Madarik-ut-Tanzil - Az-Zukhruf : 88
وَ قِیْلِهٖ یٰرَبِّ اِنَّ هٰۤؤُلَآءِ قَوْمٌ لَّا یُؤْمِنُوْنَۘ
وَقِيْلِهٖ : قسم ہے ان کے قول کی يٰرَبِّ : اے میرے رب اِنَّ هٰٓؤُلَآءِ : بیشک یہ قَوْمٌ لَّا يُؤْمِنُوْنَ : قوم ایمان نہیں رکھتی
اور (بسا اوقات پیغمبر) کہا کرتے ہیں کہ اے میرے پروردگار یہ ایسے لوگ ہیں کہ ایمان نہیں لاتے
عظمت و شان پیغمبر ﷺ : آیت 88: وَقِیْلِہٖ (اور اس کو رسول کے اس کہنے کی بھی خبر ہے) قراءت : عاصم ٗ حمزہ ٗ نے جرّسے پڑھا ہے۔ تقدیر کلام یہ ہے وعندہ علم الساعۃ و علم قیلہ۔ اور اس کے پاس قیامت کا علم ہے اور اس کے پاس اس قول کی خبر ہے۔ یٰرَبِّ (اے میرے رب ! ) قیلہٖ کی ہٗ ضمیر حضرت محمد ﷺ کی طرف راجع ہے۔ کیونکہ آپ کا تذکرہ پہلے ہوا۔ اس ارشاد میں۔ قل ان کان للرحمان ولد فانا اول العابدین۔ ] الزخرف۔ 81[ باقی قراء نے نصب سے پڑھا ہے۔ اور اس کو الساعۃ کے محل پر معطوف کیا ہے۔ ای یعلم الساعۃ یعلم قیلہ۔ ای قیل محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم یا رب وہ قیامت کو جانتا اور محمد ﷺ کے قول کو جانتا ہے۔ القیل۔ القول ٗ القال المقال یہ تمام ایک ہی معنی رکھتے ہیں۔ نمبر 2۔ اور یہ بھی جائز ہے کہ حرف قسم کو مضمر مانکر جر اور نصب مان لیا جائے۔ اور حرف کو حذف کردیا گیا ہے اور جواب قسم ان ہؤلاء قوم لا یؤمنون ہے۔ اِنَّ ہٰٓؤُلَآئِ قَوْمٌ لاَّ یُؤْمِنُوْنَ (کہ یہ لوگ ایمان نہ لائیں گے) گویا آپ نے بات فرمائی اور اللہ تعالیٰ نے اس کی قسم اٹھائی اور قول یا رب ان ہؤلاء قوم لا یؤمنون۔ اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کی بات کی قسم اٹھانا یہ آپ کی عظمت و بلندی شان کو ظاہر کرتا ہے۔ اور آپ کی دعا والتجاء کی قبولیت کو ظاہر کرتا ہے۔
Top