Tafseer-e-Usmani - Maryam : 26
فَكُلِیْ وَ اشْرَبِیْ وَ قَرِّیْ عَیْنًا١ۚ فَاِمَّا تَرَیِنَّ مِنَ الْبَشَرِ اَحَدًا١ۙ فَقُوْلِیْۤ اِنِّیْ نَذَرْتُ لِلرَّحْمٰنِ صَوْمًا فَلَنْ اُكَلِّمَ الْیَوْمَ اِنْسِیًّاۚ
فَكُلِيْ : تو کھا وَاشْرَبِيْ : اور پی وَقَرِّيْ : اور ٹھنڈی کر عَيْنًا : آنکھیں فَاِمَّا تَرَيِنَّ : پھر اگر تو دیکھے مِنَ : سے الْبَشَرِ : آدمی اَحَدًا : کوئی فَقُوْلِيْٓ : تو کہدے اِنِّىْ نَذَرْتُ : میں نے نذر مانی ہے لِلرَّحْمٰنِ : رحمن کے لیے صَوْمًا : روزہ فَلَنْ اُكَلِّمَ : پس میں ہرگز کلام نہ کرونگی الْيَوْمَ : آج اِنْسِيًّا : کسی آدمی
اب کھا اور پی اور آنکھ ٹھنڈی رکھ7 پھر اگر تو دیکھے کوئی آدمی تو کہیو میں نے مانا ہے رحمان کا روزہ سو بات نہ کروں گی آج کسی آدمی سے8
7 یعنی تازہ کھجوریں کھا کر چشمہ کے پانی سے سیراب ہو، اور پاکیزہ بیٹے کو دیکھ کر آنکھیں ٹھنڈی کر، آگے کا غم نہ کھا، خدا تعالیٰ سب مشکلات کو دور کرنے والا ہے۔ 8 یعنی اگر کوئی آدمی سوال کرے تو اشارہ وغیرہ سے ظاہر کردینا کہ میں روزہ سے ہوں۔ مزید گفتگو نہیں کرسکتی۔ ان کے دین میں یہ نیت درست تھی کہ نہ بولنے کا بھی روزہ رکھتے تھے۔ ہماری شریعت میں ایسی نیت درست نہیں۔ اور " کہیو میں نے مانا ہے " کا مطلب یہ ہے کہ روزہ کی نذر کر کے ایسا کہہ دینا۔ " انسیا " کی قید شاید اس لیے لگائی کہ فرشتہ سے بات کرنا منع نہ تھا۔
Top