Al-Qurtubi - Az-Zukhruf : 88
وَ قِیْلِهٖ یٰرَبِّ اِنَّ هٰۤؤُلَآءِ قَوْمٌ لَّا یُؤْمِنُوْنَۘ
وَقِيْلِهٖ : قسم ہے ان کے قول کی يٰرَبِّ : اے میرے رب اِنَّ هٰٓؤُلَآءِ : بیشک یہ قَوْمٌ لَّا يُؤْمِنُوْنَ : قوم ایمان نہیں رکھتی
اور (بسا اوقات پیغمبر) کہا کرتے ہیں کہ اے میرے پروردگار یہ ایسے لوگ ہیں کہ ایمان نہیں لاتے
قیبیلہ میں تین قرأتیں ہیں، نصب، جر اور رفع (1) جہاں تک جر کا تعلق ہے یہ عاصم اور حمزہ کی قرأت ہے جس نے اسے جر دی ہے اس نے اسے معنی پر محمول کیا ہے تقدیر کلام یوں ہوئی جس نے اسے غضب دی ہے اس نے اسے معنی پر محمول کیا ہے تقدیر کلام یوں ہوگی یہ زجاج کا پسندیدہ نقطہ نظر ہے فراء اور اخفش نے کہا یہ جائز ہے کہ پر ہو ابن انباری نے کہا : میں نے ابو العباس محمد بن یزید مبرو سے پوچھا قیل کو تو کس چیز کے ساتھ نصب دیتا ہے ؟ کہاں میں اسے ہوئی کے ساتھ نصب دیتا ہے اس توجیہہ کی صورت میں پر عطف اچھا نہیں اور عطف اچھا ہوگا فراء اور اخفش نے قیل کو اس معنی کی بناء پر نصب دی۔ جس طرح ہم نے انسے ذکر کیا ہے اس توجیہہ کی بناء پر یکتبون پر وقف کرنا اچھا نہیں فراء اور اخفش نے یہ بھی جائز قرار دیا ہے کہ مفعول مطلق ہونے کی حیثیت میں نصب دی جائے۔ گویا کلام کی : جس طرح کعب بن زہیر نے کہا : چغل خور اس کی دونوں جانب چلتے ہیں اور ان کا قول یہ ہے : اے ابن ابی سلمی : تو مقتول ہے۔ شاعر نے یہ ارادہ کیا ہے جس نے قبلہ کو رفع دیا ہے تو تقدیر کلام یہ ہوگی زمحشری نے کہا : جو انہوں نے کہا یہ معنی کے اعتبار سے قوی نہیں ساتھ ہی ساتھ معطوف ہے اور معطوف علیہ میں فاصلہ ہے جبکہ یہ جملہ معترضہ بھی نہیں بن سکتا اور نظم میں تنا فرپایا جاتا ہے اسے سے زیادہ قوی اور مناسب یہ ہے کہ جر اور نصب حرف قسم کے اضمار اور حذف کی بناء پر ہو اور رفع ان کے اس قول کی بناء پر جواب قسم ہوگا گویا فرمایا : ابن انباری نے کہا : عربی زبان میں دقیلہ رفع کے ساتھ بھی جائز ہے اس شرط پر کہ تو اسے کے ساتھ رفع دے۔ مہدوی نے کہا : یا تقدیر کلام یہ ہے یا رب دوسرے قبلہ کو حذف کردیا گیا جو خبر ہے اور یا رب کا محل خبر مضمر کی وجہ سے نصب ہے یہ ممتنع نہیں جبکہ موصول کبے بعض کو حذف کرنا اور بعض کو باقی رکھنا ممتنع ہے کیونکہ قول کا حذف بہت زیادہ ہوتا ہے یہاں تک کہ وہ مذکور کے حکم میں ہوگیا ہے۔ قبلہ میں ما حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے لئے ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے کہ یہ حضرت محمد ﷺ کے لئے ہے جبکہ آپ کا ذکر پہلے ہوچکا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ابو قلابہ نے پڑھا قول کی طرح مصدر ہے اسی معنی میں حدیث ہے قیل وقال سے منع کیا یوں بھی جملہ کہا جاتا ہے : سورة نساء میں موجود ہے۔
Top