Tafheem-ul-Quran - Az-Zukhruf : 88
وَ قِیْلِهٖ یٰرَبِّ اِنَّ هٰۤؤُلَآءِ قَوْمٌ لَّا یُؤْمِنُوْنَۘ
وَقِيْلِهٖ : قسم ہے ان کے قول کی يٰرَبِّ : اے میرے رب اِنَّ هٰٓؤُلَآءِ : بیشک یہ قَوْمٌ لَّا يُؤْمِنُوْنَ : قوم ایمان نہیں رکھتی
قسم ہے رسُول ؐ کے اِس قول کی کہ اے ربّ ، یہ وہ لوگ ہیں جو مان کر نہیں دیتے۔70
سورة الزُّخْرُف 70 یہ قرآن مجید کی نہایت مشکل آیات میں سے ہے جس میں نحو کا یہ نہایت پیچیدہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وَقِیْلِہ میں واؤ کیسا ہے اور اس لفظ کا تعلق اوپر سلسلہ کلام میں کس چیز کے ساتھ ہے۔ مفسرین نے اس پر بہت کچھ کلام کیا ہے مگر کوئی تشفی بخش بات مجھے ان کے ہاں نہیں ملی۔ میرے نزدیک سب سے زیادہ صحیح بات وہی ہے جو شاہ عبدالقادر صاحب ؒ کے ترجمے سے مترشح ہوتی ہے، یعنی اس میں واؤ عطف کا نہیں بلکہ قسمیہ ہے، اور اس کا تعلق فَاَنّیٰ یُؤْفَکُوْنَ سے ہے، اور قِیْلِہ کی ضمیر رسول اللہ ﷺ کی طرف پھرتی ہے جس پر یَا رَبِّ اِنَّ ھٰٓؤُلَآءِ قَوْمٌ لَّا یُؤْمِنُوْنَ کا فقرہ صریح دلالت کر رہا ہے۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ قسم ہے رسول کے اس قول کی کہ " اے رب یہ وہ لوگ ہیں جو مان کر نہیں دیتے "، کیسی عجیب ہے ان لوگوں کی فریب خوردگی کہ خود تسلیم کرتے ہیں کہ ان کا اور ان کے معبودوں کا خالق اللہ تعالیٰ ہی ہے اور پھر بھی خالق کو چھوڑ کر مخلوق ہی کی عبادت پر اصرار کیے جاتے ہیں۔ رسول کے اس قول کی قسم کھانے کا مدعا یہ ہے کہ ان لوگوں کی یہ روش صاف ثابت کیے دے رہی ہے کہ فی الواقع یہ ہٹ دھرم ہیں، کیونکہ ان کے رویے کا غیر معقول ہونا ان کے اپنے اعتراف سے ظاہر ہے، اور ایسا غیر معقول رویہ صرف وہی شخص اختیار کرسکتا ہے جو نہ ماننے کا فیصلہ کیے بیٹھا ہو۔ بالفاظ دیگر یہ قسم اس معنی میں ہے کہ بالکل ٹھیک کہا رسول نے، فی الواقع یہ مان کردینے والے لوگ نہیں ہیں۔
Top