Urwatul-Wusqaa - Az-Zukhruf : 88
وَ قِیْلِهٖ یٰرَبِّ اِنَّ هٰۤؤُلَآءِ قَوْمٌ لَّا یُؤْمِنُوْنَۘ
وَقِيْلِهٖ : قسم ہے ان کے قول کی يٰرَبِّ : اے میرے رب اِنَّ هٰٓؤُلَآءِ : بیشک یہ قَوْمٌ لَّا يُؤْمِنُوْنَ : قوم ایمان نہیں رکھتی
اور (اے پیغمبر اسلام ! ﷺ آپ ﷺ کے) کہنے کے باعث کہ اے میرے پروردگار ! بلاشبہ یہ لوگ ایمان نہیں لاتے
اے میرے رب ! یہ وہ لوگ ہیں کہ ایمان نہیں لاتے ، آپ ﷺ کی یہ بات سنی جا رہی ہے 88 ؎ گزشتہ آیت میں ارشاد فرمایا گیا تھا کہ ” اگر آپ ﷺ ان سے پوچھیں کہ کس نے انہیں پیدا کیا “ آپ ﷺ سے کون مراد ہے ؟ ظاہر ہے کہ اس سے مراد نبی اعظم و آخر ﷺ ہیں اور آپ ﷺ کی وساطت سے ہر ایک داعی الی اللہ۔ زیر نظر آیت میں { قیلہٖ } کی ضمیر نبی کریم ﷺ ہی کی طرف ہے اور آپ ﷺ کی وساطت سے ہر داعی الی اللہ کی طرف کہ رسول اللہ ﷺ کی اس پکار کا علم بھی اللہ کو ہے اور اللہ کو علم ہے کہ ہر داعی الی اللہ کی بھی یہی پکار ہے کہ ” یہ لوگ ایمان نہیں لاتے “ اور ظاہر ہے کہ ان کا ایمان نہ لانا بھی اللہ تعالیٰ سے پوشیدہ نہیں اور داعی الی الحق کے اندر جو یہ پکار ہے کہ یہ لوگ ایمان نہیں لاتے یہ بھی اللہ سے مخفی نہیں ہے۔ پھر جب یہ بات اللہ سے مخفی نہیں ہے تو اللہ اپنے وعدہ کا بھی پابند ہے کہ وہ اپنے بندوں کی مدد کرتا ہے لہٰذا ضروری ہے کہ وہ آپ ﷺ کی مدد بھی کرے گا اور نہ ماننے والے اپنے انجام کو پہنچ جائیں گے۔ زیر نظر آیت کے ترجمہ اور تفسیر میں جو کچھ کہا گیا ہے وہ ہمارے علم میں ہے لیکن مہارے خیال میں جو مضمون آیت سے واضح ہوتا ہے وہ یہی ہے جس کو ہم نے اختیار کیا ہے۔ واو کو قسمیہ کہنے اور جوابِ قسم کو محذوف ماننے سے اور علاوہ ازیں تکلفات اختیار کرنے سے بات پھر بھی یہی رہے گی کہ آپ ﷺ کی اس پکار کی قسم کھا کر اسے بطور شہادت پیش کیا ہے کہ ایسا شخص جس کو اس قدر غم لوگوں کے ایمان نہ لانے کا ہے ضروری ہے کہ اس کو نصرت دی جائے۔ جب ماحصل ایک ہے تو ان تکلفات کی آخر ضرورت اور وہ بھی غیر اللہ کی قسم ثابت کرنے کے لیے ؟ فافہم فتدبر۔
Top