Tadabbur-e-Quran - Hud : 45
وَ نَادٰى نُوْحٌ رَّبَّهٗ فَقَالَ رَبِّ اِنَّ ابْنِیْ مِنْ اَهْلِیْ وَ اِنَّ وَعْدَكَ الْحَقُّ وَ اَنْتَ اَحْكَمُ الْحٰكِمِیْنَ
وَنَادٰي : اور پکارا نُوْحٌ : نوح رَّبَّهٗ : اپنا رب فَقَالَ : پس اس نے کہا رَبِّ : اے میرے رب اِنَّ : بیشک ابْنِيْ : میرا بیٹا اَهْلِيْ : میرے گھروالوں میں سے وَاِنَّ : اور بیشک وَعْدَكَ : تیرا وعدہ الْحَقُّ : سچا وَاَنْتَ : اور تو اَحْكَمُ : سب سے بڑا حاکم الْحٰكِمِيْنَ : حاکم (جمع)
اور نوح نے اپنے رب کو پکارا اور کہا کہ اے میرے خداوند میرا بیٹا تو میرے اہل میں سے ہے اور تیرا وعدہ پکا ہے اور تو تمام فیصلہ کرنے والوں سے بڑھ کر فیصلہ کرنے والا ہے
وَنَادٰي نُوْحٌ رَّبَّهٗ فَقَالَ رَبِّ اِنَّ ابْنِيْ مِنْ اَهْلِيْ وَاِنَّ وَعْدَكَ الْحَقُّ وَاَنْتَ اَحْكَمُ الْحٰكِمِيْنَ۔ بلاغت کلام کا ایک خاص پہلو : یہ دعا حضرت نوح نے اس وقت فرمائی ہے جب بیٹے کو ڈوبتے دیکھا اس وجہ سے بظاہر اس کا حوالہ آیت 43 کے ساتھ آنا تھا لیکن بلاغت کلام کے اقتضا سے اس کا ذکر مؤخر ہوگیا۔ گویا خدا کی نگاہوں میں یہ شخص، حضرت نوح کا بیٹا ہونے کے باوجود ایسا نابکار تھا کہ جب تک خدا نے اس کو غرق نہیں کرلیا۔ اس کے باب میں حضرت نوح کی دعا کو زیر بحث لانا بھی پسند نہیں فرمایا۔ اس غضب کی وجہ ظاہر کہ اس دنیا میں اگر کسی انسان کو سب سے بڑی سعدات اور خوش بختی حاصل ہوسکتی ہے تو وہ یہی ہوسکتی ہے کہ اگر وہ اس کی قدر نہ کرے اور دلی کے گھر میں شیطان بن کر اٹھے۔ چناچہ کلام کی ترتیب ہی سے یہ بات صاف عیاں ہے کہ اس شخص کو خدا نے سب سے زیادہ مبغوض قرار دیا۔ گویا سارے طوفان کا اصلی ہدف تھا ہی یہی کہ جب یہ ڈوب گیا تو معاً طوفان کے خاتمہ کا اعلان ہوگیا۔ حضرت نوح کی شفقت پدری : حضرت نوح نے یہ دعا شفقت پدری سے مغلوب ہو کر محض اہل کے اس لفظ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے فرمائی جو اوپر آیت 40 میں گزرا ہے کہ حضرت نوح کو حکم ہوا کہ " اس کشتی میں ہر چیز کے نر و مادہ اور اپنے اہل و عیال کو بجز ان کے جن کے باب میں خدا کا فیصلہ پہلے ہی ہوچکا ہے، سوار کرالو " چونکہ اہل کے لفظ میں ان کا بیٹا کنعان بھی بظاہر لفظ میں شامل تھا اور یہ بات یقین کے ساتھ ان کے علم میں نہیں تھی کہ یہ خدا کے اس فیصلہ کی زد میں آچکا ہے جس کا حوالہ ہم نے اوپر الا من سبق علیہ القول کی وضاحت کرتے ہوئے دیا ہے۔ اس وجہ سے انہوں نے فریاد کی کہ اے رب، میرا یہ بیٹا بھی میرے اہل میں شامل ہے اور تیرا یہ وعدہ کہ تو میرے اہل کو اس کشتی کے ذریعہ سے نجات دے گا۔ سچا وعدہ ہے اور تو سب سے بہتر فیصلہ فرمانے والا ہے۔ مطلب یہ کہ جب یہ تیرا سچا وعدہ موجود ہے تو میرا یہ بیٹا غرق کیوں وا ؟
Top