Maarif-ul-Quran - An-Naml : 35
وَ اِنِّیْ مُرْسِلَةٌ اِلَیْهِمْ بِهَدِیَّةٍ فَنٰظِرَةٌۢ بِمَ یَرْجِعُ الْمُرْسَلُوْنَ
وَاِنِّىْ : اور بیشک میں مُرْسِلَةٌ : بھیجنے والی اِلَيْهِمْ : ان کی طرف بِهَدِيَّةٍ : ایک تحفہ فَنٰظِرَةٌ : پھر دیکھتی ہوں بِمَ : کیا (جواب) لے کر يَرْجِعُ : لوٹتے ہیں الْمُرْسَلُوْنَ : قاصد
اور میں بھیجتی ہوں ان کی طرف کچھ تحفہ پھر دیکھتی ہوں کیا جواب لے کر پھرتے ہیں بھیجے ہوئے
وَاِنِّىْ مُرْسِلَةٌ اِلَيْهِمْ بِهَدِيَّةٍ فَنٰظِرَةٌۢ بِمَ يَرْجِعُ الْمُرْسَلُوْنَ ، یعنی میں حضرت سلیمان اور ان کے ارکان دولت کے پاس ایک ہدیہ بھیجتی ہوں پھر دیکھوں گی کہ جو قاصد یہ ہدیہ لے کر جائیں گے وہ واپس آ کر کیا صورت حال بیان کرتے ہیں۔
بلقیس کے قاصدوں کی دربار سلیمانی میں حاضری
تاریخی اسرائیلی روایات میں بلقیس کی طرف سے آنے والے قاصدوں اور تحفوں کی بڑی تفصیلات مذکور ہیں۔ اتنی بات پر سب روایات متفق ہیں کہ تحفہ میں کچھ سونے کی اینٹیں تھیں کچھ جواہرات اور ایک سو غلام اور ایک سو کنیزیں تھیں مگر کنیزوں کو مردانہ لباس میں اور غلاموں کو زنانہ لباس میں بھیجا تھا اور ساتھ ہی بلقیس کا ایک خط بھی تھا جس میں سلیمان کے امتحان کے لئے کچھ سوالات بھی تھے، تحفوں کے انتخاب میں بھی ان کا امتحان مطلوب تھا۔ حضرت سلیمان کو حق تعالیٰ نے اس کے تحفوں کی تفصیلات ان کے پہنچنے سے پہلے بتلا دی تھیں۔ سلیمان ؑ نے جناب کو حکم دیا کہ دربار سے نو فرسخ تقریباً تیس میل کی مسافت میں سونے چاندی کی اینٹوں کا فرش کردیا جائے اور راستہ میں دو طرفہ عجیب الخلقت جانوروں کو کھڑا کردیا جائے جن کا بول و براز بھی سونے چاندی کے فرش پر ہو۔ اسی طرح اپنے دربار کو خاص اہتمام سے مزین فرمایا، دائیں بائیں چار چار ہزار سونے کی کرسیاں ایک طرف علماء کے لئے، دوسری طرف وزراء اور عمال سلطنت کے لئے بچھائی گئیں۔ جواہرات سے پورا ہال مزین کیا گیا۔ بلقیس کے قاصدوں نے جب سونے کی اینٹوں پر جانوروں کو کھڑا دیکھا تو اپنے تحفہ سے شرما گئے۔ بعض روایات میں ہے کہ اپنی سونے کی اینٹیں وہیں ڈال دیں، پھر جوں جوں آگے بڑھتے گئے دو طرفہ وحوش و طیور کی صفیں دیکھیں، پھر جنات کی صفیں دیکھیں تو بےحد مرعوب ہوگئے مگر جب دربار تک پہنچے اور حضرت سلیمان کے سامنے حاضر ہوئے تو آپ خندہ پیشانی سے پیش آئے، ان کی مہمانی کا اکرام کیا مگر ان کے تحفے واپس کردیئے اور بلقیس کے سب سوالات کے جوابات دیئے۔ (ملخصًا از تفسیر قرطبی)
Top