Maarif-ul-Quran - Al-Qasas : 41
وَ جَعَلْنٰهُمْ اَئِمَّةً یَّدْعُوْنَ اِلَى النَّارِ١ۚ وَ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ لَا یُنْصَرُوْنَ
وَ : اور جَعَلْنٰهُمْ : ہم نے بنایا انہیں اَئِمَّةً : سردار يَّدْعُوْنَ : وہ بلاتے ہیں اِلَى النَّارِ : جہنم کی طرف وَ : اور يَوْمَ الْقِيٰمَةِ : روز قیامت لَا يُنْصَرُوْنَ : وہ مدد نہ دئیے جائیں گے
اور کیا ہم نے ان کو پیشوا کہ بلاتے ہیں دوزخ کی طرف اور قیامت کے دن ان کو مدد نہ ملے گی
وَجَعَلْنٰهُمْ اَىِٕمَّةً يَّدْعُوْنَ اِلَى النَّارِ ، یعنی فرعون کے درباریوں کو اللہ تعالیٰ نے ان کی قوم کا پیشوا بنادیا تھا مگر یہ غلط کار پیشوا اپنی قوم کو آگ یعنی جہنم کی طرف دعوت دے رہے تھے یہاں اکثر مفسرین نے آگ کی طرف دعوت دینے کو ایک استعارہ اور مجاز قرار دیا ہے کہ مراد آگ سے وہ اعمال کفریہ ہیں جن کا نتیجہ جہنم کی آگ میں جانا تھا مگر استاذ محترم نادرہ روزگار حضرت مولانا سید محمد انور شاہ کشمیری قدس سرہ کی تحقیق تبعاً لابن عربی یہ تھی کہ آخرت کی جزا عین عمل ہے۔ انسان کے اعمال جو وہ دنیا میں کرتا ہے برزخ پھر محشر میں اپنی شکلیں بدلیں گے اور جوہری صورتوں میں نیک اعمال گل و گلزار بن کر جنت کی نعمتیں بن جائیں گے اور اعمال کفر و ظلم آگ اور سانپ بچھوؤں اور طرح طرح کے عذابوں کی شکل اختیار کرلیں گے اس لئے جو شخص اس دنیا میں کسی کو کفر و ظلم کی طرف بلا رہا ہے وہ حقیقۃً اس کو آگ ہی کی طرف بلا رہا ہے۔ اگرچہ اس دنیا میں اس کی شکل آگ کی نہیں مگر حقیقت اس کی آگ ہی ہے۔ اسی طرح آیت میں کوئی مجاز یا استعارہ نہیں، اپنی حقیقت پر محمول ہے۔ یہ تحقیق اختیار کی جائے تو قرآن کی بیشمار آیات میں مجاز و استعارہ کا تکلف نہیں کرنا پڑے گا۔ مثلاً وَوَجَدُوْا مَا عَمِلُوْا حَاضِرًا اور فَمَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَّرَهٗ وغیرہ۔
Top