Kashf-ur-Rahman - Al-Baqara : 64
ثُمَّ تَوَلَّیْتُمْ مِّنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ١ۚ فَلَوْ لَا فَضْلُ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ وَ رَحْمَتُهٗ لَكُنْتُمْ مِّنَ الْخٰسِرِیْنَ
ثُمَّ تَوَلَّيْتُمْ : پھر تم پھرگئے مِنْ بَعْدِ ذٰلِکَ : اس کے بعد فَلَوْلَا : پس اگر نہ فَضْلُ اللہِ : اللہ کا فضل عَلَيْكُمْ : تم پر وَرَحْمَتُهُ : اور اس کی رحمت لَكُنْتُمْ ۔ مِنَ : تو تم تھے۔ سے الْخَاسِرِیْنَ : نقصان اٹھانے والے
پھر تم اس قول وقرار کے بعد اپنے عہد سے پھرگئے سو اگر اللہ کا فضل اور اس کی مہربانی تم پر نہ ہوتی تو تم ضرور تباہ برباد ہوجاتے ۔2
2 اور وہ بات یاد کرو جب ہم نے تم سے عہد اور قول وقرار لیا اور تمہارے سروں پر طور پہاڑ کو اٹھا کر معلق کردیا اور حکم دیا کہ جو کتاب ہم نے تم کو دی ہے اس کو پوری قوت اور کوشش کے ساتھ فوراً قبول کرو اور جو احکام اس کتاب میں مذکور ہیں ان کو یاد رکھو اور پڑھتے رہو تاکہ تم متقی ہو جائو اور عذاب الٰہی سے محفوظ رہو پھر تم اس قول وقرار کے بعد اپنے عہد سے پھرگئے، پھر اگر اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی مہربانی تم پر نہ ہوتی تو یقینا تم بڑا نقصان اٹھانیوالوں میں سے ہوجاتے (تیسیر) مطلب یہ ہے کہ جب ان کو تورایت عطا ہوئی تو اس کے احکام ان کو سخت معلوم ہوئے اور ان کے حال کے مناسب بعض احکام تھے بھی سخت تو انہوں نے پہلے تو یہ کہنا شروع کیا کہ ہم سے اللہ تعالیٰ خود فرمائے کہ یہ کتاب ہم نے عطا کی ہے اس پر حضرت موسیٰ ایک جماعت کو لیکر طور پر پہنچے وہاں جو بات پیش آئی اس کا ذکر اوپر آچکا ہے ۔ جب موسیٰ اس جماعت کو لیکر واپس آئے تو اس نے شہادت بھی دے دی اور شہادت میں اتنا فقرہ اور بڑھا دیا کہ ہاں یہ کتاب تو اللہ تعالیٰ نے ہی عطا فرمائی ہے مگر اتنا کہہ دیا ہے کہ تم سے جو عمل ہو سکے وہ کرنا اور جو نہ ہو سکے تو اس کو ہم معاف کردیں گے۔ غرض اس کے بعد قوم نے بالکل ہی صاف طور سے کہہ دیا کہ جناب اس توریت کے احکام پر عمل کرنا ہمارے بس کا کام نہیں۔ چناچہ اس پر اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو حکم دیا اور وہ طور پہاڑ کا ایک حصہ اٹھا کرلے آئے اور ان پر اس کو معلق کردیا۔ بنی اسرائیل یہ دیکھ کر توبہ کرنے لگے اور سجدے میں گرے مگر سجدہ آدھے چہرے پر کیا اور ایک آنکھ سے اس پہاڑ کو دیکھتے رہے کہ کہیں ہم پر گرتا تو نہیں حکم ہوا اس کتاب کو مضبوطی اور قوت کے ساتھ قبول کرو اور جو احکام ا س میں ہیں ان کو پڑھتے رہو تاکہ وہ احاکم یاد رہیں۔ آخر انہوں نے تسلیم کیا اور قول وقرار کیا۔ اسی عہد کی طرف اس آیت میں اشارہ ہے مگر اس میثاق کے بعد پھر اپنے عہد سے پھرگئے، اس پر بھی اللہ تعالیٰ نے اپنا فضل فرمایا ورنہ اگر اس کی طرف سے گرفت ہوتی تو بالکل ہی ہی تباہ و برباد ہوجاتے، چناچہ آگے اپنی گرفت اور اپنے عذاب کا ایک واقعہ بتاتے ہیں یہاں اگر یہ شبہ کیا جائے کہ اسلام میں تو جبر نہیں ہے پھر بنی اسرائیل پر کیوں جبر کیا گیا اور پہاڑ ان پر معلق کر کے ان سے کیوں عہد لیا گیا تو اس کا جواب یہ ہے کہ بیشک کسی کو اسلام قبول کرنے پر ابتداً مجبور نہیں کیا جاسکتا لیکن کوئی اسلام قبول کرنے کے بعد شریعت کے ماننے سے انکار کرے یا احکام الٰہی کو تسلیم نہ کرے تو اس پر جبر کیا جاسکتا ہے یہ لوگ چونکہ پہلے اپنی رغبت سے اسلسام قبول کرچکے تھے، اس لئے ان کو شریعت موسوی پر قائم رہنے اور اس پر عمل کرنے کی غرض سے مجبور کیا گیا، نزول توریت سے قبل یہ لوگ خود ہی مطالبہ کرتے تھے کہ کوئی کتاب ہم کو دی جائے جب کتاب عنایت ہوئی تو اس کے قبول کرنے سے انکار کرنے لگے، اس پر پہاڑ معلق کیا گیا، کہا جاتا ہے کہ یہود کے ہاں اب تک سجدے کا دستور یہی ہے کہ چہرے کے باتیں حصہ پر سجدہ کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل کا مطلب یہ ہے کہ توبہ کی توفیق عطا فرمائی یا مرتے دم تک مہلت دے دی اور اس عہد شکنی کے عوض کوئی عتاب نازل نہیں کیا۔ بعض مفسرین نے فضل اللہ سے نبی کریم ﷺ کی بعثت مراد لی ہے تو اس صورت میں یہ خطاب ان یہود سے ہوگا جو نبی کریم ﷺ کے زمانے میں موجود تھے اور اب مطلب یہ ہوگا کہ توریت میں نبی آخر الزماں ﷺ پر ایمان لانے کا یہی عہد لیا گیا تھا، تمہارے بڑوں نے تو اس نبی کا زمانہ پایا ہی نہیں مگر تم نے پایا اور تم ایمان نہیں لائے تو جس طرح تمہارے بڑے عہد شکنی کے مرتکب ہوئے تھے تم بھی اس کے مرتکب ہو رہے ہو لیکن یہ پیغمبر اللہ تعالیٰ کا ایک انعام ہے، اس کی برکت سے اب کوئی ایسا عذاب نازل نہ ہوگا جیسا پہلے لوگوں پر نازل ہوتا رہا ہے، واللہ اعلم حضرت شاہ صاحب تتقون پر فرماتے ہیں جب تورات اتری تو کہنے لگے ہم سے اتنے حکم نہ ہوں گے تب پہاڑ اوپر آیا کر گرپڑے تب ڈر کر قبول کرلیا۔ موضح القرآن (تسہیل)
Top