Asrar-ut-Tanzil - Hud : 19
اَفَمَنْ یَّعْلَمُ اَنَّمَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ مِنْ رَّبِّكَ الْحَقُّ كَمَنْ هُوَ اَعْمٰى١ؕ اِنَّمَا یَتَذَكَّرُ اُولُوا الْاَلْبَابِۙ
اَفَمَنْ : پس کیا جو يَّعْلَمُ : جانتا ہے اَنَّمَآ : کہ جو اُنْزِلَ : اتارا گیا اِلَيْكَ : تمہاری طرف مِنْ : سے رَّبِّكَ : تمہارا رب الْحَقُّ : حق كَمَنْ : اس جیسا هُوَ : وہ اَعْمٰى : اندھا اِنَّمَا : اس کے سوا نہیں يَتَذَكَّرُ : سمجھتے ہیں اُولُوا الْاَلْبَابِ : عقل والے
بھلا جو شخص یہ جانتا ہے کہ آپ پر جو کچھ آپ کے پروردگار کی طرف سے اتارا گیا ہے حق ہے ، وہ اس شخص کی طرح ہوسکتا ہے جو اندھا ؟ بیشک نصیحت تو عقل مند لوگ ہی قبول کرتے ہیں
(رکوع نمبر 3) اسرارومعارف مومن جسے یقین کی یہ دولت نصیب ہو کہ آپ ﷺ پر جو کچھ اپنے پروردگار کی طرف سے نازل ہوا حق ہے اس کی عظمت کو دل کے اندھے یعنی جو اس یقین سے محروم ہیں بھلا کب پا سکتے ہیں اگرچہ یہ بات بہت واضح ہے مگر سمجھنے کے لیے تو عقل ضروری ہے لہذٓ ٰٓسی بات بھی دانا لوگ ہی جان سکتے ہیں اور دانا وہ ہیں جو اپنے اللہ جل جلالہ سے کئے گئے وعدے کا پاس رکھتے ہیں اور اسے نباہتے ہیں جو ازل میں عہد کیا تھا کہ تو ہی ہمارا پروردگار ہے اور پھر کلمہ طیبہ پڑھ کر دوبارہ اس کی عظمت اور نبی ﷺ کی صداقت کا اقرار کرکے اطاعت کا وعدہ کیا پھر نافرمانی کرکے اسے توڑتے نہیں ، تیسرا وصف ان کا یہ ہے کہ جن امور یا رشتوں کو اللہ جل جلالہ نے جوڑنے کا حکم دیا ہے انہیں توڑتے نہیں ان میں صلہ رحمی بھی شامل ہے مگر یاد رہے کہ اس کی بھی ایک حد ہے یعنی اللہ جل جلالہ کی نافرمانی پر ساتھ دینا درست نہیں ہاں دنیا کے معاملات میں درگذر کرنا صلہ رحمی ہے کہ آدمی اپنا نقصان بھی برداشت کرلے مگر قطع نہ کرے ، لیکن خلاف شریعت پر تعاون نہ کیا جائے اور جوڑنے سے مراد ایمان کے ساتھ اعمال صالح کو ملانا بھی ہے کہ اللہ جل جلالہ نے انہیں ملانے کا حکم دیا ہے مگر انسان نرے دعوے ایمان پر قناعت کرکے بیٹھ رہتا ہے اور عمل صالح کے لیے کوشش نہیں کرتا ایسا کرنا دانشمندی کے خلاف ہے اور اس سب کے باوجود اللہ جل جلالہ کی محبت اور اس کے قرب کی طلب میں اس بات سے ڈرتے رہتے ہیں کہ مبادا کوئی غلطی کر بیٹھیں اور اللہ جل جلالہ ناراض ہوجائیں خشیت ایسے ہی ڈر کو کہا جاتا ہے اور حساب کو سختی سے ڈرتے رہتے ہیں کہ کوئی بھی شخص کتنے ہی اعمال کرلے نجات کے لیے اللہ جل جلالہ کی رحمت ہی کا محتاج ہوگا کہ انسان سے کہیں نہ کہیں ایسی غلطی ہوجاتی ہے جو سب اعمال کو بیکار کرنے کے لیے کافی ہو نیز انسان پر اللہ جل جلالہ کے احسانات اس قدر ہیں کہ کبھی بھی غلطی نہ کرے جب بھی ان کا شکر ادا نہیں کر پاتا حتی جب آپ ﷺ نے فرمایا کہ جنت میں جو بھی داخل ہوگا اللہ جل جلالہ کی رحمت سے ہوگا تو عرض کیا گیا آپ ﷺ بھی یا رسول اللہ فرمایا ، بیشک میں بھی اور حساب کے لیے فرمایا کہ حساب یسیر کی دعا مانگا کرو کہ آسان حساب یہ ہے کہ پوچھا نہ جائے کہ تو نے ایسا کیوں کیا حضرت عائشہ ؓ کی روایت میں ہے کہ جس پر سوال ہوگیا کہ ایسا کیوں کیا تھا وہ ضرور عذاب میں گرفتار ہوگا ، لہذا دانشمندی یہ ہے کہ حساب کا ڈر ہر آن دل میں موجود رہے ۔ اگلا وصف ان کا یہ ہے کہ اپنے رب کی رضا مندی کو پانے کے لیے صبر کرتے ہیں اور یہ بھی عجیب بات ہے کہ آج کا مسلمان اگر چند سجدے کر گزرے تو اس کا خیال یہ ہوتا ہے کہ دنیا کا ہر کام اس کی پسند سے ہونا چاہئے اور کوئی اس کی مرضی کے خلاف واقع نہ ہو ، حالانکہ اسلام اپنی پسند ، آرام اور خواہشات پر صبر کرنے کا نام ہے ، صبر سے مراد خود کو ضبط کرکے رکھنا ہے کہ خواہش ہو ضرورت ہو مگر اللہ کے حکم کے خلاف اسے پورا نہ کرے بلکہ اس پر صبر کرلے اور اللہ جل جلالہ کی اطاعت کو نہ چھوڑے تو یہ دو طرح کا صبر ہوگا ، اطاعت پہ قائم رہنا اور گناہ سے رک جانا ہاں اگر وہ مجبور ہے اور کسی وجہ سے ایسا کر ہی نہیں تو بھی گناہ سے تو بچ گیا مگر یہ غیر اختیاری کام صبر نہ کہلائے گا اس لیے یہ امید رکھنا کہ خطا کا کبھی موقع ہی نہ آئے یا نفس اور شیطان کی طرف سے کوئی داعیہ پیدا نہ ہو صحیح نہیں کہ ایسی حالت میں ہی اپنے کو خطا سے روکنا اور صرف اللہ جل جلالہ کی رضا کے لیے روکنا ہی تو صبر ہے ، دانشمندوں کی اگلی نشانی یہ ہے کہ نماز کو قائم کرتے ہیں ، اس کے دو طریقے ہیں اول اپنی نماز کو اس کی جملہ شرائط کا لحاظ رکھتے ہوئے ادا کرنا ، دوم جہاں تک ممکن ہو قیام صلوۃ کے لیے کوشش کرتے رہنا پھر ان کی خوبی یہ ہوتی ہے کہ اللہ جل جلالہ نے جو کمالات یا علم دولت انہیں بخشی ہے اسے اللہ جل جلالہ کی راہ میں صرف کرتے ہیں ، یعنی جو قوت انہیں حاصل ہے اس سے اللہ جل جلالہ کی عظمت ثابت کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں اور اپنی طاقتوں کو ذاتی اغراض کی تکمیل کا سبب نہیں بناتے یہ ایسی حالت میں ہوتا ہے کہ انسان اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے اللہ جل جلالہ کی نافرمانی اختیار کرے نیز موقع کی مناسبت سے پوشیدہ کوشش بھی کرتے ہیں اور ظاہر بھی یعنی جہاں جیسا موقع ہو اور جیسا کرنے سے دینی فائدہ کی زیادہ امید ہو یا صدقہ فرض ظاہر کرکے ادا کرنا اور نفلی کو خفیہ مگر وسیع تر مراد یہی ہے کہ اپنی قوتوں کے صرف سے ذاتی شہرت یا فائدے کے بجائے دین کی عظمت مقصود ہو اور موقع کے مناسب کام کیا جائے ۔ نیز وہ برائی کے مقابلے میں برائی نہیں کرتے بلکہ نیکی سے برائی کا دفعیہ کرتے ہیں کہ برائی کے مقابلے میں برائی سے تو بدی اور بڑھتی ہے ظلم زیادہ ہوتا ہے مگر اللہ جل جلالہ کے بندے بدی کے مقابل نیکی پھیلاتے ہیں اس سے یہ مراد نہ لی جائے کہ قاتلوں ، ڈاکوؤں اور چوروں کو معاف کردینا برائی کے مقابلے میں نیکی ہے یہ تو بہت بڑی برائی ہے ہاں نیکی یہ ہے کہ مجرم سے تو قصاص لیا جائے مگر اس کے بدلے دشمنی نہ پالی جائے اور اس کے لواحقین سے بہتر سلوک کیا جائے ، نیز عام معاشرے کی روش کو نہیں اپناتے جیسا کہ عام انسانی مزاج ہے بلکہ سب معاشرے بھی کسی برائی پر متفق ہوجائے تو بھی اللہ کے بندے یا صاحب خرد لوگ نیکی ہی کو اپنا شعار بناتے ہیں ایسے لوگوں کے لیے آخرت کا گھر ہے ۔ ّ (اللہ کے بندوں اور نیک لوگوں سے تعلق کا اثر) جنت عدن جس میں ان کے سبب ان کے متعلقین بھی داخل ہوں گے اگر وہ بھی دنیا سے ایمان کے ساتھ گئے ہوں اگرچہ ان کے اپنے اعمال جنت کے اس درجہ کو پانے کے قابل نہ بھی ہوں تو بھی ان کی بیویاں ، ان کے والدین اور ان کی اولاد صرف ان کی وجہ سے وہاں داخل ہوگی ، ایسے ہی ان کے دوست یا متعلقین اور ان سب کے لیے صرف ایمان شرط ہے کہ کفر پہ مرنے والا سارے رشتوں سے محروم ہوجاتا ہے اور مومن وکافر ہیں کوئی رشتہ نہیں رہتا صاحب تفسیر مظہری نے بیان فرمایا ہے کہ یہ آیت ازواج مطہرات اور خاندان نبی علی صا حبھا لصلوۃ والسلام کے بارے اس بات کی دلیل ہے کہ یہ سب لوگ نبی اکرم ﷺ کے طفیل اعلی درجات پر اور آپ ﷺ کے ہمراہ ہوں گے ، خصوصا ازواج مطہرات کا ٹھکانہ آپ ﷺ ہی کا دولت کدہ ہوگا اور یہی نسبت نیچے تک چلے گی کہ رشتہ ایمان ہی نسبی رشتے کی بقا کا سبب بھی ہے کافر اس سے محروم رہے گا نیز اللہ جل جلالہ اپنے بندوں کو خوش کرنے کے لیے ان کے متعلق کو خواہ نسبی ہوں یا جہری یا دوستی کا رشتہ ہو بشرط ایمان ان کے ساتھ جگہ عطا فرمائے گا اور ہر ہر دروازے سے فرشتے داخل ہو کر انہیں مبارکباد اور ابدی سلامتی کا پیغام دیں گے اور کہیں کہ تم نے اللہ کی اطاعت پر صبر کیا تکالیف برداشت کرلیں مگر اطاعت الہی کو ہاتھ سے نہ دیا تو اس کا کتنا بہترین بدلہ پا رہے ہو اور یہ آخرت کا گھر کتنا عجیب ہے کہ اس کے حسن کا جواب نہیں ، نعمتوں کا کوئی حساب نہیں کسی دکھ کا نام نہیں اور ہمیشہ ہمیشہ رہنے والا ہے یہ اس بات کی دلیل ہے کہ آخرت کی کامیابی اور درجات عالیہ کے لیے انسان کو دنیا میں صبر اختیار کرنا چاہئے ، اللہ کی اطاعت کے ساتھ بندوں کے حقوق کا پورا پورا لحاظ ضروری ہے جس پر صبر سب سے مشکل کام ہے ہاں اللہ ہی توفیق دینے والا ہے ۔ جو لو گ اللہ کے عہد کے پرواہ نہیں کرتے اس کی ذات اور صفات میں دوسروں کو شریک کرتے ہیں یعنی اپنی امیدیں غیر اللہ سے وابستہ کرلیتے ہیں ، اور عہد شکنی کے مرتکب ہوتے ہیں وہ پھر اللہ کے بندوں کے حقوق کی پرواہ بھی نہیں کرتے اور جن رشتوں کو جوڑنے کا حکم ہے ایسے لوگ انہیں توڑنے کا سبب بنتے ہیں اور اس طرح زمین پر فساد بپا کرتے ہیں تو اس عارضی فرصت کے بعد جب ہمیشہ کے گھر میں یعنی آخرت میں پہنچتے ہیں اور انہیں اللہ جل جلالہ کی رحمت سے محرومی یعنی لعنت سے واسطہ پڑتا ہے اور بہت ہی بری اور تکلیف دہ جگہ ٹھکانہ ملتا ہے اور یوں تباہی اور ہمیشہ کے دکھ میں مبتلا ہوتے ہیں انہوں نے دنیا میں اللہ جل جلالہ کی نافرمانی کرکے دنیا کمانے کی ٹھانی تھی ، حالانکہ یہ بھی ان کی بھول تھی رزق تو خود اللہ جل جلالہ کی طرف سے ہوتا ہے جسے چاہے زیادہ عطا کر دے اور جس پر چاہے تنگی وارد کر دے اس میں انسان کا اختیار صرف اتنا ہے کہ وہ حصول رزق میں اللہ جل جلالہ کی اطاعت کی راہ اختیار کرتا ہے یا نافرمانی کرتا ہے ان بدنصیبوں کو دنیا میں چند روز کیا مل گئے کہ اسی پر ناز کرنے لگے ، حالانکہ آخرت کے مقابلے میں دنیا کی زندگی کوئی حیثیت نہیں رکھتی ۔
Top