Tafseer-e-Mazhari - An-Naml : 35
وَ اِنِّیْ مُرْسِلَةٌ اِلَیْهِمْ بِهَدِیَّةٍ فَنٰظِرَةٌۢ بِمَ یَرْجِعُ الْمُرْسَلُوْنَ
وَاِنِّىْ : اور بیشک میں مُرْسِلَةٌ : بھیجنے والی اِلَيْهِمْ : ان کی طرف بِهَدِيَّةٍ : ایک تحفہ فَنٰظِرَةٌ : پھر دیکھتی ہوں بِمَ : کیا (جواب) لے کر يَرْجِعُ : لوٹتے ہیں الْمُرْسَلُوْنَ : قاصد
اور میں ان کی طرف کچھ تحفہ بھیجتی ہوں اور دیکھتی ہوں کہ قاصد کیا جواب لاتے ہیں
وانی مرسلۃ الیھم بھدیہ فنظرۃ بم یرجع المرسلون . اور میں ان کو ایک ہدیہ بھیجوں گی پھر دیکھوں گی کہ قاصد کیا جواب لے کر آتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ میں اپنے پاس سے کچھ تحفہ دے کر قاصدوں کو روانہ کروں گی۔ ہدیۃ وہ چیز جو ہدیہ میں دی جائے جیسے عطیہ دی ہوئی چیز۔ بغوی نے لکھا ہے : بلقیس ہدیہ بھیج کر حضرت سلیمان ( علیہ السلام) کی جانچ کرنی چاہتی تھی کہ بادشاہ ہیں یا نبی۔ اگر بادشاہ ہوں گے تو ہدیہ قبول کرلیں گے اور لشکر کشی نہیں کریں گے اور نبی ہوں گے تو ہدیہ کو رد کردیں گے اور بغیر اتباع ایمان کے راضی نہیں ہوں گے۔ اس کے بعد ہدیہ میں ملکہ نے کچھ غلام اور کچھ باندیاں بھیجیں۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : سب کو ایک ہی طرح کا لباس پہنا دیا تاکہ (لڑکے اور لڑکی کی) شناخت نہ ہو سکے۔ مجاہد نے کہا : دو سو غلام اور دو سو باندیاں بھیجی تھیں۔ مجاہد اور مقاتل کا قول ہے کہ باندیوں کو غلاموں کا لباس اور غلاموں کو باندیوں کا لباس پہنا دیا تھا۔ سعید بن جبیر نے کہا : (سونے کی) اینٹ ‘ ریشم اور دیبا کے ساتھ بھیجی تھی۔ بعض نے کہا : سونے کی چار اینٹیں بھیجی تھیں۔ وہب بن منبہ نے بیان کیا : بلقیس نے پانچ سو لڑکے اور لڑکیاں بھیجیں۔ لڑکیوں کو قبائیں اور کمر کے پٹکے یعنی لڑکوں کا لباس پہنایا اور غلاموں کو باندیوں کے کپڑے پہنائے۔ کلائیوں میں سنہری کنگن ‘ گلے میں سونے کے طوق ‘ کانوں میں بالیاں اور بالے جواہر سے مرصع پہنائے۔ لڑکوں کو پانچ سو گھوڑوں پر اور لڑکیوں کو پانچ سو خچروں پر سوار کرایا ‘ ہر گھوڑے کی لگام سنہری جواہر سے جڑی تھی اور چار جامے رنگا رنگ کے دیبا کے۔ بلقیس نے چاندی کی پانچ سو اینٹیں اور موتی اور یاقوت سے جڑا ہوا تاج بھی بھیجا اور مشک و عنبر و خود بھی ‘ پھر ایک ڈبہ میں بلا سوراخ کیا ہوا ایک قیمتی موتی اور ٹیڑھا کیا ہوا ایک پوتھ رکھ کر بند کردیا اور اپنی قوم کے ایک سردار کو جس کا نام منذر بن عمرو تھا ‘ بلوا کر کچھ دوسرے سمجھدار ہوشیار آدمیوں کو اس کے ساتھ کرکے ایک خط جس میں تحفوں کی فہرست تھی ‘ دے کر ہدایت کی اور سب چیزیں دے کر بھیج دیا اور نمائندہ سے کہہ دیا کہ سلیمان ( علیہ السلام) سے جا کر یہ کہنا کہ اگر آپ نبی ہیں تو باندیوں کو غلاموں سے الگ چھانٹ دیجئے اور بغیر کھولے بتائیے کہ ڈبہ میں کیا ہے (اور جب وہ بتادیں تو کہنا کہ اس موتی میں ٹھیک سوراخ کر دیجئے اور سوراخ دار پوتھ میں دھاگہ ڈال دیجئے لیکن کسی آدمی یا جن سے اس میں مدد نہ لیجئے۔ غلاموں اور باندیوں کو یہ بھی حکم دیا کہ غلام باندیوں کی بولی میں زنانہ لوچدار بات کریں اور باندیاں کرخت لہجے میں مردانہ بات کریں ‘ پھر قاصد سے یہ بھی کہہ دیا کہ تم اس بات کا اندازہ کرنا کہ وہ کس طرح پر پیش آتے ہیں۔ اگر غصہ کی نظر سے تم کو دیکھیں تو سمجھ لینا وہ بادشاہ ہیں ‘ تم ہرگز خوف زدہ نہ ہونا ہم ان سے زیادہ عزت رکھتے ہیں اور اگر کشادہ پیشانی اور مہربانی سے پیش آئیں تو سمجھ لینا وہ نبی مرسل ہیں۔ ان کی بات سمجھنا اور (ادب کے ساتھ) جواب دینا۔ غرض بلقیس کے قاصد سارے تحفے لے کر روانہ ہوگئے۔ ادھر ہدہد نے جلد جا کر حضرت سلیمان ( علیہ السلام) کو اس واقعہ کی اطلاع دے دی۔ آپ نے جنات کو حکم دیا کہ سونے چاندی کی اینٹیں تیار کریں۔ حکم کی تعمیل کی گئی۔ پھر آپ نے حکم دیا کہ ان اینٹوں کو اس جگہ سے نو فرسخ تک ایک میدان میں بچھا دیں اور میدان کے گردا گرد سونے چاندی کی اونچی دیوار کھینچ دیں۔ پھر فرمایا : خشکی اور دریا میں کون سا جانور سب سے اچھا ہوتا ہے ؟ حاضرین نے عرض کیا : یا نبی اللہ ! ہم نے فلاں سمندر میں کچھ جانور دیکھے ہیں جن کے رنگ مختلف ہوتے ہیں۔ ان کے دو بازو ‘ گردن پر کلغیاں اور پیشانیوں پر بال ہوتے ہیں۔ فرمایا : ابھی لے آؤ۔ جنات نے فوراً لا کر حاضر کر دئیے۔ فرمایا : میدان کے دائیں بائیں دونوں طرف سونے چاندی کی اینٹوں کے فرش پر ان کو باندھ دو اور ان کا چارہ ان کے سامنے ڈال دو ۔ جنات کو حکم دیا : اپنی اولاد کو لا کر میدان کے دائیں بائیں کھڑا کر دو ۔ ان احکام کی تعمیل کے بعد حضرت سلیمان ( علیہ السلام) اپنے تخت پر رونق افروز ہوگئے اور اپنے دائیں بائیں جانب چار چار ہزار کرسیاں بچھوا دیں اور دائیں بائیں فرسخوں تک صف بستہ کھڑے ہونے کا شیطانوں کو حکم دیا۔ جب قاصد قریب پہنچ گئے اور سلیمان ( علیہ السلام) کی حکومت دیکھی اور ایسے چوپائے جو کبھی نہیں دیکھے تھے اور ان کو چاندی سونے کی اینٹوں پر گوبر کرتے پایا تو خود وہ اپنی نظروں میں حقیر ہوگئے اور جو تحفے ساتھ لائے تھے سب پھینک دئیے۔ بعض روایات میں آیا ہے کہ حضرت سلیمان ( علیہ السلام) نے سونے چاندی کی اینٹیں بچانے کا حکم جس وقت دیا تھا اس وقت بلقیس کی بھیجی ہوئی اینٹوں کی گنتی کے مطابق جگہ خالی چھوڑ دی تھی۔ قاصد نے جب کچھ اینٹوں کی جگہ خالی دیکھی اور باقی زمین پر فرش پایا تو اندیشہ ہوا کہ کہیں کوئی ہم پر اینٹیں اٹھا لینے کی تہمت نہ لگائے اس لئے خالی جگہ پر اینٹیں پھینک دیں۔ پھر شیاطین کو دیکھ کر تو خوف زدہ ہوگئے۔ ان سے کہا گیا : آگے بڑھو ‘ ڈر کی کوئی بات نہیں۔ قاصد تمام جن و انس اور پرندوں ‘ درندوں اور چرندوں کی ٹکڑوں سے گزر کر حضرت سلیمان ( علیہ السلام) کے سامنے جا کھڑے ہوئے۔ آپ نے ان کی طرف کشادہ روئی کے ساتھ اچھی نظروں سے دیکھا اور فرمایا : کیا بات ہے ؟ امیروفد نے ساتھ لائی ہوئی چیزیں پیش کردیں اور ملکہ کا خط بھی دے دیا۔ آپ نے خط غور سے پڑھا اور فرمایا : ڈبہ کہاں ہے ؟ امیر وفد نے پیش کردیا۔ آپ نے ڈبہ کو ہلایا۔ اتنے میں جبریل ( علیہ السلام) آگئے اور ڈبہ کے اندر جو چیز تھی وہ بتادی۔ حضرت سلیمان ( علیہ السلام) نے فرمایا : اس کے اندر بغیر سوراخ کا ایک قیمتی موتی ہے اور ایک ٹیڑھا سوراخ کیا ہوا پوتھ ہے۔ قاصد نے عرض کیا : آپ نے صحیح فرمایا۔ اب موتی میں سوراخ کر دیجئے اور پوتھ میں دھاگہ پرو دیجئے۔ حضرت سلیمان ( علیہ السلام) نے جنات اور آدمیوں سے دریافت فرمایا : کوئی اس میں سوراخ کرسکتا ہے ؟ کسی کو سوراخ کرنے کی تدبیر معلوم نہ تھی اس لئے خاموش رہے۔ پھر آپ نے شیاطین سے دریافت کیا۔ ایک شیطان نے کہا : لکڑی کے کیڑے کو بلوائیے۔ حسب الحکم لکڑی کا کیڑا آیا اور دھاگہ منہ میں پکڑ کر موتی میں سوراخ کرتا ہوا دوسری جانب نکل آیا۔ حضرت سلیمان ( علیہ السلام) نے فرمایا : تو کیا انعام چاہتا ہے ؟ کیڑے نے عرض کیا : میری روزی درخت (لکڑی) میں مقرر کردی جائے۔ حضرت نے فرمایا : تیرے لئے ایسا ہی کردیا گیا۔ پھر آپ نے لڑکوں اور لڑکیوں کو الگ الگ چھانٹ دیا جس کی تدبیر یہ کی کہ سب کو ہاتھ منہ دھونے کا حکم دیا۔ لڑکی برتن میں سے پانی ایک ہاتھ میں لیتی پھر ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں ڈالتی پھر منہ پر مارتی تھی اور لڑکا براہ راست برتن سے پانی لے کر منہ پر ماتا تھا۔ لڑکی ہاتھ کے اندرونی جانب پانی ڈالتی تھی اور لڑکا کلائی کے بیرونی جانب پانی بہاتا تھا ‘ لڑکی یونہی پانی دھارتی تھی اور لڑکا اوپر سے نیچے کو ہاتھ پر پانی گراتا تھا۔ خلاصہ یہ کہ آپ نے سب کو الگ الگ چھانٹ دیا پھر لائے ہوئے ہدیے واپس کر دئیے جیسا کہ ؟ آیت میں ذکر کیا گیا ہے۔ یہ تمام تفصیل بغوی نے بیان کی ہے جو مختلف روایات سے ماخوذ ہے۔ بعض باتیں ابن ابی حاتم نے سدی کی روایت سے اور بعض باتیں ابن ابی حاتم اور ابن المنذر دونوں نے یزید بن رومان کی روایت سے بیان کی ہیں۔
Top