Jawahir-ul-Quran - Az-Zukhruf : 88
وَ قِیْلِهٖ یٰرَبِّ اِنَّ هٰۤؤُلَآءِ قَوْمٌ لَّا یُؤْمِنُوْنَۘ
وَقِيْلِهٖ : قسم ہے ان کے قول کی يٰرَبِّ : اے میرے رب اِنَّ هٰٓؤُلَآءِ : بیشک یہ قَوْمٌ لَّا يُؤْمِنُوْنَ : قوم ایمان نہیں رکھتی
قسم ہے رسول کے اس کہنے کی51 کہ اے رب یہ لوگ ہیں کہ یقین نہیں لاتے
51:۔ ” وقیلہ “ واؤ بمعنی ” رُبَّ “ ہے یعنی بہت بار پیغمبر (علیہ السلام) کا یہ کلمہ کہنا ہوا ” ان ھؤلاء قوم لا یؤمنون “ مشرکین کے ایمان سے مایوس ہو کر آپ سے اللہ کی مشرکین کی شکایت کر تھے کہ میرے پروردگار یہ قوم ایسی سرکش ہوچکی ہے کہ اب وہ ایمان نہیں لائیگی۔ قال ابن عباس شکا الی اللہ تعالیٰ تخلف قوما عن الایمان وقال قتادۃ ھذا نبیکم یشکوا قومہ الی ربہ (خازن ج 6 ص 191) ۔ حضرت شیخ (رح) فرماتے ہیں قسم ہے اس کے کہنے کی یعنی، اس کے یہ کہنے اور دعاء مانگنے کے سبب سے میں ان کو سزا دوں گا۔ تائید : ” فدعا ربہ ان ھؤلاء قوم مجرمون “ یا واؤ قسمیہ ہے اور ان ” ھؤلاء قوم الخ “ جواب قسم ہے یعنی مجھے پیغمبر کے ” یارب “ کہنے اور مجھ سے دعاء مانگنے کی قسم یہ لوگ ایمان نہیں لائیں گے اور پیغمبر (علیہ السلام) کی دعا کی وجہ سے میں انہیں سزا دوں گا۔ کانہ قیل واقسم بقیلہ یا رب، ان ھؤلایؤمنون (مدارک) ۔ ” فاصفح عنہم الخ “ اس میں مشرکین سے اعراض کرنے اور ضمنًا بد دعا نہ کرنے کا حکم ہے، گویا وہ اپنے اعمال کی وجہ سے عذاب کے مستحق ہوچکے ہیں بد دعا کرنے کی ضرورت ہی نہیں، عنقریب ہی وہ اپنا انجام بد دیکھ لیں گے۔ چناچہ جلد ہی جنگ بدر میں انہوں نے اپنا انجام دیکھ لیا۔ اور سلام سے سلام متارکت مراد ہے جو تمام تعلقات منقطع کرلینے پر دلالت کرتا ہے۔ امرہ بان یصفح عنہم وفی ضمنہ منعہ من ان یدعو علیہم بالعذاب والصفح ھو الاعراض ثم قال وقل سلام قال سیبویہ انما معناہ المتارکۃ (کبیر ج 7 ص 462) ۔ واخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔ سورة زخرف میں آیات توحید اور اس کی خصوصیات 1 ۔ ” ولئن سالتہم “ تا ” ماترکبون “ (رکوع 1) ۔ نفی شرک فی التصرف۔ 2 ۔ ” وجعلوا لہ من عبادہ جزءا “ تا ” وانا علی اثارہم مھتدون “ (رکوع 2) ۔ نفی شرک فی التصرف۔ 3 ۔ ” واذ قال ابراہیم “ تا ” لعلہم یرجعون “ (رکوع 3) نفی شرک فی العبادۃ والدعاء۔ 4 ۔ ” واسئل من ارسلنا من قبلک من رسلنا۔ الایۃ “ (رکوع 4) ۔ کسی پیغمبر کی شریعت میں غیر اللہ کی عبادت اور پکار کو جائز نہیں رکھا گیا۔ 5 ۔ ” ان اللہ ربی و ربکم فاعبدوہ، ھذا صراط مستقیم “ (رکوع 6) ۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی تعلیم یہ تھی کہ صرف اللہ کی عبادت کرو، انہوں نے اپنی عبادت کا حکم نہیں دیا تھا۔ 6 ۔ ” وھو الذی فی السماء الہ “ تا ” والیہ ترجعون “ (رکوع 7) ۔ نفی شرک فی العبادۃ والتصرف ونفی شرک فی العلم۔ 7 ۔ ” ولا یملک الذین یدعون من دونہ۔ الایۃ “ (رکوع 7) ۔ نفی شفاعت قہریہ ونفی شفاعت بحق مشرکین۔ سورة زخرف ختم ہوئی
Top