Tadabbur-e-Quran - An-Naml : 35
وَ اِنِّیْ مُرْسِلَةٌ اِلَیْهِمْ بِهَدِیَّةٍ فَنٰظِرَةٌۢ بِمَ یَرْجِعُ الْمُرْسَلُوْنَ
وَاِنِّىْ : اور بیشک میں مُرْسِلَةٌ : بھیجنے والی اِلَيْهِمْ : ان کی طرف بِهَدِيَّةٍ : ایک تحفہ فَنٰظِرَةٌ : پھر دیکھتی ہوں بِمَ : کیا (جواب) لے کر يَرْجِعُ : لوٹتے ہیں الْمُرْسَلُوْنَ : قاصد
اور میں ان کے پاس اپنے سفیر ہدیہ کے ساتھ بھیجتی ہوں اور دیکھتی ہوں کہ سفیر کیا جواب لاتے ہیں
وانی مرسلۃ الیھم بھدیۃ فنظرۃ بم یرجمع المرسلون (35) ملکہ نے جنگ کے بجائے مصالحت و استمالت کی پالیسی اختیار کرنے کا مشوہ دیا اور کہا کہ میں پہلے اپنے سفیروں کے ذریعہ سے حضرت سلیمان کے پاس تحفے بھیجتی ہوں اور دیکھتی ہوں کہ ہمارے اس جذبہ خیر سگالی کا ان پر کیا اثر پڑتا ہے اور ہمارے سفیر ان کی طرف سے کیا جواب لے کر لوٹتے ہیں۔ فنظرۃ بم یرجع المرسلون سے یہ بات مترشح ہوتی ہے کہ ملکہ کو اپنی اس سفارش کی کامیابی کی کچھ زیادہ توقع نہیں تھی۔ وہ جانتی تھیں کہ حضرت سلیمان کے سامنے اصول کا ہے۔ ان کو تحفوں اور ہدیوں سے رام کرنا ممکن نہیں ہے لیکن وہ جنگ سے بچ کر معاملے کو طے کرنے کی کوئی ایسی راہ نکالنا چاہتی تھیں جو ان کے اور ان کے اہل ملک کے لئے بہتر ہو اور یہ دلیل ہے اس بات کی کہ ان کے مزاج میں سلامت روی اور عاقبت بینی تھیں۔
Top