Tafseer-e-Majidi - Maryam : 26
فَكُلِیْ وَ اشْرَبِیْ وَ قَرِّیْ عَیْنًا١ۚ فَاِمَّا تَرَیِنَّ مِنَ الْبَشَرِ اَحَدًا١ۙ فَقُوْلِیْۤ اِنِّیْ نَذَرْتُ لِلرَّحْمٰنِ صَوْمًا فَلَنْ اُكَلِّمَ الْیَوْمَ اِنْسِیًّاۚ
فَكُلِيْ : تو کھا وَاشْرَبِيْ : اور پی وَقَرِّيْ : اور ٹھنڈی کر عَيْنًا : آنکھیں فَاِمَّا تَرَيِنَّ : پھر اگر تو دیکھے مِنَ : سے الْبَشَرِ : آدمی اَحَدًا : کوئی فَقُوْلِيْٓ : تو کہدے اِنِّىْ نَذَرْتُ : میں نے نذر مانی ہے لِلرَّحْمٰنِ : رحمن کے لیے صَوْمًا : روزہ فَلَنْ اُكَلِّمَ : پس میں ہرگز کلام نہ کرونگی الْيَوْمَ : آج اِنْسِيًّا : کسی آدمی
اور کھاؤ اور پیو اور آنکھیں ٹھنڈی کرو،37۔ اور اگر کسی بشر کو دیکھنا تو کہہ دینا،38۔ کہ میں نے تو خدائے رحمن کے لئے روزہ کی نذر مان رکھی ہے سو میں تو آج کسی انسان سے بولوں گی نہیں،39۔
37۔ یعنی یہ مفید وپر تغذیہ طبی پھل جو ملا ہے، اسے کھاؤ اور اس چشمہ کا پانی پیو اور بچہ کو دیکھ کر قلب کی راحت حاصل کرو۔” اکل وشرب کا حکم بہ ظاہر اباحت کے لئے معلوم ہوتا ہے۔ “ (تھانوی (رح ) 38۔ (اشارہ سے) آنے والا جو آئے گا وہ اغلب احوال میں بچہ کی پیدائش کو حیرت واعتراض ہی کی نظر سے دیکھے گا۔ اس موقع کے لئے حضرت مریم (علیہ السلام) کو ہدایت ہوتی ہے کہ تم سوال و جواب میں نہ پڑنا، بلکہ یہ کہہ کر کہ میں تو آج صوم سکوت نذر مانے ہوئے ہوں چپ ہوجانا۔ (آیت) ” فقولی “۔ کے تحت میں بعض مفسرین نے بڑھایا کہ یہ بات بھی اشارہ سے کہنا ورنہ صوم سکوت سے تناقص لازم آتا ہے۔ لیکن اتنا تکلف غیر ضروری ہے۔ بہ آسانی ممکن ہے کہ یہ اطلاعی فقرہ کہہ کر وہ چپ ہوگئی ہوں۔ وقالت فرقۃ معنی فقولی اے بالاشارۃ لا بالکلام والافکان تناقض منافی قولھا انتھی ولا تناقض لان المعنی فلن اکلم الیوم انسیا بعد قولی ھذا (بحر) 39۔ گویا حکم یہ ملا کہ تم روزہ کی نذر مان لو۔ اور جب کوئی تم پر اعتراض کرنے لگے تو تم اس پر بھی ظاہر کردینا، اور خود سوال و جواب میں نہ پڑنا۔ (آیت) ” فلن اکلم الیوم انسیا “۔ روزہ بہت سی اگلی شریعتوں میں سکوت کے ساتھ ہوتا تھا۔ شریعت اسلامی میں صوم سکوت جائز نہیں۔ ایک شریف خاتون کے لئے جب خود اسی کی عصمت زیر بحث آنے لگے، اپنی بریت وصفائی میں بھی تقریر کرنا کتنا دشوار ہوتا ہے۔ اس کا اندازہ ہر صاحب فہم اور ہر صاحب تجربہ رکھتا ہے۔ قرآن مجید نے حضرت مریم (علیہ السلام) کی نزاکت جذبات کا لحاظ فرما کر کتنا اچھا نسخہ انہیں بتا دیا کہ تم اس سوال و جواب ہی میں نہ پڑنا، بلکہ جواب اپنے اس بچہ ہی سے دلوانا (جیسا آگے آرہا ہے) ہم اسے بطور خارق عادت تمہاری صفائی میں گویا کردیں گے۔
Top