حق کی طاقت کا ایک حصہ بیکار کر دے یا انہیں اس درجہ ذلیل و خوار کر دے کہ نامراد ہو کر الٹے پاؤں پھر جائیں
جنگ احد کے انجام کا ذکر کہ اس نصرت الٰہی کا نتیجہ کیا رہا ؟ 240: جنگ احد میں نصرت الٰہی کی دو اغراض بیان فرمائی ہیں۔ ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ کافروں کی ایک جماعت کو ہلاک کر دے اور دوسری یہ کہ ان کو بےنیل و مرام واپس کر دے۔ یہی وہ جنگ ہے کہ اس میں جنگ نے کئی پہلو بدلے شروع میں مسلمانوں کو فتح ہوتی دکھائی گئی اور مسلمان مال غنیمت کے اکٹھے کرنے میں مصروف ہوچکے تھے کہ کفار نے دوسری طرف سے حملہ کردیا یہ وہ وقت تھا جب جبل عینین والے مجاہدین کی اکثریت بھی اس مقام کو چھوڑ چکی تھی کہ فتح ہوگئی لیکن اس طرف سے مخالفین نے حملہ کردیا اور بھگدڑ سا مچ گیا۔ مسلمانوں کا بھی بہت نقصان ہوا خصوصاً نبی کریم ﷺ کی شہادت کی غلط خبر پھیلا دی گئی جس سے لوگوں کے دل بیٹھ گئے۔ آپ ﷺ کو بھی سخت زخم آئے لیکن زخمی ہونے کے باوجود آپ ﷺ اپنی سواری کے جانور پر بیٹھ گئے اور نعرہ تکبیر بلند کیا۔ جاں نثاروں کو آواز دی دشمنوں کو للکارا اور اس طرح اللہ نے پھر اس ہزیمت سے نکال دکھایا۔ مسلمانوں نے جمع ہو کر دوبارہ حملہ کیا جس کی تاب نہ لا کر کفار دوبارہ بھاگ کھڑے ہوئے۔ چناچہ یہ دونوں باتیں اس طرح وقوع میں آئیں کہ ابتدائے جنگ میں مسلمانوں نے کفار کے ایک حصہ کو ہلاک کیا اور بہت سے لوگوں کو زخمی کیا اور پھر جب دوبارہ مسلمان پلٹے تو مشرکین کو پھر ذلیل ہو کر لوٹنا پڑا اور جس غرض کے لیے وہ آئے تھے اسے حاصل کیے بغیر واپس ہوئے اور اس آیت نے یہ بات واضح کردی کہ جنگ احد میں کفار کو فتح نہیں ہوئی بلکہ قرآن کریم نے انہیں نامزد قرار دیا۔ کفار کا یہ حملہ اس لیے تھا کہ مسلمانوں کو نیست و نابود کردیں اور اس سے کسی کو بھی انکار نہیں کہ وہ اپنی یہ غرض پوری نہ کرسکے اور یہ ان کے لیے بڑی ذلت تھی خصوصاً ان کی اکثریت جو مسلمانوں سے پانچ گنا زیادہ تھی ان کے کچھ بھی کام نہ آئی۔ بلاشبہ مسلمانوں کو بھی اپنی غلطی کی وجہ سے نقصان اٹھانا پڑا لیکن اللہ تعالیٰ کی خاص مدد سے وہ دوبارہ اسی میدان میں سنبھل گئے اور نقصان اٹھانے کے باوجود دشمنوں کو بھگانے میں کامیاب ہوگئے اور مسلمان اس میدان میں پھر جم گئے۔ اتنا کچھ ہونے کے باوجود اتنے بڑے لشکر کا شکست کھا جانا اللہ تعالیٰ کے خاص فضل و کرم کی ایک کھلی دلیل ہے اور یہ سارے واقعات قریش کے لشکر جرار کو ناکام و نامراد ٹھہراتے ہیں۔
Top