Kashf-ur-Rahman - Al-Maaida : 24
قَالُوْا یٰمُوْسٰۤى اِنَّا لَنْ نَّدْخُلَهَاۤ اَبَدًا مَّا دَامُوْا فِیْهَا فَاذْهَبْ اَنْتَ وَ رَبُّكَ فَقَاتِلَاۤ اِنَّا هٰهُنَا قٰعِدُوْنَ
قَالُوْا : انہوں نے کہا يٰمُوْسٰٓى : اے موسیٰ اِنَّا : بیشک ہم لَنْ نَّدْخُلَهَآ : ہرگز وہاں داخل نہ ہوں گے اَبَدًا : کبھی بھی مَّا دَامُوْا : جب تک وہ ہیں فِيْهَا : اس میں فَاذْهَبْ : سو تو جا اَنْتَ : تو وَرَبُّكَ : اور تیرا رب فَقَاتِلَآ : تم دونوں لڑو اِنَّا : ہم ھٰهُنَا : یہیں قٰعِدُوْنَ : بیٹھے ہیں
مگر بنی اسرائیل نے پھر یہی جواب دیا کہ اے موسیٰ جب تک وہ لوگ وہاں موجود ہیں ہم اس سر زمین میں ہرگز کبھی داخل نہیں ہوں گے سوائے موسیٰ تو اور تیرا رب دونوں جائو اور ان سے جنگ کرو ہم تو یہیں بیٹھے ہیں ۔2
2۔ بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ کو مخاطب کرتے ہوئے جواب دیا اے موسیٰ ! جب تک وہ لوگ وہاں موجود ہیں ہم ہرگز کبھی بھی اس سرزمین میں قدم نہیں رکھیں گے اور اگر ان سے لڑنا ہی ہے تو اے موسیٰ ! تو اور تیرا رب دونوں جائو اور ان سے تم دونوں جا کر لڑو ہم تو یہیں بیٹھے ہیں اور ہم تو یہاں سے سرکنے والے نہیں۔ (تیسیر) مطلب یہ ہے کہ ہم تو کسی طرح اس سرزمین پر قبضہ اور تسلط رکھنے والوں سے لڑنے پر آمادہ نہیں ہیں اور اگر لڑنا ہی ہے اور ایسا کرنا ضروری ہے تو پھر اے موسیٰ تم چلے جائو اور تمہارا رب تمہاری مدد کرنے چلا جائے اور جا کر لڑ لو ہم تو یہاں سے قدم بڑھانے اور جہاد کرنے کو جانے والے نہیں بظاہر بنی اسرائیل کا یہ کہنا کفر ہے اور جو معنی ہم نے بیان کئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ تمہاری مدد کرنے کو جائے تب بھی ان کلمات کے فسق ہونے میں تو شک نہیں اور چونکہ حضرت ی موسیٰ ان لوگوں سے علیحدہ نہیں ہوئے۔ اس لئے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کافر نہیں ہوئے اور اسی بنا پر تفسیر مظہری نے یہ توجیہہ کی ہے جس کو ہم نے اختیار کیا ہے یعنی اذھب انت و ربک یعینک بہر حال ! جرم قابل توبہ تھا اور ہوسکتا ہے کہ حضرت ی موسیٰ نے ان سے توبہ کرائی ہو لیکن قرآن کریم میں کوئی تفصیل مذکور نہیں البتہ قواعد شرعیہ کی بنا پر یہ کہا جا سکات ہے کہ اس گستاخانہ اور فاسقانہ کلام پر ان سے توبہ ضرور کرائی گئی ہوگی۔ (واللہ اعلم) بنی اسرائیل کے اس گستاخانہ جواب سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بہت متاثر اور پریشان ہوئے اور حضرت حق تعالیٰ کی جناب میں دعا کی آگے اس دعا کا ذکر ہے چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔ (تہسیل)
Top