Fahm-ul-Quran - Al-Anfaal : 41
وَ نَادٰى نُوْحٌ رَّبَّهٗ فَقَالَ رَبِّ اِنَّ ابْنِیْ مِنْ اَهْلِیْ وَ اِنَّ وَعْدَكَ الْحَقُّ وَ اَنْتَ اَحْكَمُ الْحٰكِمِیْنَ
وَنَادٰي : اور پکارا نُوْحٌ : نوح رَّبَّهٗ : اپنا رب فَقَالَ : پس اس نے کہا رَبِّ : اے میرے رب اِنَّ : بیشک ابْنِيْ : میرا بیٹا اَهْلِيْ : میرے گھروالوں میں سے وَاِنَّ : اور بیشک وَعْدَكَ : تیرا وعدہ الْحَقُّ : سچا وَاَنْتَ : اور تو اَحْكَمُ : سب سے بڑا حاکم الْحٰكِمِيْنَ : حاکم (جمع)
” اور نوح نے اپنے رب کو پکارا، کہا اے میرے رب ! بیشک میرا بیٹا میرے اہل میں سے ہے اور بیشک تیرا وعدہ سچا ہے اور تو سب فیصلہ کرنے والوں سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے۔ “ (45)
فہم القرآن ربط کلام : بیٹے کی غرقابی کے وقت حضرت نوح (علیہ السلام) کی بےساختہ اللہ تعالیٰ سے فریاد۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنے بیٹے کو بار بار سمجھایا کہ جان پدر کلمہ پڑھو اور کفار کا ساتھ چھوڑ کر میرے ساتھ ہم رکاب ہوجاؤ۔ لیکن بیٹے نے عظیم باپ کی ایک نہ مانی اور پانی میں ڈبکیاں لیتے ہوئے جان دے دی۔ جب یہ کربناک منظر بوڑھے باپ نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تو پدرانہ شفقت جوش میں آئی اور بےساختہ اپنے رب کی بارگاہ میں فریاد کناں ہوئے کہ اے میرے رب آپ نے ازراہ کرم میرے ساتھ وعدہ فرمایا تھا کہ میں آپ کے اہل کو بچالوں گا۔ آپ کا وعدہ ہمیشہ سچا ہوا کرتا ہے اور وعدہ پورا کرنے پر آپ ہر اعتبار سے قادر ہیں۔ کیونکہ آپ حاکموں کے حاکم اور آپ کا حکم ہی غالب آیا کرتا ہے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کی اس درخواست کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے پرجلال انداز میں فرمایا کہ اے نوح ! تیرا بیٹا تیرے اہل میں سے نہیں کیونکہ اس کا عقیدہ اور اعمال اچھے نہیں۔ میں تجھے کو نصیحت کرتا ہوں اب کے بعد میرے حضور یہ درخواست نہ کرنا۔ ورنہ تم جاہلوں میں شمار کیے جاؤگے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد سنتے ہی نوح (علیہ السلام) کانپ اٹھے اور اپنے رب کے حضور نہایت عاجزانہ انداز میں استدعا کی کہ میرے رب ! میں آپ کی حفظ وامان چاہتے ہوئے عرض کرتا ہوں کہ میں آئندہ ہرگز ایسا سوال نہیں کروں گا جس کے بارے میں مجھے علم نہ ہو۔ بس مجھے معاف کیجیے مجھ پر رحم فرمائیے۔ اگر آپ نے مجھے معاف نہ کیا اور مجھ پر رحم نہ فرمایا تو میں نقصان پانے والوں میں ہوں گا۔ اس فرمان میں چارباتیں عیاں ہوتی ہیں۔ 1۔ پیغمبر بھی مشرک اور کافر کے بارے میں بخشش کی دعا نہیں کرسکتا خواہ وہ اس کا بیٹا ہی کیوں نہ ہو۔ 2۔ پیغمبر کسی کو بچانا چاہے بھی تو نہیں بچاسکتا۔ جب تک اللہ تعالیٰ کسی کو نہ بچائے۔ 3۔ پیغمبر اللہ تعالیٰ کے حکم کا سب سے زیادہ پابند ہوتا ہے۔ وہ اپنی مرضی سے اللہ تعالیٰ کے طے شدہ ضابطے کے خلاف بات نہیں کرسکتا۔ بیشک اسے پہلے سے اس ضابطے کا علم نہ ہو۔ 4۔ پیغمبر سے انجانے میں لغزش ہوجائے تو بھی اپنے رب سے استغفار کرتا اور پناہ مانگتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی دعا : (عَنْ عَاءِشَۃَ ؓ قَالَتْ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ ےَقُوْلُ اَللّٰھُمَّ اِنِّی اَعُوْذُبِکَ مِنْ شَرِّ مَا عَمِلْتُ وَمِنْ شَرِّمَا لَمْ اَعْمَلْ ) [ رواہ مسلم : باب التعوذ من شرما عمل ] ” حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اکثر یہ دعا مانگا کرتے تھے۔ ” اے اللہ ! میں اپنے کردہ اور ناکردہ اعمال کے شر سے تیری پناہ طلب کرتا ہوں۔ “ مومنوں کی دعا : (رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِنْ نَسِیْنَا أَوْ أَخْطَأْنَا رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَیْنَا إِصْرًا کَمَا حَمَلْتَہُ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِنَا رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَۃَ لَنَا بِہٖ وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا أَنْتَ مَوْلَانَا فَانْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکَافِرِیْنَ )[ البقرۃ : 286] ” اے ہمارے رب ! اگر ہم بھول جائیں یا خطا کر بیٹھیں تو ہماری گرفت نہ کرنا۔ اے ہمارے رب ! ہم پر وہ بوجھ نہ ڈالنا جو ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالا تھا۔ اے ہمارے رب ! ہم پر وہ بوجھ نہ ڈال جس کی ہمیں طاقت نہ ہو، ہم سے درگزر فرما اور ہمیں معاف فرما دے۔ اور ہم پر رحم فرما۔ تو ہی ہمارا مالک ہے، ہمیں کفار پر غلبہ عطا فرما۔ ‘ ‘ مسائل 1۔ انبیاء ( علیہ السلام) ہر مرحلے پر اللہ تعالیٰ سے فریاد کرتے تھے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ کا وعدہ سچا ہوتا ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ تمام حاکموں کا حاکم ہے۔ 4۔ صالح عمل کرنے والے لوگ ہی انبیاء (علیہ السلام) کے اہل ہوتے ہیں۔ 5۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کو ہر بات کا علم نہ تھا۔ 6۔ اللہ تعالیٰ کے سامنے انبیاء (علیہ السلام) بھی دم نہیں مارسکتے۔ 7۔ بےعلمی میں اگر کوئی بات سرزد ہوجائے تو پھر بھی اللہ سے پناہ طلب کرنی چاہیے۔ 8۔ جسے اللہ معاف نہ کرے اور رحم نہ فرمائے وہ خائب و خاسر ہوجاتا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کا فرمان اور وعدہ سچا ہوتا ہے : 1۔ بیشک اللہ کا وعدہ سچا ہے اور وہ حاکموں کا حاکم ہے۔ (ھود : 45) 2۔ اللہ کا فرمان سچ ہے۔ (الاحزاب : 4) 3۔ اللہ کا وعدہ سچا ہے۔ (القصص : 13) 4۔ اللہ اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرتا۔ (الروم : 6) 5۔ صبر کرو اللہ کا وعدہ سچا ہے۔ (الروم : 60) 6۔ اے لوگو ! بیشک اللہ کا وعدہ سچا ہے۔ (فاطر : 5) 7۔ اللہ کا وعدہ حق ہے اور اللہ سے بات کرنے میں کون زیادہ سچا ہوسکتا ہے ؟ (النساء : 122) 8۔ خبردار اللہ کا وعدہ سچا ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔ (یونس : 55) 9۔ قیامت کے دن شیطان کہے گا یقیناً اللہ نے تمہارے ساتھ سچا وعدہ کیا تھا (ابراہیم : 22) 10۔ وہ کہیں گے پاک ہے ہمارا رب یقیناً اسکا وعدہ پورا ہونے والا ہے۔ (بنی اسرائیل : 108)
Top