Urwatul-Wusqaa - Al-Ankaboot : 51
اِنَّ الَّذِیْنَ یُنَادُوْنَكَ مِنْ وَّرَآءِ الْحُجُرٰتِ اَكْثَرُهُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ
اِنَّ الَّذِيْنَ : بیشک جو لوگ يُنَادُوْنَكَ : آپ کو پکارتے ہیں مِنْ وَّرَآءِ : باہر سے الْحُجُرٰتِ : حجروں اَكْثَرُهُمْ : ان میں سے اکثر لَا يَعْقِلُوْنَ : عقل نہیں رکھتے
بلاشبہ جو لوگ آپ ﷺ کو حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں ان میں سے اکثر ناسمجھ ہیں (کہ وہ عقل سے کام نہیں لیتے)
معاشرہ کے اندر جہاں آزمائے گئے لوگ ہوتے ہیں وہاں کم ظرفوں کی بھی کمی نہیں ہوتی 4 ۔ محاورہ ہے کہ ” پانچوں انگلیاں کبھی برابر نہیں ہوتیں “ مطلب یہی ہے کہ سارے انسان ایک جیسی عقل و فکر اور ایک جیسی طبع نہیں رکھتے جہاں وہ لوگ موجود ہوتے ہیں جو اشاروں ہی اشاروں میں سب کچھ سمجھ جاتے ہیں وہاں ایسے بھی ہوتے ہیں جو سمجھانے سے بھی نہیں سمجھتے اس طرح جہاں ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے دل میں بغض و اعناد ہوتا ہے اور اس بغض وعناد کے باعث ان سے اس طرح کی حرکتیں سرزد ہوتی ہیں لیکن بعض ایسے بھی ہوتے ہیں کہ جن کے دلوں میں کوئی کھوٹ نہیں ہوتا لیکن عقل کے کوتاہ ہوتے ہیں اس لیے ان سے اس طرح کی کوتاہیاں سرزد ہوتتی رہتی ہیں اور ان میں اکثریت انہی لوگوں کی ہوتی ہے جو دیہاتی ، بدوی ہوتے ہیں جن کو قرآن کریم کی زبان میں (الاعراب) کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے زیر نظر آیت میں ایسے ہی لوگوں کا ذکر کیا گیا ہے اور یہ لوگ محض اپنے گنوار پن کے باعث اس طرح کی حرکات کرجاتے ہیں اور ان کے دلوں میں کوئی بیماری نہیں ہوتی بلکہ محض بےعقلی اور ناسمجھی ہوتی ہے منافقین جو کچھ کرتے ہیں دیدہ دانستہ ، جان بوجھ کر اپنے اندر کے بغض و خبث کے باعث کرتے ہیں لیکن اس آیت میں جن لوگوں کا ذکر ہے وہ کتنی ہی نازیبا حرکت کریں لیکن ان کے دل میں کوئی میل نہیں ہوتی محض کم عقلی کے باعث ان سے ایسا سرزد ہوتا ہے اس لیے قرآن کریم نے پیرا یہ بیان ایسا اختیار کیا ہے جس سے ان کی ملامت کا پہلو بھی نکلتا ہے اور نہایت لطیف اشارہ سے ان کی اس نادانی سے درگزر کرنے کا حکم بھی اور اس طرح ان کا ذکر کرکے عام مسلمانوں کو بھی سمجھایا جارہا ہے کہ ان کی اسی حرکات کو اسلام پسند نہیں کرتا اگرچہ ان کی نادنی کے باعث ان پر گرفت بھی نہ کی جائے اس لیے تم سے اس طرح کی حرکت بھی سرزد نہ ہو کیونکہ نادانی بہرحال نادنی ہی ہوتی ہے اور یہ بھی کہ نادان کی نادانی اور سمجھ دار کی نادانی میں ویسے بھی زمین و نٓسمان کا فرق ہے ان کی نادانی کیا تھی ؟ یہی کہ کوئی کام ہوا تو آپ ﷺ کے دروازہ کے سامنے آکر کھڑے ہوگئے اور زور زور سے آوازیں دینے لگے اور کبھی بغیر اطلاع دیئے ہی ندر گھس گئے اور جاتے ہی اپنی رام کہانی شروع کردی ، کھاتے دیکھا تو بیٹھ گئے کہ چلو شاید کچھ ملہی جائے تو ہم بھی دو لقمے لگالیں ۔ ایسی بات تو عام گھروں میں بھی ممنوع ہے لیکن اگر آپ ﷺ کی بھی کوئی پروا نہ کرے تو کیا اس کو سمجھایا بھی نہ جائے گا ؟ بس ایسے لوگوں کی فہیم کرائی جارہی ہے پھر بعض سمجھ جاتے ہیں لیکن بعض ایسے بھی ہوتے ہیں کہ وقت گزرنے کے بعد ان کو کچھ بھی یاد نہیں رہتا اس لیے قرآن کریم نے ان کو (لایعقلون ) کہہ دیا ہے کہ وہ اتنی عقل ہی کے مالک نہیں ہوتے کہ آپ ﷺ کے احترام کو سمجھ سکیں تاہم ان کی تفہیم کرانا بہت ضروری ہوتا ہے اور تفہیم کا انداز ناصحانہ ہی ہونا چاہیے کیونکہ تفہیم کیلئے یہ انداز نہات ضروری ہوتا ہے ورنہ جاہل کسی مزید جہالت کا مظاہرہ کردے گا اور اپنے پائوں پر خود کلہاڑی چلا دے گا “۔
Top