Tafseer-e-Jalalain - Maryam : 26
فَكُلِیْ وَ اشْرَبِیْ وَ قَرِّیْ عَیْنًا١ۚ فَاِمَّا تَرَیِنَّ مِنَ الْبَشَرِ اَحَدًا١ۙ فَقُوْلِیْۤ اِنِّیْ نَذَرْتُ لِلرَّحْمٰنِ صَوْمًا فَلَنْ اُكَلِّمَ الْیَوْمَ اِنْسِیًّاۚ
فَكُلِيْ : تو کھا وَاشْرَبِيْ : اور پی وَقَرِّيْ : اور ٹھنڈی کر عَيْنًا : آنکھیں فَاِمَّا تَرَيِنَّ : پھر اگر تو دیکھے مِنَ : سے الْبَشَرِ : آدمی اَحَدًا : کوئی فَقُوْلِيْٓ : تو کہدے اِنِّىْ نَذَرْتُ : میں نے نذر مانی ہے لِلرَّحْمٰنِ : رحمن کے لیے صَوْمًا : روزہ فَلَنْ اُكَلِّمَ : پس میں ہرگز کلام نہ کرونگی الْيَوْمَ : آج اِنْسِيًّا : کسی آدمی
تو کھاؤ اور پیو اور آنکھیں ٹھنڈی کرو اگر تم کسی آدمی کو دیکھو تو کہنا کہ میں نے خدا کے لیے روزے کی منت مانی ہے تو آج میں کسی آدمی سے ہرگز کلام نہ کروں گی
آیت نمبر 26 تا 40 ترجمہ : پھر پکی اور تازہ کھجوریں کھاؤ اور چشمہ کا پانی پیو اور بیٹے سے آنکھیں ٹھنڈی کرو عینًا تمییز ہے فاعل سے منقول ہے یعنی تو اس بچہ کو دیکھ کر آنکھوں کو ٹھنڈا کر کے سکون حاصل کر دوسرے بچوں کی طرف التفات نہ کر فاِمَّا میں ان شرطیہ کے نون کو ما زائدہ میں مدغم کردیا گیا ہے تَرَیِنَّ اس کا لام کلمہ اور عین کلمہ حذف کردیا گیا ہے عین کلمہ کی حرکت نقل کر کے را کو دے دی گئی اور یائے ضمیر کو التقاء ساکنین کی وجہ سے کسرہ دے دیا گیا اگر تو کسی بشر کو دیکھے اور وہ تیرے بچہ کے متعلق سوال کرے تو کہہ دینا کہ میں نے اس بچہ وغیرہ کے بارے میں لوگوں سے کلام کرنے سے رحمٰن کے لئے سکوت کا روزہ رکھ لیا ہے اور سکوت کا روزہ رکھنے کی دلیل اللہ تعالیٰ کا قول فَلَنْ اُکِلِّمَ الیَوْمَ اِنْسِیًّا ہے یعنی میں یہ خبر دینے کے بعد کسی انسان سے کلام نہ کروں گی تو اس بچہ کو لئے ہوئے اپنی قوم کے پاس آئیں تَحْمِلُہٗ ، اَتَتْ کی ضمیر سے حال ہے جب قوم نے بچہ کو دیکھا تو کہا اے مریم تو نے تو بڑا غضب کردیا کہ بغیر باپ کے بچہ کو جنم دیا اے ہارون کی بہن وہ تو ایک صالح شخص تھا اور تو عفت میں اس جیسی ہے تیرا باپ (تو) بدکار زانی شخص نہیں تھا اور نہ تیری ماں بدکارہ زانیہ تھی تو پھر تیرے یہ بچہ کیسے پیدا ہوا، تو حضرت مریم (علیہ السلام) نے ان کے لئے بچہ کی طرف اشارہ کردیا کہ اس سے معلوم کرو، تو کہنے لگے ہم گود کے بچہ سے کیونکر بات کریں تو وہ بچہ بول اٹھا کہ میں اللہ کا بندہ ہوں اس نے مجھے کتاب انجیل دی اور مجھے نبی بنایا اور اس نے مجھے بابرکت یعنی لوگوں کے لئے نفع رساں بنایا ہے میں جہاں کہیں بھی رہوں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے حق میں جو مقدر ہوچکا ہے یہ اس کی خبر ہے اور مجھے نماز اور زکوٰۃ کا تاکیدی حکم فرمایا ہے اوصانی بمعنی امرنی ہے جب تک میں زندہ رہوں اور مجھے اپنی والدہ کا خدمت گذار بنایا ہے بَرًّا جعَلَنِیْ مقدر کی وجہ سے منصوب ہے اور مجھے سرکش متکبر اور بدبخت اپنے رب کا نافرمان نہیں بنایا اور اللہ کا میرے اوپر سلام ہو جس دن میں پیدا ہوا اور جس روز میں مروں گا اور جس روز میں زندہ کر کے اٹھایا جاؤں گا ان تینوں مقامات کی تفسیر میں وہی بات کہی جائے گی جو حضرت سیدنا یحییٰ (علیہ السلام) کے بارے میں کہی گئی تھی یہ ہیں عیسیٰ (علیہ السلام) ابن مریم قول ابن مریم قول حق ہے جس کے بارے میں لوگ شک کر رہے ہیں قول اگر رفع کے ساتھ ہوگا تو مبتداء محذوف کی خبر ہوگا ای قول ابن مریم قول الحقَِّ اور اگر قول پر نصب ہو تو اس صورت میں قلت فعل مقدر ہوگا مفعول ہونے کی وجہ سے منصوب ہوگا، اور (قول الحق کے معنی) القول الحق ہوں گے (یعنی اضافت موصوف الی الصفت کے قبیل سے ہے) یمترون مِرْیَۃ ٌ سے مشتق ہے اور یمترون کے معنی یبشُکُون کے ہیں (اور یہ شک کرنے والے) نصاریٰ ہیں جنہوں نے کہا عیسیٰ (علیہ السلام) اللہ کے بیٹے ہیں جو بالکل جھوٹ ہے اللہ تعالیٰ کی یہ شان نہیں کہ وہ (کسی کو) اولاد بنائے وہ اولاد رکھنے سے بالکل پاک ذات ہے اس کی پاکی بیان کرتا ہوں وہ تو جب کسی کے کرنے (پیدا کرنے کا) ارادہ کرتا ہے تو اس سے کہہ دیتا ہے کہ ہوجا تو وہ ہوجاتی ہے یکون کا اگر رفع پڑھیں تو رفع ھُوَ کی تقدیر کی وجہ سے ہوگا اور اگر نصب پڑھیں تو اَن کی تقدیر کی وجہ سے ہوگا اور اسی (کُنْ فَیَکُوْنُ ) کے قبیل سے بغیر باپ کے عیسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش بھی ہے، بلاشبہ میرا اور تمہارا پروردگار صرف اللہ ہے سو اسی کی عبادت کرو اگر اَنَّ فتح کے ساتھ ہو تو اَنَّ سے پہلے اذکر مقدر ہوگا اور اگر ان کسرہ کے ساتھ ہو تو اِنَّ سے پہلے قُلْ مقدر ماننا ہوگا اور قُلْ مقدر ماننے کی دلیل خود حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا یہ قول ہے مَا قُلْتُ لَھُمْ اِلاَّ مَا اَمَرْتَنِیْ بِہٖ یہ مذکور صراط مستقیم ہے جو جنت تک پہنچانے والی ہے پھر یہ فرقے آپس میں اختلاف کرنے لگے یعنی نصاریٰ کے (ایک فریق) نے عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں کہا کہ وہ ابن اللہ ہے اور (دوسرے فریق) نے کہا کہ وہ خدا کے ساتھ دوسرا خدا ہے (اور تیسرے) نے کہا کہ وہ تین میں کا تیسرا ہے پس کافروں کے لئے مذکورہ وغیرہ (عقائد) کی وجہ سے بڑے دن کی حاضری کا سخت عذاب ہے یعنی قیامت کے دن حاضری اور اس دن کی ہولناکی کا، اَسْمِعْ بِھِمْ وَاَبْصِرْبِھِمْ دونوں تعجب کے صیغے ہیں معنی یہ ہیں کیا خوب سننے والے اور کیا خوب دیکھنے والے ہوں گے جس دن آخرت میں ہمارے سامنے حاضر ہوں گے لیکن آج دنیا میں یہ ظالم صریح گمراہی میں ہیں ضمیر کی جگہ اسم ظاہر کو رکھا گیا ہے، مُبِیْن بمعنی بَیّن ہے، اسی گمراہی کی وجہ سے (دنیا میں) حق بات سننے سے بہرے اور حق دیکھنے سے اندھے رہے، یعنی اے مخاطب تو آخرت میں ان کی شنوائی اور بینائی کی تیزی سے تعجب کرے گا حالانکہ یہ لوگ دنیا میں بہرے اندھے تھے اور اے محمد ﷺ آپ مکہ کے کافروں کو حسرت کے دن سے ڈرائیے اور وہ قیامت کا دن ہوگا جس دن بدکار دنیا میں نیکی نہ کرنے پر حسرت کرے گا جبکہ آخری فیصلہ کردیا جائے گا یعنی ان لوگوں کے لئے ان دن عذاب کا فیصلہ کردیا جائے گا حالانکہ یہ لوگ اس دن سے غافل ہیں اور یہ اس دن پر ایمان نہیں رکھتے اور ہم ہی زمین کے اور جو کچھ اس پر ذوالعقول اور غیر ذوالعقول ہیں وارث ہوں گے ان کو ہلاک کر کے اور اس دن میں جزاء کے لئے ہمارے پاس لوٹائے جائیں گے۔ تحقیق، ترکیب وتفسیری فوائد قَرِّیْ بروزن فَرِّی واحد مؤنث حاضر تو ٹھنڈی کر یہ قُرّ سے مشتق ہے اس کے معنی ہیں خنکی عَیْنَا تمییز ہے فاعل سے محول ہے اَیْ لتَقَرَّ عَیْنُک بہٖ رُوْبَۃِ اِرَائۃً سے واحد مؤنث سے واحد مؤنث حاضر بانون تاکید ثقیلہ تو دیکھے فرِیًّا یہ فَرِیٌ فعیل بمعنی مفعول ہے گھڑنا، تراشنا، جلد کاٹنا وقیل معناہ عظیمٌ، عجیبٌ مَنْ کان میں کَان تامہ ہے صَبِیًّا کان کی ضمیر سے حال ہے اور اگر کان ناقصہ ہو تو صَبِیًّا اس کی خبر ہوگی ذٰلکَ عیسیٰ ابنُ مریَمَ قولُ الحقِ ذلِکَ کا مشارٌ الیہ مذکورہ اقرار عبدیت وغیرہ اوصاف کی حامل شخصیت عیسیٰ السلام ہیں ذلِکَ مبتداء عیسیٰ موصوف ابن مریم بترکیب اضافی صفت موصوف صفت سے مل کر ذلِکَ مبتداء کی خبر قَولُ الحقِّ بترکیب اضافی مبتداء محذوف کی خبر ای قولُہٗ قولُ الحقِ ، قولُ الحق میں اضافت موصوف الی الصفت ہے یعنی قول الحقِّ معنی میں القولُ الحقُّ کے ہے، اور اگر قَوْلُ الحق منصوب پڑھا جائے تو اقول فعل محذوف کا مفعول ہوگا دونوں قرأتوں کی صورت میں قَوْلُ الحقِّ اضافت موصوف الی الصفت ہوگی قولہ فی المھد مہد سے مراد گہوارہ بھی ہوسکتا ہے اور اس سے ماں کی گود بھی مراد ہوسکتی ہے یَمْتَرُوْن اِمتراء سے مجرد مریۃ (افتعال) جمع مذکر غائب وہ شک کرتے ہیں اَلَّذِیْ فِیہِ یَمْتَرُوْنَ مبتداء محذوف کی خبر ہے، ای عیسیٰ ابن مریم الذی فیہ یمترون ای یَتَرَدَّدُوْنَ ویَتَحَیَّرُوْنَ ، أن یَّتَّخِذَ بتاویل مصدر ہو کر کان کا اسم ای مَا کان اِتِّخَاذُ الوَلَدِ مِنْ صفتِہٖ بَل ھُوَ مَحَالٌ عن ذٰلِکَ ای عن اِتِّخَاذ الولد، مِنْ ولدٍ میں من زائدہ تاکید کے لئے ہے قولہ مِنْ خَلْقُ عِیسٰی اور کُنْ فَیَکُوْن کے قبیل سے بغیر باپ کے عیسیٰ (علیہ السلام) کی تخلیق بھی ہے سُبْحَانَہٗ مصدر ہے فعل کو حذف کر کے اس کے قائم مقام کردیا گیا ہے اَیْ اُسَبِّحُہٗ سُبْحَانًا یہ جملہ معترضہ ہے قُل مقدر ماننے کی صورت میں اِنَّ اللہَ رَبِّی وَرَبُّکم حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا مقولہ ہوگا اور دلیل اس کی یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا مَا قُلْتُ لَھُمْ اِلاَّ مَا اَمَرْتَنِی بِہٖ الخ تقدیر عبارت یہ ہے ھٰذا مِن کلاَم عِیسٰی بدلیلِ مَا قُلْتُ لَھُمْ الخ بہرحال اَنَّ دونوں قرأتوں کی صورت میں اَنَّ اللہَ رَبِّیْ وَرَبُّکُمْ فَاعْبُدُوْہٗ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا قول ہے قولہ تَرَیِنَّ اصل میں تَرْأیِیْنَ تھا اس میں را فا کلمہ ہے اور ہمزہ عین کلمہ ہے اور یائے مک سورة لام کلمہ ہے اور دوسری یائے ساکنہ یائے ضمیر ہے اور آخر میں نون اعرابی ہے یائے اولیٰ متحرکہ اپنے ما قبل ہمزہ مفتوحہ ہونے کی وجہ سے الف ہوگئی، اب الف اور یاء ضمیر ساکنہ کے درمیان التقاء ساکنین ہوا تو ہمزہ ساقط ہوگیا نون اعرابی کے جازم کی وجہ سے ساقط ہونے اور نون تاکید ثقیلہ کے داخل ہونے کے بعد التقاء ساکنین ہوا یاء ضمیر اور نون تاکید ثقیلہ کے نون اولیٰ کے ساتھ لہٰذا یاء ضمیر کو کسرہ دے دیا۔ خلاصہ : خلاصہ یہ کہ تَرْأیِیْنَ کی تعلیل میں چھ عمل ہوئے (1) ی کو الف سے بدلا (2) الف کو حذف کیا (3) ہمزہ کی حرکت را کو دی (4) ہمزہ کو حذف کیا (5) ان شرطیہ کی وجہ سے نون اعرابی ساقط ہوا (6) یائے ضمیر کو کسرہ دیا قولہ اَناسِیْ یا تو اِنِسِیِّ کی جمع ہے یا انسان کی، اَناسی اصل میں اناسین تھا نون کو یا کیا اور یا کو یا میں ادغام کردیا اناسی ہوگیا قولہ تحملہ، اتت کی ضمیر سے حال ہے، بہٖ کی ضمیر سے بھی حال ہوسکتا ہے قولہ من مشھد یوم عظیم فویل سے متعلق ہے ای من شھود یومٍ عظیمٍ اس صورت میں مشھد مصدر کے معنی میں ہوگا یا وقت شہود اور مکان شہود کے معنی میں ہوگا اس صورت میں مشھد ظرف زمان ومکان کے معنی میں ہوگا قولہ لکِن الظّٰلِمون مشرکین کی قباحت وشناعت کو بیان کرنے کے لئے اسم ضمیر لکنَھُمْ کے بجائے اسم ظاہر ظالمون فرمایا تاکہ ان کے اعمال قبیحہ شنیعہ پر دلالت ہوجائے۔ تفسیری فوائد : قولہ ای بعد ذلک اس عبارت کے اضافہ کا مقصد اس اعتراض کا جواب ہے کہ کلام میں تناقض ہے اس لئے کہ اوپر کہا گیا ہے انی نذرت للرحمٰن صومًا اس جملہ سے کلام نہ کرنے کی نذر ہوگئی اس کے بعد حضرت مریم (علیہ السلام) نے کہا فلم اکلم الیوم انسیًّا یہ کلام ہے، جواب یہ ہے کہ میں اس کے بعد کسی سے کلام نہ کروں گی، کان کی تفسیر وَجَدَ سے کر کے اشارہ کردیا کہ کان تامہ ہے اور کان زائدہ بھی ہوسکتا ہے، اور صَبِیًّا حال ہونے کی وجہ سے منصوب ہے ای کیف نکلم مَن فی المھد حال صباہ قولہ اخبارًا بما کتب لہ سے جعلنی کی تفسیر کرنے کا مقصد یہ بتانا ہے کہ جعلنی گو ماضی کا صیغہ ہے مگر مراد استقبال ہے۔ تفسیر وتشریح فَکُلِیْ وَاشْرَبِیْ الخ یہاں یہ بات قابل لحاظ ہے کہ حضرت مریم کی تسلی کے اسباب ذکر کرنے کے وقت تو پہلے پانی کا ذکر فرمایا پھر کھانے کی چیز کھجور کا، اور جب استعمال کا ذکر آیا تو ترتیب بدل کر پہلے کھانے کا حکم فرمایا پھر پانی پینے کا یعنی کلی واشربی فرمایا، وجہ غالباً یہ ہے کہ انسان کی فطری عادت ہے کہ پانی کا اہتمام کھانے سے پہلے کرتا ہے مگر استعمال کی ترتیب یہ ہوتی ہے کہ پہلے غذا کھاتا ہے پھر پانی پیتا ہے۔ (روح المعانی) اللہ تعالیٰ نے بطور کرامت اور خرق عادت حضرت مریم (علیہ السلام) کے پاؤں تلے پینے کے لئے پانی کا اور کھانے کے لئے ایک سوکھے ہوئے درخت سے پکی تازہ کھجوروں کا انتظام فرما دیا، ندا دینے والے حضرت جبرائیل (علیہ السلام) تھے جنہوں نے وادی کے نیچے سے آواز دی اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ سَرِی کے معنی سردار کے ہیں اور سردار سے مراد حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ہیں اور انہی نے نیچے سے حضرت مریم (علیہ السلام) کو آواز دی تھی، یعنی کھجور کھا اور چشمہ کا پانی پی (چشمہ کا پانی اور تازہ کھجوریں زچہ کے لئے طبی اعتبار سے نہایت مفید غذا ہے) اور بچہ کو دیکھ کر آنکھوں کو ٹھنڈا کر قَرِّی قَرٌّ سے مشتق ہے بمعنی ٹھنڈک کرنا اور آنکھوں کو ٹھنڈا کرنا یہ کنایہ ہے خوش ہونے سے اس لئے کہ رنج وغم اور دکھ تکلیف کی وجہ سے جو آنسو نکلتے ہیں وہ گرم ہوتے ہیں اور خوشی ومسرت کے وقت جو آنسو نکلتے ہیں وہ ٹھنڈے ہوتے ہیں، لہٰذا آنکھوں کو ٹھنڈا کرنا یہ کنایہ ہے خوش ہونے سے جیسا کہ باکرہ سے اگر باپ نکاح کی اجازت طلب کرے اور لڑکی کی آنکھوں میں آنسو آجائیں تو فقہاء فرماتے ہیں کہ روز خوشی اور رنج دونوں وجہ سے ہوسکتا ہے لہٰذا دیکھا جائے کہ اگر آنسو ٹھنڈے ہیں تو وہ خوشی کے ہیں اور اجازت پر دلالت کرتے ہیں اور اگر گرم ہیں تو یہ رنج وغم کی وجہ سے ہیں جو عدم اجازت پر دلالت کرتے ہیں۔ یا اخت ہارون سے کیا مراد ہے ؟ ظاہر ہے کہ یہاں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بھائی ہارون مراد نہیں ہوسکتے اس لئے کہ ان کا زمانہ حضرت مریم (علیہ السلام) سے سینکڑوں سال پہلے ہے یہ بات اس حدیث سے بھی معلوم ہوتی ہے کہ جب آنحضرت ﷺ نے حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ کو نجران کے نصاریٰ کے پاس بھیجا تھا تو انہوں نے سوال کیا تھا کہ تمہارے قرآن میں حضرت مریم کو اخت ہارون کہا گیا ہے حالانکہ ہارون (علیہ السلام) ان سے صدیوں پہلے گذرے ہیں چونکہ حضرت مغیرہ ؓ کو اس کا جواب معلوم نہیں تھا اس لئے خاموش رہے، واپسی پر آنحضرت ﷺ سے اس کا ذکر کیا آپ ﷺ نے فرمایا تم نے ان سے یہ کیوں نہ کہہ دیا کہ اہل ایمان کی عادت یہ ہے کہ تبرکا انبیاء کے ناموں پر نام رکھتے ہیں اور ان کی طرف نسبت کرتے ہیں۔ (رواہ احمد ومسلم والترمذی والنسائی) اس حدیث کے مطلب میں دو احتمال ہیں (1) حضرت مریم (علیہ السلام) کی نسبت اس لئے کردی گئی ہے کہ وہ ان کی نسل سے تھیں اگرچہ زمانہ کتنا ہی بعید کیوں نہ گذر گیا ہو جیسا کہ عرب کی عادت ہے کہ تمیم کے قبیلہ کے آدمی کو اخاتمیم کہتے ہیں، اور عرب کے آدمی کو اخاعرب کہتے ہیں (2) یہ کہ یہاں ہارون (علیہ السلام) سے مراد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بھائی مراد نہیں ہیں بلکہ حضرت مریم (علیہا السلام) کے اپنے بھائی کا نام ہارون تھا اسی وجہ سے حضرت مریم (علیہ السلام) کو اخت ہارون کہا اس وقت معنی حقیقی مراد ہوں گے اور ایک تیسرا احتمال یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ہارون نام کا کوئی نہایت ہی نیک اور صالح شخص ہو اور حضرت مریم (علیہ السلام) تو عابدہ زاہدہ نیکی میں مشہور و معروف تھیں ہی ایسی صورت میں اخت ہارون کہنا تشبیہ کے طور پر ہوگا کہ تو تو زہد و عبادت میں ہارون کے مثل ہے تو نے یہ کیا حرکت کر ڈالی، مفسر علام نے یہی تیسرے معنی مراد لئے ہیں۔ مَا کَانَ اَبُوکِ امْرَأ سَوْءٍ نہ تو تیرا باپ عمران برا آدمی تھا اور نہ تیری ماں حنَّہ بدکار تھی تو کہاں سے ایسی پیدا ہوگئی، قرآن کے ان الفاظ سے اس طرف اشارہ ملتا ہے کہ جو شخص اولیاء اللہ اور صالحین کی اولاد سے ہو پھر وہ کوئی برا کام کرتا ہے تو عام لوگوں کی بہ نسبت اس کو زیادہ برا سمجھا جاتا ہے، کیونکہ اس سے اس کے بڑوں کی بدنامی اور رسوائی ہوتی ہے، اس لئے صالحین کی اولاد کو اعمال صالحہ اور تقویٰ کی زیادہ فکر رکھنی چاہیے۔ حضرت مریم (علیہ السلام) نے بچہ کی طرف اشارہ کردیا کہ جو کچھ معلوم کرنا ہے اس سے معلوم کرو جھنجھلا کر کہنے لگے بھلا ہم گود کے بچہ سے کیسے باتیں کریں، چناچہ شیر خوار ایک دن کا یا چالیس دن کا بچہ بول اٹھا اِنِّی عبدُ اللہِ الخ ایک روایت میں ہے کہ جس وقت خاندان کے لوگوں نے حضرت مریم (علیہ السلام) کو ملامت کرنی شروع کی تو اس وقت حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اپنی ماں کا دودھ پی رہے تھے جب انہوں نے اہل خاندان کی ملامت کو سنا تو دودھ چھوڑ دیا اور اپنی کروٹ پر سہارا لے کر لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور انگشت شہادت سے اشارہ کرتے ہوئے یہ الفاظ فرمائے اِنّی عبدُ اللہ الخ یعنی میں اللہ کا بندہ ہوں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے پہلے ہی کلمہ میں اس غلط فہمی کا ازالہ کردیا کہ اگرچہ میری پیدائش معجزانہ انداز سے ہوتی ہے مگر میں خدا نہیں خدا کا بندہ ہوں تاکہ لوگ میری بندگی میں مبتلا نہ ہوجائیں جیسا کہ نصاریٰ کی ایک جماعت مبتلا ہوگئی، یَوْمَ یُبْعَثُ تک حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا قول ہے آتٰنِیَ الکتاب وجَعَلَنِی نَبِیًّا ان الفاظ میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی شیر خوارگی کے زمانہ میں اللہ کی طرف سے نبوت اور کتاب ملنے کی خبر دی، حالانکہ کسی نبی کو چالیس سال کی عمر سے پہلے نبوت نہیں ملی، اس لئے اس کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ طے فرما دیا ہے کہ مجھے اپنے وقت پر نبوت اور کتاب عطا فرمائیں گے اور بالکل ایسا ہی ہے کہ جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ مجھے نبوت اس وقت دی گئی تھی جب کہ آدم (علیہ السلام) ابھی پیدا بھی نہیں ہوئے تھے اس کا مطلب یہی ہے کہ آپ ﷺ سے اعطاء نبوت کا وعدہ قطعی اور حتمی تھا اسی حتمی وعدہ کو ماضی سے تعبیر کردیا گیا۔ او صانی بالصلوٰۃ والزَّکٰوۃِ جب کسی حکم کو زیادہ تاکید کے ساتھ کرنا مقصود ہوتا ہے تو اس کو لفظ وصیت سے تعبیر کرتے ہیں جیسا کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے اس موقعہ پر فرمایا نماز اور زکوٰۃ ایسی عبادتیں ہیں کہ آدم (علیہ السلام) سے لے کر آنحضرت ﷺ تک ہر نبی کی امت پر فرض رہی ہیں البتہ ہر نبی اور رسول کی شریعت میں ان کی تفصیلات اور جزئیات مختلف رہی ہیں رہا عیسیٰ (علیہ السلام) پر زکوٰۃ کی فرضیت کا مسئلہ تو یہ حکم بھی نماز کی طرح عام ہے مگر جب کہ مال ہو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کبھی مال کے مالک نہیں ہوئے حتی کہ آپ نے نہ مکان بنایا اور نہ شادی کی۔ مَا دُمْتُ حیًّا حیات سے مراد زمینی حیات ہے کیونکہ یہ اعمال اسی زمین پر ہوسکتے ہیں، آسمان پر اٹھائے جانے کے بعد سے نزول کے زمانہ تک رخصت کا زمانہ ہے (روح) بَرَّا بِوَالِدَتِی اس جگہ صرف والدہ کا ذکر کیا والدین نہیں کہا اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ میرا وجود معجزانہ طور پر والد کے بغیر ہوا ہے اور بچپن کا یہ معجزانہ کلام اس کے لئے کافی شہادت ہے، ورنہ تو حضرت یحییٰ کی طرح برًا بوالدیہ کہتے۔ ذٰلِکَ عیسیٰ ابن مَرْیمَ یہاں سے اللہ تعالیٰ کا کلام شروع ہے، سابق حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا کلام تھا حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے متعلق یہود و نصاریٰ کے بیہودہ خیالات میں افراط وتفریط کا یہ عالم تھا کہ نصاریٰ نے تو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی تعظیم میں اتنا غلو کیا کہ ان کو خدا یا خدا کا بیٹا بنادیا، اور یہود نے ان کی یہاں تک تذلیل و توہین کی کہ ان کو ولد الزنا یوسف نجار کا بیٹا کہہ دیا حق تعالیٰ نے دونوں فریقوں کی غلطی واضح کر کے صحیح حقیقت ان آیات میں بتادی۔ البلاغۃ : صیغۃ التعجب أسمَعُ ، وأبصَرْ ۔
Top