Kashf-ur-Rahman - Al-Qalam : 2
مَاۤ اَنْتَ بِنِعْمَةِ رَبِّكَ بِمَجْنُوْنٍۚ
مَآ اَنْتَ : نہیں ہیں آپ بِنِعْمَةِ رَبِّكَ : اپنے رب کی نعمت کے ساتھ بِمَجْنُوْنٍ : مجنون
کہ آپ اپنے رب کے فضل سے دیوانے نہیں ہیں۔
(2) کہ آپ اپنے پروردگار کے فضل سے مجنون اور دیوانے نہیں ہیں۔ پیغمبر اسلام ﷺ کے متعلق دین حق کے منکر عجیب عجیب بےتکی اور سراپا لغو باتیں کہا کرتے تھے منجملہ ان کے آپ کو عام طور سے دیوانہ اور مجنون بھی کہتے ہیں۔ چنانچہ سورة حجر میں گزر چکا ہے یایھا الذی نزل علیہ الذکر انک لمجنون۔ حضرت حق جل مجدہ کافروں کے ان الفاظ کا رد فرماتا ہے اور تاکید کے طور پر قلم اور قلم سے لکھنے والے جو کچھ لکھتے ہیں اس کی قسم کھا کر کفار کے اس قول کی نفی فرماتا ہے کہ آپ ہرگز مجنون نہیں ہیں۔ قلم سے مراد وہ قلم ہے جس سے مقادیر خلق لوح محفوظ پر لکھے گے اور جس کو اول ماخلق اللہ القلم کا شرف حاصل ہوا وما یسطرون سے شاید ان فرشتوں کا لکھنا مراد ہے جو کاتب اعمال ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے یہی تفسیر منقول ہے بعض حضرات نے وما یسطرون کو عام رکھا ہے یعنی جو بھی لکھنے والے لکھتے رہتے ہیں خواہ وہ تحریرات عالم بالا کی ہوں یا نامہ اعمال کی ہوں یا زمین کے لکھنے والے لکھتے ہوں چونکہ تحریرات کو دوام حاصل ہے اور قلم اور قلم کی تحری کو ممالک کے انتظام میں بڑا دخل ہے اور امور سلطنت کا انصرام اور امور سلطنت کا ترقی کا دارومدار قلم اور قلم کی تحریرات پر منحصر ہے اور امم سابقہ کے حالات کا معلوم ہونا اور تاریخی واقعات کا معلوم ہونا سب تحریر اور فرشتوں پر موقوف ہے اور زبانی باتوں کا وجود محض عارضی ہے اور دیوانے آدمی کی بات کو تو بالکل ثبات نہیں۔ یہاں نبی کریم ﷺ کی تعلیم جو ہمہ گیر تعلیم ہے اس کی نہ صرف اشاعت اور تمام عالم میں پھیلانا مقصود ہے بلکہ اس کو دوام اور قیامت تک اس تعلیم کا دنیا میں قائم رہنا اور لوگوں کا اس مشعل ہدایت سے راہ پانے کا اظہار اور اعلان مقصود ہے اس لئے قلم اور جو کچھ اس قلم سے فرشتے یا اہل زمین لکھتے رہتے ہیں اس کی قسم کھا کر فرمایا کہ اے محمد ﷺ آپ اپنے پروردگار کے فضل و کرم سے مجنون یا دیوانے نہیں ہیں بلکہ آپ کے لئے تو کفار کی ان باتوں سے بڑا اجر اور بڑا مرتبہ ہے۔
Top