Tadabbur-e-Quran - Az-Zukhruf : 88
وَ قِیْلِهٖ یٰرَبِّ اِنَّ هٰۤؤُلَآءِ قَوْمٌ لَّا یُؤْمِنُوْنَۘ
وَقِيْلِهٖ : قسم ہے ان کے قول کی يٰرَبِّ : اے میرے رب اِنَّ هٰٓؤُلَآءِ : بیشک یہ قَوْمٌ لَّا يُؤْمِنُوْنَ : قوم ایمان نہیں رکھتی
اور حق کی گواہی دینے والوں کا قول یہ ہوگا کہ اے رب ! یہ لوگ خد ایمان لانے والے نہ بنے۔
وقیلہ یوب ان ھولآء قوم لامنوکن (88) وقتیلہ کا معطوف علیہ قیلہ کا عطف اوپر والی آیت میں بالحق پر ہے۔ یعنی وہ صرف حق بات کہیں گے اور ان کی شہادت یہ ہوگی کہ اے رب ! ان کے ایمان نہ لانے میں اصلی قصور انہی کا ہے، یہ خود ایمان لانے والے نہیں تھے۔ بیچ کی آیت محض استدراک کے طور پر بطور جملہ معترضہ آگئی تھی اس وجہ سے معطوف اور معطوف علیہ میں کوئی معنوی بعد نہیں پیدا ہوا۔ اس کی مثالیں اس کتاب میں پیچھے بھی گزر چکی ہیں اور آگے بھی آئیں گی۔ یہاں یہ امر واضح رہے کہ مشرکین قیامت کے دن اپنے جن مزعومہ شرکاء کو اپنی ضلالت کے لئے بطور عذر پیشک ریں گے وہ شرکاء ان کے اس الزام کو ان کے منہ پر پھینک ماریں گے۔ مثلاً فرشتوں کے متعلق قرآن میں تصریح ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سے پوچھے گا کہ یہ مشرکین مدعی ہیں کہ وہ تمہاری پرستش کرتے رہے ہیں تو کیا ان کی یہ بات صحیح ہے ؟ فرشتے اس سوال کے جواب میں صاف اظہار برأت کریں گے کہ یہ خود اس ضلالت کے ذمہ دار ہیں، ان کی اس گمراہی سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ ویوم یعشرھم جمیعاً ثم یقول للمٓلئکۃ اھولاء ایاکم کانوا یعبدون قالوا اسبحنک انت ولینا من دونھم بل کانوا یعبدون الجن اکثرھم بھم مئومنون (سبا :41-40) اور اس دن کا خیال کرو جس دن ان سب کو اکٹھا کرے گا پھر فرشتوں سے سوال کرے گا کہ کیا یہ لوگ تمہاری پرستش کرتے رہے ہیں ؟ وہ جواب دیں گے کہ تو ہر عیب سے پاک ہے، تو ان کے مقابل میں ہمارا کار ساز ہے، بلکہ یہ لوگ تو جنوں کو پوجتے رہے ہیں اور ان کی اکثریت انہی پر ایمان رکھنے والوں کی ہے۔ حضرت مسیح ؑ کی شہادت حق ان الفاظ میں مذکور ہے۔ واذ قال اللہ یعیسی ابن مریم ءانت قلت للناس اتخذونی و امی الھین من دون ال لہ قال سبحنک مایکون لی ان اقول مالیس لی بحق ان کنت قلتہ فقد علمتہ ط (المآئدۃ :1/16) جب اللہ پوچھے گا، اے عیسیٰ بن مریم ! کیا تم نے لوگوں کو یہ حکم دیا کہ مجھ کو اور میری ماں کو اللہ کے سوا معبود بنائو ؟ وہ جواب دیں گے، تو پاک ہے ! میرے لئے کس طرح ممکن تھا کہ میں وہ بات کہوں جس کا مجھے کوئی حق نہیں۔ اگر میں نے اس طرح کی کوئی بات کہی تو تو اس کو جانتا ہوگا۔ یہی حقیقت سورة احقاف میں یوں واضح فرمائی گی ہے۔ ومن اضل ممن یدعوا من دون ال لہ من لایستجیب لہ الی یوم القیمۃ وھم عن دعآئھم غفلون، واذا حشر الناس کانوا لھم اعدآء و کانوا بعبادتھم کفرین (الاحقاف :6-5) اور ان سے بڑھ کر گمراہ کون ہوگا جو اللہ کے سوا ایسی چیزیوں کو پکارتے ہیں جو ان کو قیامت تک جواب دینے والی نہیں ہیں اور وہ ان کی بندگی سے بالکل بیخبر ہیں اور جب لوگ اکٹھے کئے جائیں گے تو وہ ان کے دشمن بنیں گے اور ان کی بندگی کا انکار کریں گے۔
Top