Tafseer-e-Madani - Al-Qalam : 2
مَاۤ اَنْتَ بِنِعْمَةِ رَبِّكَ بِمَجْنُوْنٍۚ
مَآ اَنْتَ : نہیں ہیں آپ بِنِعْمَةِ رَبِّكَ : اپنے رب کی نعمت کے ساتھ بِمَجْنُوْنٍ : مجنون
آپ (اے پیغمبر ! ) اپنے رب کے فضل سے مجنون نہیں ہیں
3 پیغمبر (علیہ السلام) کی عظمت شان کا ذکر وبیان : سو قلم اور ومایسطرون کی قسموں کے مقسم بہ کے طور پر ارشاد فرمایا گیا کہ آپ اے پیغمبر اپنے رب کے فضل سے مجنوں نہیں ہیں۔ جیسا کہ نور حق و ہدایت سے محروم ان بدبختوں کا کہنا ہے، جیسا کہ دوسری جگہ ارشاد فرمایا گیا۔ وقالوا یا ایھا الذی نزل علیہ الذکر انک لمجنون (الحجر۔ 6) پس یہ دراصل انہی بدبختوں کا رد ہے نہ کہ حضرت ختمی مرتبت ﷺ کو تسلی دینا، جیسا کہ بادی النظر میں محسوس ہوتا ہے کہ آپ (صلوات اللہ وسلامہ علیہ) کو اس طرح کی کوئی غلط فہمی نہیں تھی، کہ آپ ﷺ تو بہرحال اور قطعی طور پر حق پر تھے (انک لعلی ھدی مستقیم) (الحج ۔ 67) سو یہ خطاب اگرچہ آپ ﷺ سے ہے مگر سنانا درحقیقت کفر و شرک کے مارے ہوئے انہی بدبختوں کو ہے اور اس اسلوب تخاطب اور انداز بیاں میں دراصل بلاغت کا یہ اہم پہلو محلوظ ہوتا ہے کہ ایسا الزام لگانے والے یہ کفار و مشرکین اس قابل بھی نہیں کہ ان کو براہ راست مخاطب کیا جائے اور ان کو خطاب کر کے ان کی بات کا جواب دیا جائے، بلکہ ان سے منہ پھیر کر اور دوسرے کو مخاطب کر کے اور اس کے ذریعے ان کو سنایا جا رہا ہے کہ ایسا کلام معجز نظام سنانے والے کو تم لوگ مجنوں کہہ رہے ہ، آخر تمہاری عقلوں کو ہو کیا گیا ہے ؟ اور تمہاری مت آخر کہاں، کیسے اور کتنی مار دی گئی ؟ والعیاذ باللہ العظیم۔ بہرکیف یہاں پر ان دو قسموں کے جواب میں اور مقسم علیہ کے طور پر ارشاد فرمایا گیا کہ آپ میں اے پیغمبر اللہ کے فضل و کرم سے دیوانگی کی کوئی بات نہیں جس طرح کہ ان منکروں بدبختوں کا کہنا ہے بلکہ گزشتہ تمام آسمانی صحیفے اور یہ قرآن جو لکھا جا رہا ہے آپ کی صداقت و حقانیت کے شاہد ہیں اور یہ کہ آپ اپنے رب کے سب سے بڑے فضل سے بہرہ مند ہیں اور اخلاق کریمہ کے اعلیٰ درجے پر ہیں۔ (علیہ السلام)
Top