Jawahir-ul-Quran - Az-Zumar : 10
قُلْ یٰعِبَادِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوْا رَبَّكُمْ١ؕ لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوْا فِیْ هٰذِهِ الدُّنْیَا حَسَنَةٌ١ؕ وَ اَرْضُ اللّٰهِ وَاسِعَةٌ١ؕ اِنَّمَا یُوَفَّى الصّٰبِرُوْنَ اَجْرَهُمْ بِغَیْرِ حِسَابٍ
قُلْ : فرمادیں يٰعِبَادِ : اے میرے بندو الَّذِيْنَ : جو اٰمَنُوا : ایمان لائے اتَّقُوْا : تم ڈرو رَبَّكُمْ ۭ : اپنا رب لِلَّذِيْنَ : ان کے لیے جنہوں نے اَحْسَنُوْا : اچھے کام کیے فِيْ : میں هٰذِهِ الدُّنْيَا : اس دنیا حَسَنَةٌ ۭ : بھلائی وَاَرْضُ اللّٰهِ : اور اللہ کی زمین وَاسِعَةٌ ۭ : وسیع اِنَّمَا : اس کے سوا نہیں يُوَفَّى : پورا بدلہ دیا جائے گا الصّٰبِرُوْنَ : صبر کرنے والے اَجْرَهُمْ : ان کا اجر بِغَيْرِ حِسَابٍ : بےحساب
تو کہہ اے بندوں میرے جو یقین لائے ہو ڈرو اپنے رب سے17 جنہوں نے نیکی کی اس دنیا میں ان کے لیے بھلائی اور زمین اللہ کی کشادہ ہے صبر کرنے والوں ہی کو ملتا ہے ان کا ثواب بیشمار
17:۔ ” قل یعباد الخ “ یہ ایمان والوں کے لیے دنیوی اور اخروی بشارت ہے۔ میرے مومن بندوں سے کہہ دو کہ اپنے پروردگار سے ڈرتے رہیں اس کے احکام کی تعمیل اور اس کے منہیات سے احتراز کرتے ہیں۔ جو لوگ پورے اخلاص کے ساتھ ایمان وتقوی پر قائم رہیں گے دنیا میں بھی ان پر انعام و اکرام کے دروازے کھولدئیے جائیں گے۔ یہ اس صورت میں ہے جبکہ ” فی ھذہ الدنیا “ ” حسنۃ “ کے متعلق ہو۔ اور اگر ” فی الدنیا “ ” احسنوا “ کے متعلق ہو تو مطلب یہ ہوگا کہ جو لوگ دنیا میں اعمال صالحہ بجا لائیں گے وہ آخرت میں اس کا اجر وثواب پائیں گے ” وارض اللہ واسعۃ “ یہ ہجرت کی ترغیب ہے اگر غلبہ کفار کی وجہ سے تم اپنے وطن میں اللہ کے دین پر قائم نہیں رہ سکتے اور نہ کما حقہ، اس کی عبادت کرسکتے ہو تو اللہ کی زمین فراخ ہے کسی دوسری جگہ چلے جاؤ۔ جہاں تم اطمینان سے اپنے دین کو قائم کرسکو۔ جو لوگ ہجرت کے مصائب و شدائد پر صبر کرتے اور خندہ پیشانی سے انہیں برداشت کرتے ہیں انہیں آخرت میں بےحساب اجر وثواب ملے گا۔ ” انما یوفی الصابرون “ الذین صبروا علی الہجرۃ و مفارقۃ المحاب والاقتداء بالانبیاء والصالحین اجرھم بغیر حساب (روح ج 23 ص 248) ۔ ” قل یا عباد الخ “ اللہ تعالیٰ کا مقول ہے جسے بعینہ بندگان خدا تک پہنچانے کا آں حضرت ﷺ کو حکم دیا گیا ہے۔ ” یٰعباد الخ “حضور ﷺ کا مقولہ نہیں تاکہ اس سے یہ استدلال کیا جاسکے کہ تمام مؤمنین آپ کے بندے ہیں جیسا کہ اہل بدعت بیان کرتے ہیں۔ ای قل لہم قولی ھذا بعینہ وفیہ تشریف لھم باضافتہم الی ضمیر الجلالۃ (روح ج 23 ص 248) ۔
Top