Madarik-ut-Tanzil - An-Naml : 35
وَ اِنِّیْ مُرْسِلَةٌ اِلَیْهِمْ بِهَدِیَّةٍ فَنٰظِرَةٌۢ بِمَ یَرْجِعُ الْمُرْسَلُوْنَ
وَاِنِّىْ : اور بیشک میں مُرْسِلَةٌ : بھیجنے والی اِلَيْهِمْ : ان کی طرف بِهَدِيَّةٍ : ایک تحفہ فَنٰظِرَةٌ : پھر دیکھتی ہوں بِمَ : کیا (جواب) لے کر يَرْجِعُ : لوٹتے ہیں الْمُرْسَلُوْنَ : قاصد
اور میں انکی طرف کچھ تحفہ بھیجتی ہوں اور دیکھتی ہوں کہ قاصد کیا جواب لاتے ہیں
ملکہ کی عاقلانہ رائے : 35: وَاِنِّیْ مُرْسِلَۃٌ اِلَیْہِمْ بِہَدِیَّۃٍ (میں ان کو ایک ہدیہ بھیجوں گی) یعنی قاصدوں کو ہدیہ دیکر بھیجوں گی۔ فَنٰظِرَۃٌ (پھر دیکھوں گی) ۔ پس انتظار کروں گی۔ نحو : اصل میں بما ہے کیونکہ حرف جر کے ساتھ ما استفہامیہ آئے تو الف حذف کردیا جاتا ہے۔ یَرْجِعُ الْمُرْسَلُوْن (قاصد کیا جواب لے کر آتا ہے) ۔ ان ہدیوں کی قبولیت کا یا واپس لوٹانے کا۔ کیونکہ وہ بادشاہوں کی عادت اور ہدایا کے اچھے مواقع سے واقف تھی۔ پس اگر وہ بادشاہ ہوگا تو ان کو قبول کرلے گا اور اگر وہ پیغمبر ہوا تو ان کو رد کر دے گا اور ہم سے سوائے اتباع دین کے کسی چیز پر راضی نہ ہوگا۔ اس نے ہدایا میں پانچ سو غلام جن کو لڑکیوں کا لباس اور زیورات پہنا کر ایسے گھوڑوں پر سوار کیا جو ریشم سے ڈھنپے ہوئے تھے اور ان گھوڑوں کی لگا میں اور کاٹھیاں سونے اور جواہرات سے مزین تھیں اور پانچ لڑکیاں جو لڑکوں کے لباس میں گھوڑیوں پر سوار تھیں۔ اور ایک ہزار سونے ‘ چاندی کی اینٹیں اور موتی اور یاقوت کا جڑائو کیا ہوا تاج اور ایک ڈبیہ جس میں ایک نایاب موتی اور ایک ٹیڑھا کیا ہوا پوتھ رکھ کر بند کردیا اور قاصد بھیجے اور ان کا نگران منذربن عمرو کو بنایا۔ اس کی دلیل اس ارشاد میں ہے بِمَ یرجع المرسلون۔ اور اس نے ایک خط لکھا جس میں سارے ہدایا کی تفصیل تھی اور یہ کہا گیا کہ اگر آپ نبی ہیں تو لونڈیوں اور غلاموں میں امتیاز کر دیجئے اور یہ بھی اطلاع کر دیجئے کہ ڈبیہ میں کیا ہے اور موتی کے درمیان میں درست سوراخ کردیا جائے اور پوتھ کے اندر دھاگہ ڈال دیا جائے پھر اس نے منذر کو یہ حکم دیا کہ اگر وہ تمہیں غضب ناک نگاہوں سے دیکھے تو سمجھ لینا کہ وہ بادشاہ ہے۔ ہرگز اس سے خوف زدہ نہ ہونا اور اگر تم ان کو ہشاش بشاش نرمی والا پائو تو وہ پیغمبر ہیں۔ ہد ہد کی آگاہی کی صورت : ہدہد حاضر ہوا اور سلیمان (علیہ السلام) کو اس ساری صورت حال سے آگاہ کیا۔ سلیمان (علیہ السلام) نے جنات کو حکم دیا۔ کہ وہ سونے چاندی کی اینٹیں تیار کریں۔ اور سامنے کے میدان میں جس کی لمبائی سات فرسخ ہو اس کا فرش لگا دیں اور اس میدان کے اردگرد دیوار بھی سونے چاندی کی اینٹوں کی کھینچ دیں پھر آپ نے حکم دیا کہ سمندر اور خشکی کے بہترین جانوروں کو اس میدان کے دائیں اور بائیں ان عمارتوں پر باندھ دیا جائے اور جنات کی اولاد کو حکم دیا کہ وہ اس میدان کے دائیں اور بائیں بیٹھ جائیں پھر آپ اپنے تخت پر تشریف فرما ہوئے تو تخت کے دونوں اطراف میں کرسیاں لگی ہوئی تھیں۔ شیاطین صفیں باندھے کئی فرسخ تک اور اسی طرح انسان صفیں باندھے کئی فرسخ تک اور وحشی جانور درندے اور پرندے اور کیڑے مکوڑے سب صف بستہ تھے۔ جب انہوں نے جانوروں کو سونے چاندی کی اینٹوں پر گوبر کرتے دیکھا تو ان کو اپنے ہدایا حقیر معلوم ہوئے۔ اس لئے ان کو وہیں پھینک دیا اور بڑھتے ہوئے سلیمان (علیہ السلام) کے جب سامنے آ کھڑے ہوئے تو آپ نے ان سب کو ہنس مکھ چہرے سے دیکھا۔ انہوں نے ملکہ کا خط حاضر خدمت کیا آپ نے فرمایا موتی کہاں ہے پھر دیمک کو حکم دیا۔ تو اس نے ایک بال پکڑ کر اس موتی میں سوراخ کردیا اور ایک سفید کیڑے نے اپنے منہ میں دھاگہ لے کر اس پوتھ میں دھاگہ ڈال دیا پھر آپ نے پانی منگوایا۔ رنڈیاں پانی کو پہلے ایک ہاتھ میں پکڑتی پھر دوسرے پر رکھتیں اور پھر اس کو اپنے منہ پر ڈالتیں اور لڑکے اس کو جونہی پکڑتے اپنے چہرے پر ڈال لیتے ان کے درمیان بھی امتیاز کردیا پھر سارے ہدایا کو واپس کردیا پھر منذر کو کہا جائو واپس لوٹ جائو۔
Top