Kashf-ur-Rahman - Hud : 45
وَ نَادٰى نُوْحٌ رَّبَّهٗ فَقَالَ رَبِّ اِنَّ ابْنِیْ مِنْ اَهْلِیْ وَ اِنَّ وَعْدَكَ الْحَقُّ وَ اَنْتَ اَحْكَمُ الْحٰكِمِیْنَ
وَنَادٰي : اور پکارا نُوْحٌ : نوح رَّبَّهٗ : اپنا رب فَقَالَ : پس اس نے کہا رَبِّ : اے میرے رب اِنَّ : بیشک ابْنِيْ : میرا بیٹا اَهْلِيْ : میرے گھروالوں میں سے وَاِنَّ : اور بیشک وَعْدَكَ : تیرا وعدہ الْحَقُّ : سچا وَاَنْتَ : اور تو اَحْكَمُ : سب سے بڑا حاکم الْحٰكِمِيْنَ : حاکم (جمع)
اور نوح اپنے رب کو پکارا اور یوں کہا اے میرے رب یہ میرا بیٹا بھی میرے گھر والوں میں سے ہے اور بیشک تیرا وعدہ سچا ہے اور تو سب حاکموں کا بڑا حاکم ہے
45 اور حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنے رب کو پکارا اے میرے پروردگار یہ میرا بیٹا بھی میرے گھر والوں میں سے ہے اور بیشک تیرا وعدہ سچا ہے اور تو سب حاکموں کا بڑا حاکم اور بڑی قدرت والا ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی ایک عورت تو ہلاکت میں آچکی اب تو چاہے بیٹے کو ہلاکت میں گن یا نجات میں 12 خلاصہ ! یہ کہ کنعان کے بارے میں دو احتمال تھے یا تو نوح (علیہ السلام) اس کو مسلمان سمجھتے تھے یا مسلمان نہ سمجھتے تھے مگر اہل کے مستثنیٰ ہونے کو یہ سمجھتے ہوں کہ اہل کو نجات ہوگی خواہ وہ کوئی بھی ہو مسلمان سمجھتے تھے اور غرق کے بعد دعا کی تو محض تحقیق مطلوب تھی اور اگر مسلمان نہیں سمجھتے تھے تو پکار کا یہ مطلب ہوگا کہ اس کا غرق تو اپنی جگہ صحیح ہے لیکن تو چاہتا تو اس کو ایمان دے دیتا اور وہ بھی نجات پانے والوں میں سے ہوجاتا بہر حال جو کچھ فرمایا وہ ظاہر ہے کہ بیٹے کی بحث میں عرض کیا اور اصل معاملہ کو سمجھنے کی کوشش کی اس پر ارشاد ہوا۔
Top